شجر کاری،مستقبل کی سرمایہ کاری

 سردار شاہد احمد لغاری
ہلال احمر پاکستان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس بار بھی مون سون میں پودے لگانے،پودے لگانے کی ترغیب دینے اور مشترکہ اقدامات سے شجرکاری میں کسی سے پیچھے نہیں رہا۔ریڈ کراس ریڈ کریسنٹ ڈے کے موقع پر پورا ہفتہ مختلف تقریبات کا انعقادکیا گیا۔ان تقریبات میں ایک دن شجرکاری کے لئے  اور ایک دن صفائی مہم کے لئے مختص تھا۔ہلال احمر کے سٹاف اور رضاکاروں نے جہاں لیک ویو کے مقام پر صفائی مہم چلائی وہیں مرکزی شاہراہ کے اطراف میں سیکڑوں پودے بھی لگائے۔ہلال احمر پاکستان کی تمام برانچوں نے بھی شجر کاری کر کے نیک نامی سمیٹی ہے۔درختوں سے محبت کرنا اور ان کا خیال رکھنا، کئی اقوام کی تاریخی، تمدنی اور معاشرتی اقدار کا حصہ رہا ہے۔درختوں سے انسان کو بہت سے فوائد حا صل ہوتے ہیں۔ یہ فوائد معاشی بھی ہیں اور معاشرتی بھی۔ معاشی فوائد کا ذکر کریں تو درختوں سے حاصل ہونے والی لکڑی انسان کے بہت کام آتی ہے۔کبھی یہ فرنیچر بنانے کے لیے استعمال ہوتی ہے تو کبھی جلانے کے لیے۔ کبھی اس کی شاخیں جانوروں کے چارے کے طور پراستعمال ہوتی ہیں تو کبھی اس کے سوکھے پتے کھاد بنانے میں استعمال ہوتے ہیں۔ پھلوں کا حصول ہو یا بچوں کے کھیل کا میدان، ہر جگہ درخت ہی انسان کے کام آتے ہیں۔درختوں سے انسان کثیر زرِمبادلہ بھی کماتا ہے۔اچھے معاشرے میں درختوں کی بہت قدرو قیمت ہوتی ہے۔ یہ تعلیمی اور تحقیقی مقاصد کے لیے بھی استعمال ہوتے ہیں اور ادویات کی تیار ی میں بھی۔درخت انسان کے دوست ہیں اور درخت لگانا شجر کاری کہلاتا ہے۔ شجر کاری نا صرف سنتِ رسولؐہے بلکہ ما حول کو خوبصورت اور دلکش بنانے میں بھی اہم کر دار ادا کرتی ہے۔درخت جہاں دنیا بھر کے جانداروں کو چھا وں مہیا کرتے ہیں وہیں ان کی خوشبو سے زمانہ مہکتا ہے۔ رنگ برنگے درخت کبھی ریگستان کو نخلستان میں بدلتے ہیں تو کبھی جنگل میں منگل کا سماں پیدا کرتے ہیں۔درختوں پربسنے والے پرندوں کی چہچہاہٹ پر فضا ماحول میں رس گھول دیتی ہے۔
درخت زندگی کے ضامن ہیں۔موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثرہ پاکستان میں شجر کاری کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔آج گرم ترین موسم کا سامنا ہے،بارشیں بھی زیادہ ہورہی ہیں،برف پگھل رہی ہے،لینڈ سلائیڈنگ رکنے کو نہیں آرہی اور پانی کے ذخائر کم ہوتے جا رہے ہیں۔موسمیاتی تبدیلیوں نے موسم چھین لئے ہیں،موسموں کی یادیں چھین لی ہیں۔ انسان ہوں یا جانور، سبھی کو زندہ رہنے کے لیے آکسیجن کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ یہ آکسیجن درختوں، پودوں کے سوا اور کہیں سے نہیں ملتی۔ اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ جب سے انسان نے دنیا میں آنکھ کھولی، درخت اس کی اہم ترین ضروریات میں شامل رہے ہیں۔ آج ہمارے پاس درخت گھٹتے جا رہے ہیں اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ زیادہ سے زیادہ درخت لگائے جائیں تاکہ زندگی اسی طرح رواں دواں رہے۔درخت  ہمیں صاف ہوا فراہم کرتے ہیں۔ طوفانوں کا زور کم کرتے ہیں۔ آبی کٹاوکو روکتے ہیں، آب و ہوا کے توازن کو برقرار رکھتے ہیں، درجہ حرارت کو بھی اعتدال و توازن بخشتے ہیں۔درخت فضائی جراثیم اپنے اندر جذب کرتے ہیں۔ نیز انسانوں اور حیوانات کی غذائی ضروریات فراہم کرتے ہیں۔ چرند، پرند اور متعدد حیوانات کا مسکن بھی یہ درخت ہیں۔شجرکاری، باغات اور جنگلات کی اہمیت و ضرورت اس وقت اور بھی بڑھ جاتی ہے، جب چاروں طرف آلودگی بسیرا ڈالے ہو، صاف و شفاف ہوا کے لیے جسم ترستا ہو، اور زہر آلود ہوائیں نسلِ انسانی کو گھن کی طرح کھارہی ہوں۔ دورِ جدید کی سائنس و ٹیکنالوجی نے جہاں انسان کی سہولت و آسانی کے لیے لامحدود و اَن گنت وسائل مہیا کیے ہیں، زندگی کے مختلف شعبہ جات میں انسان کو بام عروج پر پہنچا دیا ہے، وہیں اس کے لیے مختلف بیماریوں اور آفات کے سامان بھی فراہم کردیے ہیں۔ صنعتی ترقی کے اس دور میں ہرطرف آلودگی چھائی ہوئی ہے۔ ہوا، پانی اور زمین پر دیگر حیاتیات اپنی خصوصیات کھورہی ہیں۔ جن کی بقا کا مسئلہ پیدا ہوگیا ہے۔ فضائی آلودگی، آبی آلودگی، زمینی آلودگی، صوتی آلودگی، سمندری آلودگی، تیزی سے بڑھتی فیکٹریاں، سڑکوں پر گاڑیوں کی لمبی قطاریں، فضائی اور بحری جہازوں کا دھواں، مختلف صنعتوں کے فضلات سے مسئلہ مذید پیچیدہ ہوتا چلا جارہا ہے۔ پہاڑوں پر پھیلے جنگلات لینڈ سلائیڈنگ کے خلاف مضبوط حصار ہوتے ہیں۔ یہ بارشوں کا بہت بڑا وسیلہ ہیں جن سے دھرتی کی آبیاری ہوتی ہے۔ یہی بارشیں موسمی اعتدال کا باعث بنتی ہیں۔ اللہ نے مخلوقات اور دیگر مظاہرِ کائنات کی تخلیق کو اس طرح مربوط کیا ہے کہ یہ سلسلہ بغیر کسی رکاوٹ کے جاری چلا آرہا ہے۔ اللہ نے انسان کو نباتات کے پھلنے پھولنے کا ذریعہ بنایا ہے، جس کی وجہ سے فضا میں توازن قائم ہے۔ جدید تحقیق کے بعد ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگر فضا میں کاربن کے اخراج کی مقدار بڑھتی رہی تو غذاوں کی تاثیر تبدیل ہو جائے گی۔ پھلوں اور سبزیوں کی غذائیت کھو جائے گی۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ماحول دوست سرمایہ کاری کریں اور زیادہ سے زیادہ درخت لگائیں۔شجر کاری کی اہمیت و افادیت سے متعلق زرائع ابلاغ کی تمام اصناف پر ہلال احمر کی آگائی مہم جاری رہتی ہے۔آئیے عہد کریں کہ ہم نے آنے والی نسلوں کو ایک خوشگوار مستقبل دینا ہے،شجر کاری کو فرض سمجھ کر نبھانا ہے۔اگر آپ[ نے ابھی تک اپنے حصے کا پودا نہیں لگایا تو مذید دیر نہ کیجئے۔۔آج ہی اپنے حصے کا پودا لگا کر وطن سے محبت کا ثبوت دیں۔
سرسبز و شاداب پاکستان۔۔۔۔ہلال احمر کی پہچان

ای پیپر دی نیشن

مولانا محمد بخش مسلم (بی اے)

آپ 18 فروری 1888ء میں اندرون لاہور کے ایک محلہ چھتہ بازار میں پیر بخش کے ہاں پیدا ہوئے۔ ان کا خاندان میاں شیر محمد شرقپوری کے ...