حافظ خدا تمہارا....!!

حافظ خدا تمہارا....!!
ٹی ٹاک ....طلعت عباس خان
 ایڈووکیٹ سپریم کورٹ 
takhan_column@hotmail.com 

 76 برس سے قومی سلامتی کی کشتی ہچکولے کھا رہی ہے ۔ 14 اگست کا دن آیا اورہم نے بگل بجا کر گزار دیا جب کہ قوم کو بہت سے مسائل کا سامنا ہے۔ دن بدن آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے لہذا شور شرابہ بھی ہے اور دہشت گردی کے واقعات بھی ....مہنگائی کا طوفان ہے۔کبھی پٹرول بجلی کی قیمت بڑھ جانے کا شور ہے ۔ کہا جاتا ہے اگر ڈار صاحب کو وزیراعظم بنا دیا جاتا تو کم از کم اتنی جلدی پٹرول کی قیمت میں یوں اضافہ نہ ہوتا ۔ جب کہ افغانستان میں اسی ہفتہ پٹرول کی قیمت کم کی گئی اس سے یہ ظاہر ہے کہ اب الیکشن جلدی نہیں ہونگے۔ مہنگائی حد سے تجاوز کر جائے خانہ جنگی کا خدشہ رہتا ہے ( سری لنکا میں یہی کچھ تو ہوا تھا ) نگران وزیراعظم پٹرول کی قیمت میں اضافہ کر کے پی ڈی ایم حکومت کے نقش قدم پر چلنے کاثبوت دیا ہے۔ دوسری طرف ڈالر کی پرواز بھی بہت جا رہی ہے جو یہ ملک ہمیں 76 سال پہلے دے کر گئے تھے۔اس کو چلانے کےلیے قرضہ بھی وہی دے رہے ہیں مگر ملک کو چلانے کے لئے اپنی پسند کا بندہ رکھنے کی اجازت نہیں دیتے۔ شہری سمجھتے ہیں یہ ہم چلا رہے ہیں جب کی چلا کوئی اور ہے؟ ابھی چلانے والے کی مدت پوری ہونے پر نگران وزیراعظم سامنے آجاتا تھا جس پر ہر کوئی اندازہ کر رہا تھا کہ فلاں آئے گا ۔ کئی بندے شیروانی لے کر انتظار کرتے رہے ۔سچ تو یہ ہے کہ ہر ایک کے تبصرے اندازے غلط ثابت ہوئے آخر میں ” انکا “ بندہ سلیکٹ ہوا۔ بابا کرمو نے کہا آپ خوش قسمت ہیں اس ملک کو چلانے والے شروع دن سے کوئی اور تھے جنہوں نے اپنا اورہم سب کا خیال رکھا یہ ہمیشہ سے اپنی مرضی پسند کا بندہ لاتے ہیں جو ہم سب کا خیال کرتا ہے۔یہ سن کر کہا سر ہماری معیشت پہلے سے زیادہ ہچکولے کھا رہی ہے۔اس لئے تھوڑا سا پریشان تھا۔ ویسے بھی سبھی پریشان ہیں ۔آئی ایم ایف اگر قرض نہیں دیتا تو پریشان، الیکشن کمیشن الیکشن نہیں کراتا تو پریشان ۔لارجر بنچ نہیں بنتا تو پریشان ،بنچ ٹوٹتا ہے تو پریشان ۔قانون سازی ہوتی ہے تو پریشان،قانون سازی کے خلاف فیصلہ آتا ہے تو پریشان،مدر ان لا ءکی سنی جاتی ہے تو پریشان جب کہ اس ملک میں قدرت نے کیا کچھ نہیں دے رکھا۔ صرف ہم غلامی کی زنجیروں سے آزاد نہیں ہیں۔ سب کچھ ہے دیس میں روٹی نہیں تو کیا ؟جھوٹ کو لپیٹ لو لنگوٹی نہیں تو کیا۔اپنے سے جدا ہو جانے والے ملک کی مثال کو سامنے رکھیں۔جو نہ شیروانی پہنتے ہیں اور نہ ہی بوٹ۔ وہ دھوتی اور واسٹک پہنتے ہیں۔ جنھوں نے آئی ایم ایف والوں سے ٹکر لی اور اپنی مدد اپ کے تحت تاریخی پل بنا کر دکھا دیا وہ ملک اگر اپنے پاو¿ں پر بغیر قرض لئے کھڑا ہوسکتا ہے تو ہم کیوں نہیں۔ کہا جاتا ہے بنگلہ دیش کا سب سے طویل پل بننا تھا۔ ورلڈ بینک نے 1.2 ارب ڈالر دینے کا وعدہ کیا تھا مگر پھر الزام لگا دیا کہ بنگلہ دیشی کرپٹ ہے اور یہ کہہ کر قرضہ کینسل کر دیا۔
حسینہ واجد حکومت نے اپنے ذرائع سے پیسہ اکٹھا کر کے چھ کلومیٹر سے زیادہ طویل پل دریائے پدما پر بنایا۔ یہ 6.51 کلومیٹر طویل پل تقریبا 3.6 بلین امریکی ڈالر کے برابر لاگت سے تعمیر ہوا۔ اتوار کی صبح 6 بجے سے عام ٹریفک کے لیے کھولے جانے کے بعد سے پدما پل پر پہلے آٹھ گھنٹوں میں کل 82,19,050 روپے جمع کیے گئے ہیں۔ اگلے آٹھ گھنٹوں میں پل کے زجیرہ پوائنٹ پر 35,29,500 روپے اور ماوا پوائنٹ سے 46,89,550 روپے جمع ہوئے۔ ایک ہی وقت میں، 15,200 گاڑیاں دونوں سروں سے گزریں اور آج صرف یہ ایک منصوبہ ہی بنگلہ دیشی معیشت میں سالانہ 1.3 فیصد منافع کا حامل بن چکا ہے۔گذشتہ سال اس کا افتتاح ہونے کے بعد جب حسینہ واجد کی ورلڈ بینک کے سربراہ سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے پدما پل کی فریم شدہ تصویر انہیں تحفے میں پیش کی۔ 
