زمان پارک سے پیالے میں رکھی پوٹلی اس میں پڑ ی راکھ اس میں دبا تعویز بھی برآمد

زمان پارک کے مرشد خانے سے جس طرح کی جادوئی لوازمات ظاہر ہو رہے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں اعلیٰ تعلیم یافتہ دنیا بھر میں مقبول ایک جہاندیدہ کھلاڑی جو وزارت اعظمیٰ پر بھی متمکن رہا کی بجائے ایک توہمات پرست، تعویز گنڈوں پر اعتقاد رکھنے والا رہتا ہے۔ یقین نہیں آتا ایک ماڈرن مقبول شخص صرف اقتدار کی خاطر ایسی احمقانہ باتوں کا اسیر ہو گیا۔ وہ بھی ایک خاتون کے کہنے پر جس کا تعلق صرف ایک روحانی سلسلے سے تھا جو بعدازاں عجب پریم کی غضب کہانی بن گیا اور وہ خاتون جنہیں خان جی آج تک مرشد قرار دیتے ہیں ان کی بیگم بن گئیں۔ تصوف کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں خواتین میں بڑی بڑی نیک صوفی خواتین کا ذکر ہے مگر کوئی سلسلہ تصوف ان سے منسوب نہیں یعنی وہ مرشد یا شیخ نظر نہیں آتی خواہ رابعہ بصری ہی کیوں نہ ہوں۔ ہمارے ہاں البتہ بنگالی باجی، کالی باجی ، عامل باجی، شکتی باجی، ایول ڈیڈ باجی وغیرہ وغیرہ کے اشتہار آج بھی در و دیوار پر نظر آتے ہیں جن میں بڑے بڑے بلند بانگ دعوے کئے جاتے ہیں۔ گزشتہ روز میڈیا پر بات کرتے ہوئے زمان پارک میں تلاشی لینے والی پولیس ٹیم کے سربراہ نے بتایا کہ انہوں نے جب مکینوں کے ذاتی کمرے کی تلاشی لی تو وہاں سے ایک پیالہ ملا جس میں ایک پوٹلی تھی جو کھولی تو اس میں راکھ پڑی تھی جس میں ایک تعویز دبا تھا۔ خاتون خانہ سے زبردست مزاحمت کی کہ اس پیالے میں مقدس روحانی چیزیں ہیں ان کو نہ چھیڑا جائے۔ مگر یہ ساری کوشش ناکام گئی۔ اب یہ جادوئی متبرک اشیاء پولیس کی تحویل میں ہیں۔ اگر وہ چاہے تو تعویزوں کے کسی بڑے کاٹ پلٹ کے ماہر سے پتہ کرائے کہ اس میں کیا لکھا ہے ا کونسا منتر یا سحر پوشیدہ ہے۔ 
٭٭٭٭
آسٹریلیا، طیارے میں بم کی جھوٹی خبردینے والا پاکستانی گرفتار 
ایسا کرنا تو ہمارے ہاں آسان نہیں۔ ایسے معاملے پر فوری گرفت ہوتی ہے۔ اس پاکستانی سابق ماڈل عارف علی کو کیا سوجھی کہ اس نے آسٹریلیا میں ایسی احمقانہ حرکت کی۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ اچانک بیٹھے بٹھائے یہ شہرت پانے کے دورے کیوں لوگوں پر پڑتے ہیں۔ یہ موصوف ابرار الحق کے مشہور گانے ’’پرتیو‘‘ میں ماڈلنگ کر چکے ہیں۔ انہوں نے شاید سڈنی تا کوالالمپور کی پرواز کو بھی شوٹنگ سمجھ لیا ہو گا اور اعلان کیا کہ ان کے بیگ میں دھماکہ خیز مواد موجود ہے جس کے بعد ظاہر ہے جہاز میں تھرتھلی مچ گئی اور سکیورٹی حکام نے آکر موصوف کی آئو بھگت کا فریضہ انجام دیا اور گرفتار کر لیا۔ ایسا ہی ایک اور واقعہ گزشتہ دنوں غالباً ملائیشین ائرلائن میں بھی پیش آیا جہاں ایک باریش شخص نے اچانک سیٹوں کے درمیان خالی راہگزار میں جائے نماز بچھا کر نماز پڑھنا شروع کر دی۔ اب آگے اور پیچھے مسافروں کا رش لگ گیا مگر وہ صاحب نماز میں مشغول رہے اور مسافر انہیں غصہ میں گھورتے رہے۔ معلوم نہیں انہوں نے ایسا کر کے کیا ثابت کیا۔ ہوائی سفر لاکھوں مسلمان کرتے ہیں۔ وہ اس دوران ’’رخصت‘‘ پر عمل کرتے ہیں۔ نشست پر بیٹھے ہی نماز ادا کرتے ہیں۔ وہ یوں نماز کو تماشہ بنانے سے گریز کرتے ہیں۔ جب جہاز کے عملے نے انہیں نشست پر بٹھا کر سمجھانے کی کوشش کی تو موصوف بپھر گئے اور اسلام کے نام پر زور دار بحث چھیڑ دی جس کے بعد انہیں سکیورٹی والے اٹھا کر لے گئے۔ موصوف کے بارے میں پتہ چلا ہے کہ وہ بھی اداکاری کے شعبے سے وابستہ تھے۔ اسلام قانون کی پاسداری اور دوسروں کے لیے آرام کا درس دیتا ہے۔ مگر ہم نجانے کیوں اس کے الٹ کرتے ہیں۔ 
٭٭٭٭
فاطمہ بھٹو اور ذوالفقار علی بھٹو جونیئر نے انڈس ڈولفن بچائو کے لیے تنظیم بنا لی 
شکر ہے ایک بڑے سیاسی خانوادے کے ہونہار بچوں کو احساس ہوا ہے کہ صرف سیاست ہی سب کچھ نہیں دنیا میں کرنے کے اور بھی بہت سے کام ہیں۔ ان کاموں کی بدولت عزت بھی ملتی اور شہرت بھی۔ عبدالستار ایدھی، ڈاکٹر روتھ تو اب اس دنیا میں نہیں مگر اپنے کام اور انسانوں کی خدمت کی وجہ سے انہیں آج بھی سب یاد کرتے ہیں ان کا نام عزت سے لیتے ہیں۔ سیاست میں کیا ہے۔ اگر 100 لوگ حمایت کرتے ہیں تو 100 لوگ مخالفت کرتے ہیں۔ بہت سے لوگ عوامی خدمت کرتے کرتے جب سیاست میں آئے تو اپنی عزت گنوا بیٹھے۔ اگر ہمارے بڑے بڑے سیاسی خانوادوں کے نوجوان سیاست کی بجائے انسانوں، جانورں اور سماج کی خدمت کا راستہ چنیں تو انہیں وہ عزت ملے گی جس کا ان کے بڑوں نے سوچا تک نہیں ہو گا۔ بھٹو خاندان سے زیادہ عزت و شہرت سیاسی میدان میں شاید کسی اور خاندان کو ملی ہو گی۔ مگر اس کے اصل وارث ذوالفقار علی بھٹو جونیئر اور ان کی بڑی بہن فاطمہ بھٹو نے بھی دیکھ لیں اپنے دادا، باپ ،چچا اور پھوپھی کی المناک اموات کے بعد کوچہ سیاست میں آنے کی بجائے خدمت کی دوسری راہ تلاش کر لی۔ وہ دیہات میں سندھی مظلوم ہاریوں کے مسائل حل کرنے میں کوشاں ر ھتے ہیں اور اس سے بھی بڑی بات پاکستان میں پائی جانے والی دریائے سندھ کی نایاب اندھی ڈولفن مچھلی کی بقا کے لیے کوشاں ہیں تاکہ اس انمول پاکستانی ڈولفن کی نسل کو جو معدومیت کے خطرے سے دوچار ہے بچایا جائے۔ فاطمہ بھٹو ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ دانشور خاتون ہیں انہوں نے بھی اپنے بھائی ذوالفقار بھٹو جوینئر کی اس جدوجہد میں ساتھ دینے کے لیے ان کے ساتھ مل کر یہ تنظیم بنائی ہے جو انڈس بلائنڈ ڈولفن کی نسل کی بقا کے لیے کام کرے گی تاکہ سندھ کے پانیوں میں یہ ڈولفن تیرتی اچھلتی کودتی صناعی قدرت کا نظارہ پیش کرے اور لوگوں کو انہیں دیکھ کر مسرت ہو۔ یوں ان کے شکار اور بیماریوں کا تدارک بھی ممکن ہو گا۔ یہ ہوتا ہے اچھا کام۔
