ہاتھ پکڑ کر رکھیں

Aug 18, 2024

ثوبیہ خان

وہ میرا عکس ہے میرا آئینہ ہے۔ اس کی آنکھوں میں میرا چہرہ نظر آتا ہے۔ اس کے چہرے کے خدوخال میں میری جھلک ہے اس کی مسکراہٹ میں مَیں ہنستی دکھائی دیتی ہوں۔ اس کا ہونا میرا ہونا ہے۔ میری سانسوں میں زندگی اس کی بدولت ہے۔
میں کائنات کا ہر دکھ اس کی خاطر سہہ سکتی ہوں۔ اس کی خاطر تکلیف برداشت کرنا بھی مجھے سکھ دیتا ہے۔ وہ میرے خوابوں کی تعبیر کرے یا نہ کرے اس کی کامیابی ہو یا کسی میدان میں ناکامی، سب مجھے عزیز ہے۔ اس کے ساتھ جڑے سب رشتے مجھے پیارے ہیں۔میں ماں ہوں۔ جب سے اللہ نے یہ شرف دیا ہے، مجھے ہر چہرے میں ماں کا پیار نظر آنے لگا ہے۔ مجھے سب چہرے پیارے لگنے لگے ہیں۔ میں سوچتی ہوں سب چہرے اپنی اپنی ماں کے محبوب چہرے ہیں۔ 
ماں کا ہر خیال اپنی اولاد سے شروع ہو کر انہی پہ ختم ہوتا ہے۔ بچے کھائیں تو ماں کا پیٹ بھرتا ہے، وہ مسکرائیں تو ماں کھل جاتی ہے۔ سب ماؤں کے دکھ بھی سانجھے ہوتے ہیں۔ ایک ماں کی تکلیف دوسری ماں کی تکلیف جیسی یے۔ اسے اس تکلیف میں کہیں اپنے بچے کی تکلیف محسوس ہونے لگتی ہے۔ ایک ماں دوسری اپنی جیسی ماں کو تکلیف میں نہیں دیکھ سکتی۔
آج اس تحریر میں مَیں آپ کے ساتھ ایک واقع شئیر کروں گی۔اپنی خالہ کے ساتھ میں نے بنک میں حسب معمول کچھ معاملات نمٹائے اور ہم نے بازار کا رخ کیا۔چھوٹی موٹی چیزیں گروسری وغیرہ روز مرہ کی ضروریات ہوتی ہیں جو لینی پڑتی ہیں۔جوں ہی ہم بازار کے مرکز میں پہنچے تو ہمارے پاس سے ایک خاتون گزری جو کچھ پریشان سی تھی۔ وہ گزرنے والی عام عورتوں کی طرح نہیں نظر آرہی تھی۔
میں نے دل میں سوچا پتہ نہیں کیا مسئلہ ہے اسے۔
خیر ہم آگے چل پڑے 
ایک دوکان سے کچھ چیزیں خرید رہے تھے۔
وہی عورت میرے پیچھے کھڑی تھی۔ میں حیران ہوئی کہ یہ ادھر بھی۔میں نے چند لمحے خاموشی کے بعد اس سے پوچھا ۔کیا ہوا ہے؟۔
وہ میری طرف دیکھتے ہی رو پڑی اور کہنے لگی 
ہائے باجی میری بچی۔میں نے کہا کیا ہوا بچی کو۔ کہنے لگی ۔باجی میری بچی گم ہو گئی ہے۔ ادھر ہی تھی کچھ دیر پہلے میرے ساتھ۔خیر مجھ سے کچھ اور تو نہیں ہوا میں نے اسے ایک کرسی پہ بٹھاتے ہوئے کہا،
پلیز اپنے آپ کو سنبھالو۔
بچی مل جائے گی ان شاء اللہ۔ 
ڈھونڈتے ہیں اسے۔
تم خود کو نہیں سنبھالو گی تو اسے کیسے ڈھونڈیں گے۔
ایک آدمی نے اسے پانی دیا ۔میں نے اسے ساتھ لگایا، اسے کے دل پہ ہاتھ رکھا۔
اس کا دل اتنی تیزی سے دھڑک تھا جیسے کوئی تیز ترین ٹرین پٹری پہ تیزی سے چل رہی ہو۔ آتے جاتے لوگ ہمدردی سے اسے پوچھ رہے تھے کیا ہوا۔ جب وہ بتاتی تو عورتیں اور مرد اسے دعا دیتے اور چلے جاتے۔ 
اس کی اس قدر بیقراری اور پریشانی سے میرا دل بھی دکھ سے بھر گیا۔وہ اس وقت اکیلی تھی۔
میں نے خالہ سے کہا، یہ میرا پرس پکڑیں۔
غمزدہ ماں سے کہا کہ اٹھو خود کو سنبھالو۔
مجھے شناخت بتاؤ ہم مل کے ڈھونڈتے ہیں۔ مل جائے گی تمہاری بیٹی۔ ایک خدا ترس نوجوان بھی ہمارے ساتھ چل پڑا اور کہنے لگا باجی آپ شمال کی طرف جائیں میں دوسرے چوک کی طرف جاتا ہوں۔
ہم نے کوئی بیس منٹ پورا بازار چھان مارا، 