شاید یہی حقیقی آزادی کی ایک جھلک تھی اور قومیں اسی طرح بنتی ہیں در در کشکول لے کر بھیک مانگنے سے ترقی نہیں ہوتی ہم "دشمن" ہندوستان سے تو نہیں سیکھ پا رہے ہیں کم از کم اپنے پرانے "بھائی" بنگلہ دیش سے تو سبق حاصل کرسکتے ہیں۔ 50 سال بعد بنگلہ دیش ہم سے کتنا آگے جا چکا ہے اور ہم 76 سال بعد بھی ایک سے دوسری دلدل میں پھنستے جا رہے ہیں۔ علیحدگی کے وقت مشرقی پاکستان کی آبادی کہا جاتا ہے ساڑھے سات کروڑ اور مغربی پاکستان کی آبادی ساڑھے چار کروڑ تھی۔آج بنگلہ دیش کی آبادی ساڑھے پندرہ کروڑ اور ہماری بائیس کروڑ ھے۔20 برس پہلےپاکستانی روپے کے پونے دو ٹکے ملتے تھے۔ آج پاکستانی روپیہ آدھے ٹکے سے بھی کم کا ھے۔بنگلہ دیش کے خزانے میں 38 بلین ڈالر اور ہمارے خزانے میں 9 بلین ڈالر ہیں۔بنگلہ دیش کو جب ورلڈ بنک نے للکارا تو اس نے 4 بلین ڈالر لگا کر پل بنا کر دکھا دیا اور ہم آج اس بات پر خوشی سے پھولے نہیں سما رہے کہ آئی ایم ایف نے ایک بلین ڈالر دینے کا اعلان کر دیا ہے۔ جمہوریت یہاں نہیں عوام کے خیرخواہ یہ نہیں۔ بجلی اور پٹرول میں بے شمار ٹیکس شامل کر رکھیں ۔کوئی شرم نہیں کوئی حیا نہیں۔ یہ دو چیزیں ہی تو ہیں جن سے زندگی کی گاڑی چلتی ہے۔ عوام کا جینا حرام کر رکھا ہے۔یہاں کی سیاسی جماعتوں کے اپنے اندر جمہوریت اور کام کرنے کی آزادی نہیں۔ ایف بی آر کے سابق چیئرمین کے انٹرویو کے کچھ نکات آپ کی خدمت میں پیش ہیں سوچیں اور سمجھیں۔ ملک کی آزادی کی بات کیا کرنی جب کہ کام کرنے والے آزاد نہیں ہوتے۔ کہا
1۔ ایک زمیندار کو ٹیکس کا نوٹس بھیجا تو شاہ محمود قریشی کی قیادت میں مختلف پارٹیوں کے اراکین اسمبلی آگئے کہ زمینداروں پہ ہاتھ نہ ڈالیں۔ ٹیکس نہیں دیں گے۔ 2۔ پراپرٹی ٹیکس کا ریٹ اوپر کرنے کی کوشش کی تو باجوہ صاحب نے بلا لیا کہ بڑی ہاﺅسنگ سوسائٹی کے کاروبار ٹھپ ہوگئے ہیں۔ 
3۔ سمگلنگ پہ ہاتھ ڈالا تو وہ آگئے کہ وہاں عوام کا یہی کاروبار ہے۔ مسئلہ کھڑا ہوجائے گا4۔ تمباکو پر ٹیکس لگایا تو اسد قیصر 40 ایم این اے لے کے آ گئے کہ نہیں دیں گے۔ 5۔ جمرود میں قائم سٹیل کی فیکٹریاں ٹیکس نہیں دیتیں۔ بجلی کا بل بھی نہیں دیتیں۔ ان پہ ہاتھ ڈالا تو فاٹا کے سنیٹرز آگئے کہا اگر یہ نہ بند کیا تو وہ پی ڈی ایم کو فنانس کریں گے۔6۔ تاجروں کو ڈاکیومینٹیشن میں لانے کی کوشش کی تو وزیراعظم اور ڈی جی سی دونوں نے کہا کہ روک دیں۔ یہ لوگ شٹر ڈاون ہڑتال کرکے بحران پیدا کر دیں گے۔ 
 اس لیے ٹیکس صرف تنخواہ دار اور مجبور طبقہ ہی دے گا ۔آپ بھلے سے اپنے لیڈروں کو عظیم اور زندہ باد کہتے رہیں. یہاں سیاسی جماعتیں فیکٹریاں کارخانوں کی طرح ہیں۔ کسی پارٹی کا لیڈر اپنی پارٹی کے عہدے دران کی بات نہیں سنتا۔ ان کے درمیان کمنیکیشن گیب ہے۔اپنے کریکٹر ٹھیک کرتے نہیں دعائیں کرنے پر زور دیتے ہیں۔عمرہ حج کے بعد قبولیت کے لئے دیگیں چڑھاتے ہیں۔ ہر کام سنت کے خلاف کرتے ہیں اور خواہش جنت میں جانے کی رکھتے ہیں۔سچ کہا کسی نے جب تک دھوکے اور کھوتے کا پتہ چلتا ہے تب تک ہم اسے کھا چکے ہوتے ہیں۔ حافظ خدا تمہارا۔

ای پیپر دی نیشن