رانی پور سندھ میں بااثر پیر خاندان کے گھر میں 10 سالہ ملازمہ کی پراسرار موت یا قتل
ابھی ایک جج کی بیوی کے ہاتھوں زندہ درگور ہونے والی بچی کی حالت پر لوگ آنسو بہا رہے ہیں کہ سندھ میں ایک اور 10 سالہ بچی پر ایسی ہی قیامت ٹوٹ پڑی جو یہ صدمات برداشت نہ کر سکی اور اپنے پر ہونے والے تمام مظالم کی شکایات ہے کہ بارگاہ خداوندی میں پیش ہو گئی جہاں وہ ضرور کہہ رہی ہو گی کہ ’’مجھے کس جرم میں قتل کیا گیا‘‘ یہ وہ سوال ہے جو ان وحشی مالکان جو پیر بھی ہیں جج ، صنعتکار ، تجار اور ٹیچر و مولوی بھی ، پڑھے لکھے اور انپڑھ بھی ان کے ہاتھوں مرنے والے جسمانی و روحانی زیادتیوں کا شکار ہر مرنے والی بچی یا بچے کی روح انصاف ملنے تک ہم سب سے بھی یہی سوال کرتی رہے گی۔ اگر ان مظلوموں کو انصاف نہ ملا تو بروز حشر ہم بھی سزا کے مستوجب ہوں گے۔ ہم سے مراد ہمارے حکمران، منصف اور نظام ریاست چلانے والے قانون نافذ کرنے والے سب ہیں۔ ضلع خیر پور سندھ کی تحصیل رانی پور میں بااثر پیر خاندان سے تعلق رکھنے والے اسد شاہ کے گھر میں کام کرنے والی 10 سالہ فاطمہ کی موت کی وائرل ویڈیو دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ رات بھر یہ تقریباً بے لباس بچی جسے بری طرح تشدد کانشانہ بنایا گیا تھا فرش پر بچھی چادر پر تڑپتی مر گئی اور ظالم اپنے بیڈ پر سوتا رہا۔ بعدازاں اس کے گھر والوں کو بتایا کہ بچی رات کو بیماری کی وجہ سے مر گئی ہے۔ پولیس بھی معاملہ دبا گئی مگر خون ناحق کب چھپتا ہے بقول شاعر 
’’جو چپ رہے گی زبان خنجر ، لہو پکارے گا آستین کا‘‘ 
بچی کو چپ چاپ گھر والوں نے ا س ڈر سے دفنا دیا کہ ان کی 3 اور بچیاں بھی پیروں کے گھر میں ملازم ہیں کہیں ان پر آفت نہ ٹوٹ پڑے غسل دینے والیوں کے مطابق بچی کا جسم زخموں سے چور چور تھا۔ کئی ہڈیاں سلامت نہیں تھیں۔ جب بات پھیلی تو ملزم کو گرفتار کر لیا۔ اب یہ معاملہ یہاں ختم نہیں ہونا چاہیے سول سوسائٹی خاموش نہ رہے اور شریک جرم ہر کردار کو کیفر کردار تک پہنچانے کی تگ و دو جاری رکھے۔ حکومت بھی گھروں، دکانوں اور فیکٹریوں میں کام کرنے والے معصوم بچوں اور بچیوں کے تحفظ کے لیے سخت اقدامات کرے تاکہ انہیں درندگی کا نشانہ بننے سے بچایا جا سکے۔ 
٭٭٭٭

ای پیپر دی نیشن