’’ ایک صفحہ کی تعریف‘‘

Aug 18, 2023

مسرت قیوم

ترجمہ:۔ اور جب پہاڑ چلائے جائینگے۔ اور جب سمند بھڑکا دیے جائینگے (آیت 3)۔ (آیت6) سورۃ التکویر) پوری دنیا اسوقت قیامت کی تصویر پیش کر رہی ہے دیوہیکل گرتے ہوئے پہاڑ۔ بپھرتے سمندر۔ جاپان سے امریکہ تک طوفانی ہوائیں۔ شدید بارشیں۔ حالات وہاں بھی انتہائی خوفناک ہیں پر دگرگوں نہیں۔ ایسے مواقع پر انتظامیہ۔ حکومت فوری حرکت میں آجاتی ہے (برقیاتی چینلز پر’’ نوٹس لے لیا‘‘ کا ٹکر نہیں چلتا) تو نقصان وہاں بھی زیادہ ہو رہے ہیں مگر بروقت ریلیف اور شافی مدد کی وجہ سے عوام کو دْکھ کم اْٹھانا پڑتے ہیں جبکہ ہماری طرف۔ ابھی تک 2010  کے سیلاب متاثرین مکمل سنبھالے نہیں جا سکے۔ زلزلہ۔ سیلاب یا کوئی بھی آفت قوم کیلئے واقعی آفت ثابت ہوتی ہے جبکہ ’’حکمرانوں ‘‘ کے لیے نعمت غیر مترکبہ‘ سیاسی پوائنٹ‘  فوٹو شوٹ‘ شعور‘ آگاہی نے عوام کو بہت اوپر کی سطح پر پہنچا دیا ہے۔ وہ سب حرکات  افعال کو اْس کی اصل شکل میں پہنچانتے ہیں اگر نہیں سمجھ آئی تو ہمارے اکابرین کو۔ گھنٹوں گرمی۔ سردی میں بھوکے پیاسے کھڑے رکھنے کے بعد ایک آدھ پیکٹ نحیف ہاتھوں میں تھمانا یہ ریلیف نہیں ذلت ہے جو ہم اپنی قوم کو تھماتے ہیں۔ مدد وہ ہے جو گھر بیٹھے موصول ہو۔ جذبہ وہی نیک ہے جو بنا مانگے فرائض کی ادائیگی کروائے۔ قومی ٹیکس کے پیسوں سے اپنی تصاویر کی اشاعت سے منع کیے رکھے۔ اپنی ذات کی رْونمائی سے روکے رکھے۔ قارئین ’’80 سال’’ بیت گئے۔ تاریخ پڑھی۔ پچھلے ادوار کے واقعات سْنے۔ پڑھے۔ ہر طرف حکمران ہی نظر آئے۔ اشرافیہ ہی دِکھائی دی۔ کہیں بندہ بشر نظر نہیں آیا۔سب کا سائز۔ مرتبہ بڑھتا گیا اور’’ عوام‘‘ وہ بھی اصل عوام یعنی مڈل کلاس سْکڑتے رہے۔ 
بطور قوم ہمارا کیا کردار ہے ؟؟؟ کبھی کِسی نے سوچا کوئی جیولر ہے درزی ہے مالی ہے دودھ فروش ہے یا تاجر صنعت کار۔ ذرا خود کا جائزہ لے کہ وہ خود معاشرے کے سدھار میں حصہ ڈال رہا ہے یا پھر بگاڑ میں ؟ ہم خواہش رکھتے ہیں کہ ہمارے حکمران ’’خلفائے راشدین‘‘ مثل ہوں جبکہ ہمارے اعمال تو ادنیٰ مسلمانوں جیسے بھی نہیں۔ صرف چند شعبوں کا تذکرہ کیا ہے ان کے معمولات۔ عادات کو پوری قوم بخوبی جانتی ہے اْن پر سیاہی ضائع کرنے کا فائدہ نہیں۔ کچھ عرصہ سے سیلابی صورتحال اور نتائج‘ تقریباً سٹرکیں ختم‘ اکثریتی پْل تباہ‘ پہاڑوں کے پہاڑ لْڑھک گئے۔ کئی گاؤں مٹ گئے۔ دریا اور شاہرات ایک منظر بن چکی ہیں۔ سچ ہے اور اٹل حقیقت پر دلی ایمان ہے کہ بارش۔آندھی‘ زلزلے۔ اموات سب ’’حْکم ِ ربی‘‘ کے تابع ہیں۔ یہاں صرف زمینی حقیقت کا ذکر۔ پورے مناظر کا سکرپٹ‘ رائیٹر ٹھیکیداری نظام۔ ’’ٹھیکیدار ‘‘ مختصر وقت میں ایک کمرہ سے محل در محل کا مالک بن جاتا ہے ایسے لوگوں کا دل کیوں نہیں بھرتا و ہ سچ یہ ہے کہ قصداً مضبوط کام نہیں کیا جاتا کیونکہ اگر ایک مرتبہ معیاری کام کر دیا تو پھر تو کچھ بھی نہیں ٹوٹے گا۔ سٹرک بننے سے پہلے ہی اْکھاڑنے کی وجوہات ؟ مزید پیسہ۔ مزید کمیشن۔ کھمبے صحیح جگہ پر لگا دئیے۔ ٹیلی فون کی تاریں پہلے بچھا دیں تو پھر کون سٹرک توڑنے دیگا ؟ سیوریج نظام خراب۔ پانی پینے والی پائپ لائن اور گٹر کا نجاست بھرا پانی ایک صفحہ پر۔ شفاف اور نجاست کا ملاپ۔ ہمارا اپنا کیا دھرا ہے ہم بطور قوم اپنے ملک کے آئین کی بے حرمتی۔قوانین کی پامالی۔ کرپشن میں روز افزوں اضافہ کے زیادہ ذمہ دار ہیں۔ حکومت کا کام ہے پالیسی بنانا‘ فیصلہ کرنا‘فنڈز منظوری اور اجرائ۔ اگلی ذمہ داری قوم پر آجاتی ہے لیڈران کیلئے ایمانداری‘ خلوص‘نیت کی ’’24 گھنٹے‘‘ خواہش کرنیوالے اپنی ذات کو ’’اوصاف حمیدہ‘‘ سے کیوں محروم رکھ رہے ہیں ؟  اب سانس ہی باقی بچی ہے وہ بھی اِسلیے بچ گئی کیونکہ ’’مالک حقیقی‘‘ کے قبضہ قدرت میں ہے۔ ٹیکس در ٹیکس مسائل کا حل نہیں حکومت کو سمجھ جانا چاہیے تھا اْنکا تعلق بھی قوم سے ہی ہے  ضروری ہے کہ حکومتوں کے سائز چھوٹے کر دئیے جائیں۔ ایک ہی مقصد‘طرح کے ادارے ختم کر دیں۔ پانی‘ بجلی‘ گیس وغیرہ وغیرہ صرف صوبوں میں کام کریں۔ اینٹی کرپشن۔ ایف آئی اے۔ نیب (تقریباً سبھی جماعتیں قائل ہیں) ایک ہو مگر فعال ہو۔ اہلکار ایماندار بھرتی کیے جائیں۔
’’قوم کے ہیرو خاموش سپاہی‘‘
وہ جن کی سلطنت میں سورچ غروب نہیں ہوتا تھا آدھی دنیا کے مالک۔ دوسری طرف برصغیر پر حکمرانی کا خواب سجائے پھرنے والا بظاہر روشن چہرہ مگر ’’مقبوضہ وادی کشمیر‘‘ کو دوزخ بنانے والا کالا دل۔ سب ناکام ہوگئے۔برطانیہ میں مقیم طارق محمود کو اپنے نانا کے متعلق معلومات کی ضرورت تھی۔ انکے نانا رسالدار خان بہادر 1893کے لگ بھگ بوکن گاؤں۔ ڈاکخانہ رامن تحصیل گجر خان ضلع راولپنڈی میں پیدا ہوئے۔ طارق محمود کے خٰیال کے مطابق وہ ہندوستان کی انفنٹری تیرویں فرنٹیر فورس رائفلز میں تھے۔ طارق محمود کی والدہ اور فیمیلی برطانیہ میں آباد ہو گئے تو انکو اپنے نانا کے متعلق زیادہ تفصیلات نہ تھیں۔ مگر چونکہ وہ برٹش آرمی کی کمانڈ میں تھے اور اس دوران جنگ عظیم پہلی اور پھر دوسری میں بھی تھے۔ انکی فیملی کو اس فوجی سروس کے دوران انکو ملنے والے اعزازات کی تفصیلات جانے کی خواہش ہوگئی۔ اکثر و بیشتر میڈل کے ساتھ زمینیں بھی الاٹ کی جاتی تھیں۔ جب رسالدار خان بہادر فوت ہوئے تو انکی بیٹی کی عمر صرف آٹھ سال تھی۔ انکے والد کی سروس کے متعلق تمام کاغذات اور میڈل انکے ایک سیکرٹری کے پاس تھے جس نے انکی فیمیلی کو دینے کی بجائے خود ہتھیا لئے تھے۔ طارق محمود نے برٹش ہائی کمیشن اسلام آباد کو خط لکھ کر تفصیلات لینے کی کوشش کی۔ انہوں نے 16مئی 2005 کو جواب دیا کہ وہ اس قابل نہیں ہیں کہ انکی اس معاملہ میں مدد کر سکیں اور کامن ویلتھ ایکس سروس ایسوسی ایشن کراچی سے رابطہ کرنے کیلئے کہا۔ طارق محمود نے رائل کامن ویلتھ کو خط لکھ کر اپنی خواہش کا اظہار کیا اور اپنی معلومات بتائیں۔ انہوں نے انڈیا میں کرنل اخیل شرما (ریٹائرڈ) جنرل سیکرٹری ، دہلی انڈیا کو تفصیلات بھیجیں اور مدد کی درخواست کی۔ انڈیا سے کرن شرما نے جواب دیا ’’ہم نے آرمی ہیڈ کوارٹر نیو دہلی کو تمام تفصیلا ت بھیج کر جاننے کی کوشش کی مگر ان کا جواب آیا ہے کہ ان کے پاس ان کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے۔ کیونکہ یہ یونٹ 1947میں پاکستان منتقل ہو چکا تھا۔ انہوں نے یہ بھی کہ کہ مندرجہ ذیل صاحبان آپ کی اس معاملے میں مدد کر سکتے ہیں۔ بریگیڈئیر اشفاق صاحب کو تمام تفصیل بتائی گئی۔ انکو پتہ چلا کہ کس طرح برطانیہ اور ہندوستان کے متعلقہ ادارے طارق محمود صاحب کی مدد نہیں کر سکے کیونکہ یہ خط و کتابت انکو پہنچائی گئی۔ انہوں نے رسالدار خان بہادر کا مکمل ریکارڈ متعلقہ محکموں سے مسلسل رابطہ کرنے کے بعد حاصل کر لیا اور طارق محمود صاحب کو پہنچایا۔ یہ نہایت ہی مشکل کام تھا۔ اتنے پرانے ریکارڈ تک رسائی حاصل کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔ مگر انہوں نے خدمت خلق کے جذبے سے کام کرتے ہوئے اس کو اپنا فرض سمجھ کر پورا کیا۔ ان تفصیلا ت میں یہ شامل تھا کہ وہ کب سروس میں آئے کیا کیا ترقیاں ملیں اور کب ریٹائر ہوئے۔ یہ بھی بتایا گیا تھا کہ سروس کے دوران انکو کون کون سے ایوارڈز ملے۔ انکی فیملی کی تفصیل اور گھر کا مکمل ایڈریس بھی تھا۔

مزیدخبریں