یہ ان دنوں کی بات ہے،ابھی مجھے ایم اے اردو کاامتحان پاس کیے ہوئے زیادہ عرصہ نہیں ہواتھا۔ بے روزگاری کے عالم میں( روشن خوابوں کی جستجو میں، ویران آنکھوں کے ساتھ)نوکریوں کے اشتہارات کے لیے اخبار کھنگالتے رہنا ،میرا محبوب مشغلہ تھا۔ اسی دوران میں بہاولپورکے ایک عسکری ادارے کے زیرانتظام تعلیمی ادارے میں اردو کے استاد کی ایک اسامی کا اعلان ہوا، میں نے بڑے اعتمادکے ساتھ ملازمت کی درخواست بھیج دی،سب سے پہلے تحریری امتحان ہوا، جس میں میری پہلی پوزیشن تھی۔دوسرا مرحلہ انٹرویو کا تھا ، پینل کے سربراہ مجھ سے اپنی پدری زبان یعنی انگریزی میں سوالات کرتے رہے اورمجھے اپنی مادری اور قومی زبان کے علاوہ کچھ آتا نہ تھا۔نتیجہ ناکامی کی صورت میں نکلا۔ فرنگی زبان نے مجھ جیسے دیہی لوگوں کا بہت استحصال کیا ہے۔ یہ ایک ظلم اورسہی،بقول انورمسعود :
دوستو انگلش ضروری ہے ہمارے واسطے
فیل ہونے کوبھی اک مضمون ہوناچاہیے
وقت پرلگاکراڑنے کی بجائے اب توسپرسانک جیٹ کی طرح سپیڈپکڑتا ہے، بعدمیں مجھے کورکمانڈر بہاولپور کے آفس سے مشاعروں میں شرکت کے دعوت نامے آئے، اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں ہونے والی علامہ اقبال کانفرنس کے اختتامی سیشن میں صدارتی پینل میں شامل کیاگیا۔یوں فواروں اور نوابوں کے اس شہر سے مضبوط تعلق استوار ہوگیا۔ چندروزپہلے مجھے بہاولپور کے ایک نوزائیدہ تعلیمی ادارے صادق کالج وویمن یونیورسٹی میں لیکچرار اوراسسٹنٹ پروفیسرز کی خالی سیٹوں کے انتخابی پینل میں بطورماہرمضمون شرکت کرنے کا دعوت نامہ ملا۔ کچھ نجی مصروفیات کے باوجود میں نے شرکت ضروری سمجھی۔ایک تھکا دینے والے طویل سفرکے بعدنجی ٹرانسپورٹ کمپنی کی گاڑی کے ذریعے جب میں بہاولپور پہنچاتومجھے لینے کے لیے یونیورسٹی کی گاڑی بس اسٹینڈ پرموجود تھی۔شائستہ اطواراور مودب ڈرائیور نے مجھے اسلامیہ یونیورسٹی کے اولڈکیمپس کے ریسٹ ہائوس میں میرے لیے مختص کردہ کمرے میں پہنچادیا۔شام کو ٹہلنے کے لیے باہرنکلا تو سامنے گورنمنٹ صادق ایجرٹن کالج کی بلڈنگ تھی،اس تاریخی ادارے کے ساتھ مولوی وحیدالدین سلیم،ڈاکٹر شجاع ناموس، ڈاکٹرمحمدباقر، محمدکاظم، احمدندیم قاسمی ،محمدخالد اختر اورخواجہ عبدالحمیدیزدانی جیسے لوگ متعلم یامعلم کی حیثیت سے وابستہ رہے ہیں۔ایسے تاریخی ادارے ہمارے ملک کی پہچان ہیں،ان کی عمارتیں جیسے جیسے خستہ وکہنہ ہوتی جاتی ہیں ان کے جوبن میں اضافہ ہوتاجاتا ہے۔دوسرے روزصبح سویرے میں وویمن یونیورسٹی کے انٹرویو پینل میں شرکت کے لیے پہنچاتو ادارے کا حسن انتظام دیکھ کردل باغ باغ ہوگیا۔جامعہ کی وائس چانسلر ڈاکٹر صاعقہ امتیازبنیادی طورپرانگریزی ادب کی استاداور عمدہ منتظم ہیں۔پینل میں پروفیسر ڈاکٹرمحمدعلی شاہ،ڈاکٹر شبرعتیق،پروفیسر ڈاکٹر میمونہ غنی،ڈاکٹرفاطمہ مظہر شامل تھے،میرے ساتھ دوسرے ماہرمضمون کے طور پر معروف شاعر پروفیسر انورجمال ملتان سے بطورخاص تشریف لائے تھے۔انور جمال کا ایک شعر قومی سطح پران کی پہچان ہے:
اے قادرِ مطلق تری تقسیم عجب ہے
دستار انھیں دی ہے جوسرہی نہیں رکھتے
