ایک میری ہی غزل ہے
گزریاں وریاں دی گل سی
جل تھل جل تھل جل ثھل سی
لوکی ھسدے رھندے سن
خورے نیتاں دا پھل س ی
ویلا کیوں او ٹھہر گیا
جس ویلے وچ جنگل سی
سیانے کہٹے ہیں کہ وقت ٹھہر جائو تو بلندیوں کا سفر نہیں معکوس کا سفر ہوتا ہے سفر۔ معکوس کی مثال یون دی جا سکتی ہے کہ جیسے ایک درخت کو پروان چڑھنے میں صدیاں لگتی ہیں اور سفر معکوس میں بڑی جلدی زوال کا شکار ہو جاتا ہے قوموں کا حساب کتاب بھی یہی ہوتا ہے میں جب اپنے نئے گھر میں آکر آباد ہوئی تو میرے ساتھ میری کیاری میں ایک پودے نے پھلنا پھولنا شروع کیا اسے تناور درخت بننے میں اٹھارہ سال لگ گئے پھر ایک دن میں نے سوچا کہ اب یہ ااپنے پاؤں پر کھڑا ہو گیا ہے اب اسکی حفاظت کی اتنی ضرورت نہیں ہے پھر یوں ہوا کہ عدم توجہی سے ایک ماہ کے اندر وہ درخت سوکھ گیاعدم توجہی جب قوموں کی زندگی میں آتی ہے تو ریاست جو کہ ایک شجر کی مانند ہوتی ہے . عدم توجہی کا نمایاں عنصر خود غرضی کی دیمک ہے بقول امجد اسلام امجد
پیڑ کو دیمک لگ جائے اور آدم زاد کغم
دونوں ہی کو امجد ہم نے بچتے دیکھا کم
ہمارا المیہ یہ ہے کہ پیڑ بھی دیمک زدہ اور لوگ بھی غمزدہ
ایک علاقے سے گزرتے صرف چند بجوں کو چھوٹے چھوٹے جھنڈی نما پرچم اٹھائے شہروغل کرتے دیکھا وہ عمر کے اس حصے میں تھے جہاں انکو انازہ ہی نہیں ہے کہ غریب کا دکھ کیا ہے غریب کو کونسا عفریت چاٹ رہا ہے کیا صرف سانس لینا ہی آزادی ہے برصغیر پاک وہندمیں تو کھل کے سانس لینے کی آزادی تھی مسلمان پسے ہوئے تھے وہاں جو چھترول مسلمانوں کی ہوتی تھی اس سے کھیں زیادہ یہاں ہوتی ہے مظہرالاسام کا افسانہ ایک بار نظر سے گزرا وہ مفلوک الحال شخص کی کہانی تھی دریائے راوی کے کنارے سے اسکی لاش ملتی ہے تلاشی لینے پر اسکی جیب سے کچھ ریزگاری اور بجلی کا بل دستیاب ہوتا ہے تحقیق پر یہ عقدہ کھلتا ہے کہ جس دن بل کی آخری ٹاریخ ہے اسی دناس کی لاش دریائے راوی کے کنارے سے ملتی ہے یہ ایک معاشرتی المیہ ہے جس نے پوری سوسائٹی کو دبوچ رکھا ہے اٹھتر ساوں سے ھم اپنی نااھلی کی سزا عوام کو دے رہے ہیں ترقی کے ثمرات صرف ایک خاص طبقہ تک پہنچتے ہیں غریب کو کیا معلوم ترقی کیا ہے اس کے ثمرات کیا ہیں ایک مزدہر جو سارا دن سڑک کے کنارے روز گار کے لئے بیثھا رھتا ھے شام کو خالی ہاتھ بھوکے بچوں کے پاس پہنچتا ہے تو بچوں پر کی گزرتی ہے چھوڑیں اس موضوع کو کیا رکھا ہے یہ کوئی مدینہ کی ریست تھوڑی ہے جہاں رزق گہروں میں پہنچایا جائے با گنگر خانے اور پناہ گاہیں ہونگی۔