پاکستان کے خلاف افغان سرزمین استعمال ہو رہی ہے اور جب سے طالبان نے حکومت سنبھالی ہے یہ سلسلہ تیز بھی ہوا ہے اس سے پہلے کسی اور طریقے سے افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہو رہی تھی۔ جب سے طالبان کی حکومت قائم ہوئی ہے پاکستان نے متعدد بار اس حوالے سے اپنے تحفظات کا اظہار بھی کیا ہے۔ پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کے پیچھے تحریک طالبان پاکستان کے شرپسند نظر آتے ہیں۔ پاکستان نے افغان حکومت کے ساتھ معلومات کا تبادلہ بھی کیا ہے لیکن افغان حکومت کے غیر سنجیدہ رویے کی وجہ سے معاملات میں بہتری نہیں آ رہی۔ پاکستان نے دہائیوں تک افغان مہاجرین کی میزبانی کرتے ہوئے مشکل وقت میں ایک اچھے ہمسائے کا کردار ادا کیا ہے۔ اس بڑی قربانی کے باوجود آج افغانستان کے چند بھٹکے ہوئے افراد مختلف مواقع پر پاکستان کے خلاف زہر اگلتے دکھائی دیتے ہیں۔ انگلینڈ میں ہونیوالا کرکٹ میچ ہو یا پھر شارجہ کا کرکٹ گراونڈ پا پھر جرمنی بگڑے اور بھٹکے ہوئے افغانیوں نے ہر جگہ زہر اگلا ہے۔ حالانکہ پاکستان نے ہر حال میں افغانستان کا ساتھ دیا ہے۔ طویل افغان جنگ میں لاکھوں مہاجرین کو جگہ دی اور دہائیوں تک میزبانی بھی کی۔ گوکہ پاکستان کو اس کا بہت بھاری نقصان بھی برداشت کرنا پڑا ہے۔ بالخصوص دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کے بعد پاکستان نے کھربوں ڈالرز کا نقصان برداشت کیا ہے، ستر ہزار سے زائد قیمتی جانوں کی قربانی دی ہے، معصوم شہریوں نے جانیں قربان کی ہیں، اعلی صلاحیتوں کے حامل دفاعی اداروں کے افسران اور جوانوں نے وطن عزیز کو دہشت گردوں سے پاک کرنے کے لیے قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے۔ ایک مرتبہ پھر پاکستان میں ٹی ٹی پی کے شرپسند کارروائیاں کر رہے ہیں۔ ان شر پسندوں کے پیچھے افغانستان کی سرزمین استعمال ہو رہی ہے۔ باوجود اس کے کہ افغان طالبان جانتے ہیں کہ امن دونوں ملکوں کی بنیادی ضرورت ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ پرامن افغانستان کی بات کرتے ہوئے پائیدار امن کے لیے اقدامات کیے ہیں لیکن افغان طالبان کا ٹی ٹی پی کے لوگوں بارے رویہ غیر سنجیدہ ہے۔ سفارتی سطح پر اس اہم ترین مسئلے پر کوئی پیشرفت نہ ہونا اہم مسئلہ ہے لیکن دو رخی پالیسی اختیار کرتے ہوئے افغان حکومت کے ترجمان نے برطانوی نشریاتی ادارے کو انٹرویو میں پاکستان اور ٹی ٹی پی کے معاملے میں ثالثی کی پیشکش بھی کر دی ہے۔ یعنی اس پیشکش سے پاکستان کا یہ موقف تو درست ثابت ہوتا ہے کہ
ٹی ٹی پی کو افغان طالبان کی پشت پناہی ہے۔ افغان حکومت اگر اس معاملے میں سنجیدہ ہے تو اسے سفارتی سطح پر پاکستان کے ساتھ بات کرنی چاہیے سب سے پہلے افغان سرزمین کا پاکستان مخالف استعمال روکنے کے لیے اقدامات کرنا ہوں گے۔
افغان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کہتے ہیں کہ پاکستان کے ساتھ اچھے اور بھائی چارے کے تعلقات چاہتے ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان بہتر تعلقات پاکستان اور افغانستان کی ضرورت ہیں۔ کسی کو بھی افغانستان سے کسی دوسرے ملک میں جنگ کی اجازت نہیں دیتے، اگر پاکستان کے پاس اس حوالے سے کوئی معلومات ہے تو شیئر کرے۔ پاکستان چاہے تو ہم پاکستان اور ٹی ٹی پی کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کر سکتے ہیں، حکومت پاکستان چاہے تو پھر ہم بھائی چارے کے اصولوں پر اپنی کوششیں کریں گے، اگر پاکستان نہیں چاہتا تو مداخلت نہیں کر سکتے، پھر یہ ان کا کام ہے کیونکہ یہ ان کا اندرونی مسئلہ ہے۔