انٹرویوزکا یہ سلسلہ ایک اچھاتجربہ تھا،میں نے شعوری طور پردریا دلی کامظاہرہ کیا اور امیدواروں سے سوالات پدری زبان میں کرنے کی بجائے مادری اورقومی زبان میں کیے ، تاکہ جوظلم مشکل دنوں میں مجھ پرکیاگیا تھا،اسکی زدمیں کوئی اورنہ آجائے۔ بہاولپور کوکسی زمانے میں الگ ریاست کی حیثیت حاصل تھی۔صحرامیں نخلستان جیسا یہ شہر فواروں اورمحلوں سے زیادہ اپنے مہمان نوازاور بااخلاق باشندوں کے سبب ہماری تہذیب کے مثبت پہلوئوں کا عکاس ہے۔یونیورسٹی سے فراغت کے بعدمیں نے اپنے ہم دم دیرینہ پروفیسر ڈاکٹر رفیق الاسلام سے رابطہ کیا ،وہ فرطِ محبت میں بے اختیار ہوکر اپنی آرام دہ اوریخ بستہ گاڑی میں لینے آپہنچے۔بہاولپور کے تاریخی مقامات میں عباسی مسجد،سنٹرل لائبریری،قلعہ ڈیرآور،نورمحل،دربار محل، گلزارمحل اورفریدگیٹ اہم ہیں۔وقت بہت کم تھا سو ذہین اورخوبرو میزبان کی معیت میں صرف نورمحل ہی کی سیر ہوسکی۔روشنیوں میں نہایا ہوا یہ محل زمین پر حسن وجمال کا ایک شاندار مرقع ہے۔نواب صادق عباسی پنجم کی رسم تاج پوشی اسی محل میں ہوئی تھی۔نواب صاحب کی انسان دوستی اور عدل کے چرچے عام ہیں۔تصویروں میں محل کے جس چبوترے پروہ رسم تاج پوشی کے موقع پر برطانیہ کے ریذیڈنٹ کے ساتھ براجمان تھے ،عین اسی مقام پراب ان کا ایک مجسمہ نصب کردیاگیاہے۔ریاست میں تاج برطانیہ کی بڑھتی ہوئی مداخلت کی وجہ سے صوفی شاعر خواجہ غلام فرید نے نواب آف بہاولپورکو مشورہ دیاتھا:
اپنے دیس کوں آپ رسا توں
پٹ انگریزی تھانے
اور اب نورمحل میں نواب صادق عباسی مرحوم کے مجسمے کی پتھرائی ہوئی آنکھوں میں بہت سے شکوے تھے، جیسے کہہ رہے ہوں ’’ دیکھو دیکھو ! مرنے کے بعدبھی میں اورمیرا گھر ٹکٹ کی ذیل میں تمھیں اچھا خاصا ریونیو دے رہے ہیں‘‘۔تقسیم ہندکے موقع پر پنڈت جواہر لال نہرو نے بہت سی عنایات کے بدلے میں ریاست کے ہندستان کے ساتھ الحاق کی استدعا کی تھی ،اس پر نواب نے اسے جواب دیاتھا، ’’کوئی بھی شریف آدمی اپنے گھرمیں داخل ہونے کیلئے سامنے والا دروازہ استعمال کرتاہے۔عقبی گیٹ تو چوروں کیلئے بنائے جاتے ہیں،اور پاکستان میرا سامنے والا دروازہ ہے‘‘۔ نواب صادق کے پاکستان پربہت سے احسانات ہیں۔ تاریخ سے رجوع کریں توان احسانات کاصلہ بھی انھیں خوب دیا گیا۔ نورمحل کے اندرآویزاں تصاویربھی نوابوں کے عہدکی خوب صورت عکس گری کرتی ہیں۔ ان تصاویرکا سلسلہ تواپنی جگہ لیکن ہمارے ارباب اختیار کی علوم وفنون سے بے رغبتی یہاں بھی دکھائی دی۔ اس کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ بہاولپور کے نواب کو حج بیت اللہ کی سعادت حاصل ہوئی ،ریاست کے دربار سے وابستہ شاعر حفیظ جالندھری بھی وفدکے دیگر لوگوں کے ساتھ حج کے سفر میں انکے ہمراہ تھے۔اس حج کاسفرنامہ بھی مولوی حفیظ الرحمٰن نے ’’حج صادق‘‘کے عنو ان سے تحریر کیا،جو ریاست کے سرکاری مطبع سے شائع ہواتھا۔حفیظ جالندھری کے اس تعلق کے سبب ان کی تصویربھی قومی ترانے کے ساتھ نورمحل میں آویزاں کی گئی ہے لیکن یہ حفیظ نہیں بلکہ پروفیسر جگن ناتھ آزاد کی تصویرہے۔افسوس کہ ہمارے اہل نظرکے علمی سوتے اس قدر خشک ہوچکے ہیں کہ یہ لوگ ہرگتھی کوسلجھانے کے لیے گوگل (Google) سے رجوع کرتے ہیں۔کیا اب ہم اپنے قومی ترانے کے خالق کی شکل سے بھی آشنا نہیں۔اللہ نہ کرے اس کی تخلیق کے ساتھ یہ حشرہو۔ واپسی پر ڈاکٹر رفیق الاسلام سے خوشبودار اورمیٹھے آموں کی پیٹیاں بطور تحفہ عطا ہوئیں۔بہاولپور سے ملنے والی آموں کی پیٹیاں ہماری تاریخ میں تباہی کا سبب بنتی ہیں، لیکن اس باریہ کسی مطلق العنان حکمران کی بجائے ایک غریب استاد کے لیے تھیں، اس لیے بغیرکسی ہچکچاہٹ کے یہ تحفہ قبول کرلیا گیا۔ بقول ساغرخیامی:
فردوس میں گندم کے عوض آم جوکھاتے
آدم کبھی جنت سے نکالے نہیں جاتے
٭…٭…٭