میں ستتر 77 برس کا ہو گیا ہوں - مجھے لا الہ الااللہ کے نام پر بڑی منتوں مرادوں سے اللّہ تعالیٰ سے مانگا گیا تھا - کروڑوں دلوں کی دعاؤں اور لا الہ الااللہ کی صداؤں کو جب شرف قبولیت ملی تو 14 اگست 19 سو 47 کو میری پیدائش ہوئی - میرا نام پاکستان رکھا گیا - کروڑوں مسلمان میری پیدائش پر سجدہ شکر بجا لائے ، کیونکہ انہیں میری صورت میں ایک وارث مل گیا تھا - میرے وجود کی قیمت لاکھوں لوگوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر ادا کی کیونکہ میرے ازلی دشمن کو میرا وجود ایک آنکھ نہیں بھایا تھا - تمام مشکلوں اور مصیبتوں کے باوجود میرے لوگ خوش تھے کہ انہیں ایک الگ پہچان مل گئی ، جہاں وہ اپنی زندگیاں اسلامی اصولوں اور اپنی تہذیب و تمدن کے مطابق گزار سکیں گے - اپنے قومی تشخص کو برقرار رکھ سکیں گے - میری عمر ابھی ایک سال ہی ہوئی تھی کہ میرے باپ ، میرے سرپرست میرے قائد کا سایا میرے سر سے اٹھ گیا اور میں یتیم ہو گیا - ایک یتیم کی پرورش اس طرح نہیں ہو سکتی جو باپ کی سرپرستی میں ہوتی ہے ، بہت سی کمیاں کوتاہیاں رہ جاتی ہیں - یہاں سے میری آزمائش کا دور شروع ہو گیا تھا - میرے پہلے وزیراعظم کو قتل کر دیا گیا ، اور میری سرپرستی کا معاملہ چل پڑا - اگرچہ میرے اصل وارث میرے کروڑوں لوگ تھے جنہوں نے قربانیاں دے کر مجھے اللّہ تعالیٰ سے مانگا تھا - یہی لوگ اپنی منشا کے مطابق میرا سرپرست بنانے کے حق دار تھے ، مگر بدقسمتی سے میری سرپرستی کے لئے کچھ طاقتور لوگ تیار بیٹھے ہوئے تھے - میرے بانی کی موت کیسے ہوئی میں یہ اچھی طرح جانتا ہوں - میرے پہلے وزیراعظم کو قتل کر کے کس طرح راستے سے ہٹایا گیا میں یہ بھی اچھی طرح جانتا ہوں - میں اپنے ساتھ بیتی ان ستتر سالوں کی روداد اگر تفصیل سے سنانے لگوں تو کئی دن لگ جائیں - قصہ مختصر ، جن طاقتور لوگوں کے ہاتھوں میں میری سرپرستی چلی گئی وہ مجھے اپنے ہر فعل سے جوں جوں میں بڑا ہوتا گیا ہمدرد باپ کی کمی کا احساس دلاتے رہے - کچھ سال تو یہ لوگ میری عوام کو ایک آئین کی شکل میں کوئی رہنما اصول ہی نہ دے پائے کہ مجھے کیسے چلانا ہے ، میرے اور میرے لوگوں کے ساتھ کیسا سلوک روا رکھنا ہے- بالاآخر جمہوریت کی ابتدائی شکل کو عملی رنگ میں واضح کرنے کے لئے 1956ء میں پہلا آئین بنایا گیا جسے دو سال بعد مارشل لاء کے تحت ختم کر دیا گیا - 1962ء میں مجھ پر ایک اور آئینی تجربہ کیا گیا جسے 1969ء میں معطل کر دیا گیا - مجھے اپنے ابتدائی سالوں میں ہی بہت بڑے بڑے اندرونی اور بیرونی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا - میرا ازلی حریف میرے خلاف الگ سازشیں کر رہا تھا - اس نے مجھ پر قبضہ کرنے اور مجھے ختم کرنے کے لئے مجھ پر دو بار حملہ بھی کیا - مگر میری فوج نے میرے لوگوں کی سپورٹ سے دشمن کو اس کے ناپاک عزائم میں کامیاب نہ ہونے دیا - میری زندگی کے 23 سال گزر گئے 23 سال بعد میری عوام کو عام انتخابات کے زریعے اپنی مرضی کے نمائندوں کا انتخاب کرنے کا پہلی بار موقع ملا - مگر یہ انتخابات میرے وجود کے مشرقی اور مغربی دو حصوں کے درمیان کشیدگی کا باعث بننے والے ابتدائی مسائل کے حل کی بجائے ایک ایسے تنازع کی بنیاد بنے جس کے نتیجے میں میرے وجود کا مشرقی حصہ مجھ سے الگ ہو گیا - یہ مجھ پر قابض لوگوں کی اقتدار کی ہوس کا نتیجہ تھا - اب میرا ایک بازو ٹوٹ چکا تھا ، مگر پھر بھی میں نے ہمت باندھی اور اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کی کوشش کی - میں نے اپنے لوگوں کو تیسری بار آئین کی شکل میں ایک ڈریکشن دی جس میں اپنے اور عوام کے حقوق وفرائض کو واضح کر دیا گیا - اگرچہ میں اپنے لوگوں کو ایک مکمل آئین دینے میں کامیاب ہو گیا - اس کے باوجود میں ایک تجربہ گاہ بنا رہا - مجھے بار بار عوامی حکومت اور مارشل لاء کے تجربوں کی بھینٹ چڑھایا گیا ، جس میں مجھ پر قابض اشرافیہ کا تو فائدہ تھا مگر میں اپنی عوام کو زندگی کے مسائل سے نہ نکال سکا اور اس کا زمہ دار میں اشرافیہ کو ٹھہراتا ہوں ، جس میں امراء ، سیاستدان ، بیوروکریٹ فوجی جرنیل شامل ہیں - آج ایک ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود میرا شمار Third world countries میں ہوتا ہے - میں اپنی ستتر سالہ زندگی پر نظر ڈالتا ہوں تو میں خود کو اپنے سے بعد وجود میں آنے والے ملکوں سے بہت پیچھے پاتا ہوں - میرے اپنوں نے میری خوداری کو مجروح کیا - میں اپنی مرضی سے اپنی خارجہ پالیسی نہیں بنا سکتا - مجھ پر کچھ طاقتور قوتوں کا تسلط ہے جنہوں نے مجھے اندرونی اور بیرونی مسائل میں الجھایا ہوا ہے - میرے اپنوں کے ساتھ مل کر کئی بار مجھے استعمال کیا گیا - میرے اصل مالک ہونے کے دعویداروں نے مجھے ان طاقتوں کا غلام بنا دیا ہے - مجھے لگتا ہے کہ میں صرف اشرافیہ کا ملک ہوں - ایک مافیا مجھ پر قابض ہے جو دونوں ہاتھوں سے مجھے لوٹ رہا ہے - میرے غریب لوگوں کے ٹیکس کا پیسہ ان پر خرچ کرنے کی بجائے یہ مافیا ہڑپ کر رہا ہے - آج میں بہت سے موذی امراض میں مبتلا ہوں جن میں سب سے بڑا مرض کرپشن ہے - دنیا کا کوئی ملک ایسا نہیں جہاں کرپشن کے پیسے سے اشرافیہ کی جائیدادیں موجود نہ ہوں - آج میں کھربوں ڈالر کا مقروض ہوں - مجھے آئی ایم ایف کے آگے گروی رکھ دیا گیا ہے - جب میں اپنے لوگوں کی حالت زار کو دیکھتا ہوں تو میرا دل خون کے آنسو روتا ہے - میں اپنے لوگوں سے شرمندہ ہوں - میری شکل میں انہیں دشمن ملک سے تو آزادی مل گئی مگر میں اپنی 25 کروڑ عوام کو آزادی نہ دے سکا - میں انہیں روزگار کی سہولتیں دے کر دو وقت کی روٹی کی فکر سے آزاد نہ کر سکا - میں انہیں مفت اور معیاری نظام تعلیم دے کر جہالت کے اندھیروں سے آزاد نہ کر سکا ، میرے تین کروڑ سے زیادہ بچے سکولوں سے باہر ہیں - میں اپنے لوگوں کو مفت علاج معالجہ کی سہولتیں دے کر بیماریوں سے آزاد نہ کر سکا - میں انہیں آسانیاں دے کر زندگی کے مسائل سے آزاد نہ کر سکا - کہاں ہیں میرے لوگ آزاد ؟ ایک خاص طبقے اور کچھ خاندانوں کے علاوہ ، جو میرے اور میری 25 کروڑ عوام کے مجرم ہیں - یہ سب ان کی غلط پالیسیوں کا نتیجہ ہے ، جنہوں نے قانون سازی تو بہت کی مگر انسان سازی نہ کی - آج میری قوم کا شمار غیر مہذب قوموں میں ہوتا ہے تعلیم کو لازمی نہ کر کے جان بوجھ کر انہیں غیر مہذب رکھا گیا ، تاکہ یہ اپنے حقوق سے واقف نہ ہو سکیں ، اور غلامانہ سوچ سے باہر نہ آ سکیں - اپنے حقوق کی بات کرنے والوں کو دہشت گردی اور غداری کے سرٹیفکیٹ دیے گے - میری قوم کے جاہل رہنے میں ہی اس سسٹم کی بقا تھی - اگر میرے اندر بھی Rule of law کی حکمرانی ہوتی تو میری یہ غیر مہذب قوم بھی تہذیب یافتہ ہو سکتی تھی - مگر میرے لوگوں کو اس قابل ہی نہ سمجھا گیا ، جس کی وجہ سے آج ان میں ظلم وجبر ، لوٹ کھسوٹ ، ناانصافی ، بدیانتی ، جھوٹ ، چوری ، منافع خوری ، رشوت خوری ، ذخیرہ اندوزی ، حق تلفی اور میرٹ کا قتل عام جیسی ہر برائی پائی جاتی ہے - آج 77 سال بعد میں ڈوبتی معیشت ، قرضوں کے بھاری بوجھ ، مہنگائی کی بلند ترین سطح ، بھوک وافلاس ، فسطائیت اور ظلم وجبر کے ساتھ اس موڑ پر کھڑا ہوں جہاں میری قوم کی امید ٹوٹتی نظر آ رہی ہے ، اور مجھ سے مایوس اور ناامید ہو کر تیزی سے مجھے چھوڑ کر جا رہی ہے - یہ مایوسی اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ پچھلے ایک سال میں سولہ لاکھ بیس ہزار سے زائد لوگ مجھے چھوڑ کر مختلف ممالک میں جا چکے ہیں ، اور میں دنیا میں اتنی بھاری تعداد میں ملک چھوڑنے والوں میں پہلے نمبر پر آ گیا ہوں - مجھے اس حال تک پہنچانے والے کون لوگ ہیں ؟ میں یہ اچھی طرح جانتا ہوں اور شاید میرے لوگ بھی اچھی طرح جانتے ہیں - اور اگر نہیں جانتے تو جاننے کی کوشش کریں اس سے پہلے کہ یہ کہنے میں بھی شرمندہ ہوں کہ ہم پاکستانی ہیں ، جیسے آج میں شرمندہ ہوں کہ " میں پاکستان ہوں ،،
,, میں پاکستان ہوں ،،
Aug 18, 2024