صرف تنقید کیجیے

صرف تنقید کیجیے ( خنساءسعید )
 
یہ کیا لکھا ہے تم نے ، تمہیں لکھنا چھوڑ دینا چاہیے 
تمہاری تحریر میں ہر طرف جھول ہی جھول نظر آ رہا ہے 
کم کھایا کرو بہت موٹی ہوتی جا رہی ہو عجیب لگتی ہو 
تم میں ذہانت ، قابلیت ، کام کرنے کی صلاحیت بالکل بھی نہیں، مگر شکر کرو ہم نے تمہیں کام پر رکھا ہوا ہے 
تم جیسی عورتوں کی کوئی بات نہیں سنتا ،بڑی آئی عورت کے حقوق پر بات کرنے والی 
بہت بے وزن ،بے معنی سی فضول شاعری کرتے /کرتی ہو تم 
بہت کالا رنگ ہوتا جا رہا ہے تمہارا بدصورت لگنے لگی ہو /لگے ہو
 
یہ وہ جملے ہیں جن کو روزمرہ کی حقیقی زندگی جو سکرین سے ہٹ کر ہو، یا سوشل میڈیا سکرین کی زندگی ہو ہر انسان کو سننے اور برداشت کرنے پڑتے ہیں۔ان ٹاکسک اور حقارت آمیز جملوں کو سن کر ہزاروں کی تعداد میں لوگ دل برداشتہ ہوتے ہیں آنسو بہاتے ہیں ڈپریشن کے مریض بن جاتے ہیں اور کہنے والے ان جملوں کو تنقید کا نام دے کر ان جملوں کو استعمال کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں۔جبکہ ایسی سوچ ایسے جملے نکتہ چینی اور کسی کے کام میں کیڑے نکالنے کے علاوہ اور کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔اور تنقید تو بڑی خوش اسلوبی سے خامیوں کے ساتھ ساتھ خوبیوں کا بھی تذکرہ کرتی ہے برائیوں کے ساتھ ساتھ اچھائیوں کو بھی بیان کرتی ہے تنقید تو روح حیات ہے ،ہمارے لیے وجہ ثبات ہے اس کی بدولت ہر قسم کے انتشار اور خلفشار سے نجات ملتی ہے اور راہ عرفان ذات ملتی ہے۔