سب سے پہلی بات افغان سرزمین کا استعمال ہے، پاکستان کو ایسے فسادیوں کا دماغ درست کرنا آتا ہے۔ افغان حکومت ان شرپسندوں، دہشت گردوں کی سرپرستی سے باز آئے۔ افغان حکومت اپنی ذمہ داریاں نبھائے اگر وہ ان شر پسندوں کی سرپرستی بند کرے تو ثالثی کی ضرورت ہی پیش نہیں آئے گی کیونکہ پھر ان دہشتگردوں کو چھپنے کی جگہ نہیں ملے گی، بھاگنے کی جگہ نہیں ملے گی۔ افغان حکومت اس معاملے میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرے، پاکستان برسوں سے ایسے شرپسندوں کے خلاف لڑتا آیا ہے اور ہر مرتبہ کامیاب ہوا ہے۔ پاکستان اس مرتبہ بھی ان شرپسندوں کو منطقی انجام تک پہنچائے گا لیکن اگر کوئی بھی یہ سمجھتا ہے کہ وہ پاکستان کے امن کو تباہ کرنا چاہتا ہے تو اس کا جواب بہت درد ناک بھی ہو گا، تیز بھی ہو گا اور بہت زیادہ تکلیف دہ بھی ہو گا۔ افغان حکومت کو یہ یاد رکھنا چاہیے امن دونوں ملکوں کی ضرورت ہے یہ صرف پاکستان کی ضرورت نہیں ہے۔ پس بنیادی چیزوں پر واپس آئیں اور کرنے والا کام کریں۔
خبر یہ ہے کہ اقوام متحدہ نے غزہ میں سات دن کے لیے جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے اور یہ مطالبہ اس لیے نہیں کہ وہاں گذشتہ چند ماہ میں چالیس ہزار شہادتیں ہو چکی ہیں بلکہ سات دن کے لیے جنگ بندی کا مطالبہ چھ لاکھ سے زائد بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے کے لیے کیا ہے۔ کاش اقوام متحدہ مستقل بنیادوں پر جنگ بندی کا مطالبہ کرے، کاش اقوام متحدہ ظالم اسرائیل کے خلاف فیصلہ کرے لیکن یہ اقوام متحدہ بھی بے بس ہے، انہیں پولیو کے قطروں سے محروم بچے نظر آ رہے ہیں لیکن جو بچے اسرائیلی فوجیوں کی گولیوں کا نشانہ بن رہے ہیں ان کی کوئی فکر نہیں ہے۔ کیا دوہرا معیار ہے بنیادی انسانی حقوق کے نام نہاد علمبرداروں کا غزہ کے معاملے میں سب انسانیت پسندوں کے نقاب اتر رہے ہیں۔ فلسطینیوں کی نسل کشی ہو رہی ہے، مسلمانوں کے گھروں کو تباہ کیا جا رہا ہے اقوام متحدہ کو پولیو کے قطروں کی فکر کھائے جا رہی ہے۔ انسانیت کے نام نہاد علمبرداروں کو یاد رہے کہ سات اکتوبر سے اب تک شہید فلسطینیوں کی تعداد چالیس ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔ بانوے ہزار سے زائد زخمی ہیں۔
غزہ کی وزارت دفاع کی جانب سے جاری کیے جانے والے اعداد و شمار کے مطابق غزہ میں جنگ کے آغاز سے اب تک چالیس ہزار پانچ افراد اسرائیلی حملوں میں شہید اور بانوے ہزار چار سو ایک افراد اسرائیلی حملوں کی زد میں آ کر زخمی بھی ہو چکے ہیں۔ ان چالیس ہزار سے زائد شہداء میں تینتیس فیصد بچے اور اٹھارہ فیصد سے زائد خواتین شامل ہیں۔ اسرائیلی حملوں میں تینتیس ارب ڈالرز سے زائد کا نقصان ہو چکا ہے۔ بنیادی ڈھانچہ تباہ کر دیا گیا ہے۔ کاش کوئی اقوام متحدہ تک یہ اعدادوشمار بھی پہنچا دے۔
آخر میں ساحر لدھیانوی کا کلام
ابھی اْٹھا وہ نیںد سے
تمہارا خواب دیکھ کے
ابھی تم ایک خواب ھو
ابھی پسِ حِجاب ھو۔
میں چْھو کے تم کو دیکھ لْوں
کہ سچ میں میرے پاس ھو؟
مجھے تھی جس کی جْستجْو
وھی میری تلاش ھو؟
ابھی تو اِس تلاش کا
مِلا کوئی صِلہ نہیں
ابھی نہ جاؤ چھوڑ کر
کہ دِل ابھی بھرا نہیں۔
نہ جانے کب سے باغ ھے
تمہارے انتظار میں
ابھی بدلنا ھے تمہیں
خزاں کو بھی بہار میں
تم آ کے مْسکرا تو دو
یہ پْھول پھر کِھلا تو دو
بدن کی بھینی نکہتیں
فِضاؤں میں مِلا تو دو
ابھی تو زْلفِ ناز کو
ھَوا نے بھی چْھوا نہیں
ابھی نہ جاؤ چھوڑ کر
کہ دِل ابھی بَھرا نہیں