بچی نہیں ملی۔ پھر ایک بار مسجد میں اعلان کروایا اعلان کی گونج پورے بازار میں پھیل رہی تھی۔
ہم ایک چکر لگاتے اور اس مرکز پہ آکے رک جاتے اور اس دوران میں نے اس لڑکی کو جو دلاسہ دیے سکتی تھی دیتی رہی۔
خدا نے ماں کے تڑپتے دل کی پکار سن لی۔
بچی چلتی چلتی بہت دور چلی گئی تھی۔ ایک آدمی اسے شناخت کر کے اپنی دوکان پہ ٹھہرائے بیٹھا تھا۔ جب ہمیں اطلاع ملی تو ہم بھی چل پڑے۔
اس پورے سفر میں مجھے لگ رہا تھا میں کسی ارضی جنت کے سفر پہ ہوں۔ ماں کے بڑھتے قدم کتنی تسکین دے رہے تھے۔ میں اسے اس کی بیٹی کو گلے ملتے دیکھنا چاہتی تھی اور اس بے لوث جذبے کو دل میں کہیں چھپا کے رکھنا چاہتی تھی۔ماں رو رہی تھی، بیٹی بھی رو رہی تھی۔ میری آنکھیں بھی آنسوؤں سے بھری ہوئی تھیں۔ وہاں کھڑے تین چار مہذب آدمی باتیں کر رہے تھے۔ایک نے مجھے بڑی آہستگی سے پوچھا آپ کی کیا لگتی ہے یہ بچی۔
میں نے کہا میری بھی بیٹی ہے یہ،
میں بھی ایک ماں ہوں۔
ماں کی تڑپ کو دل میں محسوس کرتی ہوں۔
اس نے بڑی شفقت سے میری طرف دیکھا اور چپ رہا۔ پانی کا گلاس مجھے دیا۔میں حیران تھی۔ اس قدر گرمی میں مجھے بازار میں آدھا گھنٹہ یا اس سے زیادہ بیچینی اور افراتفری میں گھومتے ہوئے گرمی نہیں لگی نہ پاؤں تھکے نہ کہیں ذرا بھر بیزاری کی کیفیت محسوس ہوئی ۔بس ایک لگن تھی کہ بچی مل جائے۔۔اللہ نے کرم فرمایا ماں نے بچی کو گلے لگایا۔
میں نے کہا اب میں جاؤں؟
اس لڑکی کی آنکھوں میں تشکر کے آنسو تھے۔ وہ کہنے لگی باجی اگر آپ مجھے نہ سنبھالتی تو میرا شائد دل بند ہو جاتا۔ میں آپ کے سہارے سے چل رہی تھی آپ کا دل کتنا پیارا ہے۔ اتنے ہمدرد لوگ اب نہیں ہوتے دنیا میں۔میں نے اسے گلے لگایا اور کہا، پھر میری جگہ وہ رب کریم کسی اور کو بھیجتا تمھاری مدد کے لیے۔ شکر ہے اس نے مجھے چن لیا۔
میں وہاں سے تیزی سے چلتی ہوئی اس جگہ پہنچی جہاں میری خالہ پچھلے پونے گھنٹے سے میری منتظر تھیں۔
آس پاس سب لوگ مجھے دعائیں دے رہے تھے۔جس دکان پہ خالہ بیٹھی ہوئی تھیں اس دکان کا مالک تو بہت ہی دعائیں دے رہا تھا اور میں اللہ کا شکر ادا کر رہی تھی۔ میں اگر اسے وہاں چھوڑ آتی تو نہ جانے میرے دل میں کب تک یہ دکھ رہتا۔پتہ نہیں اس عورت کو اس کی بچی ملی ہو گی یا نہیں۔میں نے اپنے دل کی تسکین کے لیے یہ کوشش کی اور اللہ نے کرم کیا۔
معزز قارئین!
اس تمام تر واقعہ کے پیچھے یہ بات چھپی ہوئی ہے کہ آپ جب بھی بازار کسی بڑے شاپنگ مال یا کہیں بھی جائیں اپنے بچوں کا ہاتھ پکڑ کر رکھیں۔ ان سے ذرا بھر بھی غفلت نہ برتیں کیونکہ بچہ جب ایک سکینڈ بھی نظر سے اوجھل ہوتا یے تو وہ ایک سکینڈ دکھ بھرا گزرتا نہیں ۔بہت تکلیف اٹھانا پڑتی ہے۔
باہر نکلنے سے پہلے قرآنی آیات پڑھ کے بچوں پہ، خود پہ پھونک ماریں۔ اللہ کی حفاظت میں خود کو دے کر باہر نکلیں۔وہ رب کریم ہے مہربان ہے ہم پہ رحم کرتا ہے، ہماری تکلیفوں کو دور کرتا ہے، ہمیں مشکلوں سے نکالتا ہے۔ہم ایک دوسرے کے لیے اگر کسی آسانی کا باعث بنیں، کسی کو تکلیف سے نکال سکیں تو اسے اپنی خوش بختی سمجھیں کہ اللہ نے ہمیں چْنا۔

مزیدخبریں