پروفیسر محمد احسان الحق اپنی کتا ب اصول ِ تنقید میں لکھتے ہیں کہ تنقید کی برتر سطح یہ ہے کہ اس میں انسان حیات و کائنات کی ہر شے کے بارے میں صداقت معلوم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ سائنس دان ، ماہر نباتات ، ماہر حیوانات ، ماہر لسانیات اور اس طرح تمام علوم سے تعلق رکھنے والے انسان اپنے اپنے طور پر اپنے اپنے طریق کار اور اپنے اپنے مطمع نظر کے مطابق تنقیدی صلاحیت کا استعمال کرتے ہیں اور معاشرے میں اپنا مثبت کردار ادا کرتے ہیں۔بگاڑ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب نکتہ چینی کو تنقید کا نام دے کر کسی بھی اچھے کام یا اچھی تحریر میں سے سامنے والے کو زچ کرنے لیے یا پھر تضحیک کا نشانہ بنانے کے لیے حظ اٹھائے جاتے ہیں۔عمومی تنقید کے ذریعے ہماری روز مرہ زندگی کے مسائل حل کیے جاتے ہیں جبکہ ادبی تنقید کے سبب صحت مندانہ افکار اور خوش نما تخلیق کے امکانات روشن تر ہوتے جاتے ہیں۔تنقیدی عمل تو ہماری کامیاب و کامران زندگی کا سب سے بڑا سہارا ہے تنقیدی رجحانات سے ہمیں وہ آگاہی نصیب ہوتی ہے جو نیکی اور بدی کی چھان بین کرتی ہوئی زندگی کی اساس بن جاتی ہے۔
 کسی کی بات سے اختلاف کرنا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ یہ ہمیشہ سے تھی اور ہمیشہ رہے گی مگر اب ہم منطق سے زیادہ اپنی انا کے قیدی بنتے جا رہے ہیں۔ احساس اور فکر سے عاری کسی عجیب مقابلے کی دوڑ میں لگے بس ایک دوسرے کو غلط ثابت کرنے کے در پے نظر آتے ہیں۔ اس تیزی سے بڑھتے ہوئے رجحان کی کئی وجوہات ہیں اور سب سے نمایاں سوشل میڈیا پر آزادی رائے ہے اور اس میڈیا تک بہت آسان رسائی ہے۔ اس میڈیا پر زیادہ تر تبادلہ خیالات لکھ کر کیا جاتا ہے۔ لہذا جو مواد عوام تک رسائی رکھتا ہے، وہاں عوام بے دھڑک اور زیادہ سوچے سمجھے بغیر ہی تبصرہ لکھنے میں کوئی وقت نہیں لگاتے۔ایک دوسرے کی غلطیوں اور کوتاہیوں پر ان کے تدارک کے بجائے شخصیت کی کردار کشی اور تذلیل کے لیے ساری اخلاقی حدیں پار کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جاتی۔ ایسا رویہ اختیار کرنے سے کمزوریاں، خامیاں، برائیاں تو وہیں رہ جاتی ہیں، جبکہ فریقین کے تندو تیز جملوں کے باعث غیر اخلاقی جنگ کی ایک کیفیت ضرور پیدا ہو جاتی ہے۔ البرٹ مہرا بین ان پہلے چند محققین میں سے ایک ہیں، جنہوں نے غیر زبانی گفتگو پر تحقیق کی۔ ان کے مطابق الفاظ تو صرف سات فیصد کردار ادا کرتے ہیں۔ 38 فیصد آواز کا اتار چڑھاو¿ اور 55 فیصد غیر زبانی اشارے اہمیت رکھتے ہیں۔ چونکہ سوشل میڈیا پر تبصرہ لکھتے ہوئے ہم صرف اور صرف الفاظ کا استعمال کرتے ہیں، اس لیے اکثر اوقات ایسی بے مقصد بحث چھڑ جاتی ہے، جس کا مقصد صرف دوسرے کو نیچا دکھانا ہوتا ہے۔ احساس، برداشت اور کسی دوسرے کی رائے کا احترام بالکل ہی بھول کر کسی عجیب احساس برتری کو تھپکتے رہتے ہیں۔ یہ رویے تیزی سے کسی بیماری کی طرح پھیل رہے ہیں اور معاشرے کی اجتماعی سوچ میں شدت پسندی نظر آ رہی ہے۔
حقیقی معنوں میں کی گئی تنقید ہر تعمیری کام میں حسن پیدا کرتی ہے جبکہ تہذیب ،شائستگی ،ادب کا دامن چھوڑ کر صرف خامیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے تنقید برائے تخریب ہر روز پھیلتی ہوئی وہ وبا ہے جس نے بہت سے اچھا کام کرنے والے ذہین لوگوں کو بری طرح سے احساس کمتری کا نشانہ بنا رکھا ہے۔دن بہ دن پھیلتا ہوا یہ رویہ بہت سے نئے تخلیق کاروں کو ابھر کر سامنے آنے سے پہلے ہی ان میں تخلیقی صلاحیتوں کو ختم کر رہا ہے۔موجودہ نکتہ چیں ایسی کھٹکنی مچھلیوں کی طرح ہیں جو ابھر کر سامنے آنے والی صلاحیتوں کو کتر کتر کر کھا رہے ہیں جو تنقید کے حقیقی معنوں سے تنقید کے حقیقی مزاج اور رویے سے نا بلد ہیں۔ اپنے اندر اصلاحی عناصر سمیٹے ہوئے تنقید تو نا صرف تحقیق ، تخلیق بلکہ معاشرے کی اصلاح کے لیے بھی ازحد ضروری ہے۔اس سے بے نیاز ہو کر ہم آرٹ اور ادب کو نہیں سنوار سکتے۔تو پھر آئیے تنقید کرنا سیکھتے ہیں۔ برائیوں اور خامیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے خوبیوں اور اچھائیوں پر بھی بات کر کے ادب اور زندگی کو مزید خوبصورت بناتے ہیں۔ خود فریبی اور عقلِ کل کے جھانسے سے نکل کر حوصلہ افزائی کر کے کسی کی چھوٹی سی کاوش کو سراہ کر معاشرے کی اجتماعی سوچ میں نکھار پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ نکتہ چینی کو چھوڑ کر تنقید برائے اصلاح کی روش کو اپنا کر تخلیقات اور معاملات ِ زندگی کو سنوارتے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن