14 اگست کو پاکستان خیر سے 77 برس کا ہو گیا۔ دیکھا جائے تو اِس نے اپنی عمر کے زیادہ تر سال پْر آشوب انداز اور کسمپرسی کی حالت میں ہی گزارے ہیں۔ عوام نے بھی غیر مستحکم عمل کے اِس تسلسل کو مدنظر رکھتے ہوئے طَوعاً و کَرہاً مَد و جَذر اور ہنگامہ خیزی سے بادل نخواستہ سمجھوتہ کئے رکھا ہے۔ اب وہ اس طرح کی صورتحال کے اتنے عادی ہو گئے ہیں کہ اگر کچھ عرصہ سکون و عافیت سے گزر جائے تو سجدہء شکر بجا لانے کی بجائے الٹا پریشان ہو جاتے ہیں۔ امرِ ربّی سے پاکستانی رعایا کے لئے مختص کردہ نائبین اور کاتبِ تقدیر کا عوام کی یہ کیفیت دیکھ کر دل مچلتا ہے تو وہ بھی خیر سگالی کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئے اْن کے لئے غم و غصہ و رنج و اندوہ و حرماں کے سامان پوری قوت سے پیدا کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ سب تبدیلیاں اتنی جلدی اور سرعت سے سر انجام پاتی ہیں کہ مہربانوں کو اس پر سوچ و بچار یا نظر ثانی کرنے کا وقت ہی میسر نہیں آتا۔ یوں ہم 77 سالوں سے ایک مخصوص دائرے میں تیزی سے گھوم رہے ہیں۔ نتیجتاً چکر کھا کر گرتے ہیں، کپڑے جھاڑتے ہیں اور پھر اسی سرگرمی میں مصروف ہو جاتے ہیں۔
مجھے 1990ء سے 1993ء تک بجلی اور دیگر بنیادی سہولیات سے محروم کوٹلی ستیاں جیسے پس ماندہ علاقے میں رہنے کا اتفاق ہوا۔ تب وہاں ہر گھر میں ریڈیو موجود تھا۔ لوگ اْس پر رات کو بی بی سی کی اردو نشریات ضرور سنا کرتے تھے۔ آپس میں ملتے تو مقامی اور بین الاقوامی حالاتِ حاضرہ پر ماہرانہ انداز میں سائربین، جہاں نما اور اخبارات میں چپھنے والے مضامین کے حوالے دے کر گفتگو کیا کرتے تھے۔ اب یوں لگتا ہے کہ زمانے کی برق رفتار ترقی کے باوجود آگاہی اور آگہی پر استوار وہ سوچ مزید بہتر ہونے کی بجائے آہستہ آہستہ رو بہ زوال ہوتی جا رہی ہے۔ دنیا میں کیا ہو رہا ہے؟ کسی کو اِس سے کوئی خاص سروکار نہیں رہا۔ یہی وجہ ہے کہ سمٹ سمٹا کر ہمارا بے ترتیب اور غیر سنجیدہ معاشرہ دو بڑے گروہوں میں منقسم ہو کر غیر شفاف سیاست کا ہمنوا اور نام لیوا بن گیا ہے۔ سیاسی اختلاف رائے ذاتی مخاصمت کی صورت اختیار کر کے آخری حدوں کو چھو رہا ہے۔ اِس صورتحال پر تو پاک بھارت مسلمہ دشمنی بھی شرمانے لگی ہے۔ معاشرے میں ضبط، برداشت اور تحمل کے تذکرے افکارِ پریشاں کی حیثیت اختیار کر گئے ہیں۔ مل بیٹھ کر اختلافات اور مسائل کا حل ڈھونڈنے کی بجائے دھرنوں اور عدالتوں کا سہارا لیا جاتا ہے۔ فیصلہ مرضی کا نہ آنے پر عدالتوں کو بے رحمی سے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ وہی عدالت اگر حق میں فیصلہ سنا دے تو واہ واہ، مرحبا، کیا کہنے اور حق سچ کی جیت جیسے کلمات کمال فراوانی سے دہرائے جاتے ہیں۔
دونوں بڑے گروہوں کے ہم نواؤں کے ساتھ ساتھ عام آدمی بھی سنجیدہ صورتحال کی بجائے دھماچوکڑی اور دھینگا مْشتی پر استوار سرگرمیوں میں ہی دلچسپی رکھتا ہے۔ سیاسی، سماجی یا عدالتی معاملات کے حوالے سے ہر کوئی پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر اپنی بساط اور استعداد کے مطابق تبصرے اور تجزیے پیش کر رہا ہوتا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ہر کوئی صرف اپنی رائے کو ہی معتبر تصور کرتا ہے۔
عمران خان کی گرفتاری کا دورانیہ زیادہ ہونے اور تمام عدالتی فیصلے حسبِ منشا نہ آنے کے باعث لوگوں میں 15 جولائی کا دن خلیل الرحمٰن قمر کی آمنہ عروج کے خلاف ایف آئی آر درج کرانے کی وجہ سے دلچسپی کے سامان پیدا کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ اِس کہانی کا ہارر اور سسپنس سے بھرپور جاری یہ سلسلہ مزید طول پکڑ سکتا تھا کہ ارشد ندیم نے اولمپک گیمز میں سونے کا تمغہ جیت کر اسے ساکت کر دیا۔ خوشی سے نہال قوم کو 28 مئی 1998ء کے روز ہونے والے ایٹمی دھماکوں کی خوشی میں جشن منانے کے بعد اب ایک اور موقع دستیاب ہوا تو اس نے اسے بھرپور طریقے سے انجوائے کیا۔ عوامی سطح پر ارشد ندیم نے ان گنت محبت بھرے جذبات جبکہ حکومتی پلیٹ فارموں سے قابلِ رشک مالی فوائد سمیٹے۔ علی امین گنڈا پور، وزیر اعلیٰ کے پی کی مخصوص طرزِ سیاست پر لاکھ سیاسی اختلافات رکھنے کے باوجود اتنی ستائش تو بہرحال بنتی ہے کہ انہوں نے 50 لاکھ کی رقم سرکاری خزانے کی بجائے اپنی ذاتی جیب سے دینے کا اعلان کیا ہے۔
بنگلہ دیش میں کوٹا سسٹم کے خلاف طلباء کے جاری احتجاجی مظاہروں، تین سو سے زائد جانوں کی ہلاکتوں اور ہنگاموں پر قابو نہ پا سکنے پر پندرہ سال سے برسرِ اقتدار وزیراعظم حسینہ شیخ کو جن غیر معمولی حالات میں 8 اگست 2024ء کو بھارت فرار ہونا پڑا۔ اِس پر بھی پاکستانی عوام کی گہری نظر اور دلچسپی رہی۔ اِس فرار میں پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کی حکومتوں اور عوام کے لئے بہت سے سبق، راز اور حکمتیں پوشیدہ ہیں۔ یہ فرار اِس حقیقت کو بھی آشکار کرتا ہے کہ عوامی حمایت کے بغیر دھونس، دھاندلی، طاقت کا اندھا استعمال، حد سے بڑھا غرورِ اعتماد اور مشاورت سے عاری سوچ انسان کو کہاں سے کہاں پہنچا دیتی ہے!! پاکستانی تاریخ کے اوراق پلٹیں… کسی نے باوقار طریقے سے اقتدار چھوڑا ہے؟
ایک مکتبہ فکر حکومت کو خبردار کرنے کے انداز میں پاکستان کی موجودہ صورتحال کا مقابلہ بنگلہ دیش کے حالات کے ساتھ کر رہا ہے۔ گو پاکستان کے حالات کے بارے میں پیشین گوئی کرنا انتہائی مشکل کام ہے مگر پھر بھی اگر موجودہ حالات کو ماضی کے تناظر میں دیکھا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ بنگالی سیاسی شعور کی بلوغت تحریکیں چلانے، جانوں کے نذرانے پیش کرنے اور چلائی گئی تحریکوں کے نتائج حاصل کرنے میں پاکستانی سوچ سے کہیں آگے ہیں۔ بنگالی ابھی تک بنگال پر 1757ء میں ہونے والے انگریزوں کے قبضے کو نہیں بھول سکے جبکہ ہم نے 1971ء کا سانحہ تک بھلا دیا ہے۔ 1977ء کی نظام مصطفیٰ تحریک میں سیاست دانوں کی عوام کے ساتھ کی جانے والی بے وفائی کے بعد عوام ہَلَّہ گْلّہ کرنے کے لئے تو تیار ہو جاتے ہیں مگر اپنا لہو بہانا گوارا نہیں کرتے۔
نواز شریف کو کٹ ٹو سائز کرنے والی سوچ پر عملدرآمد کرانے والی آخری شخصیت، جنرل فیض حمید کا کورٹ مارشل کرنے کے لئے فوج نے ان کو اپنی حفاظتی تحویل میں لے لیا ہے۔ ملکی تاریخ میں کسی سابقہ ڈی جی، آئی ایس آئی کو حفاظتی تحویل میں لینے کا یہ پہلا واقعہ ہے۔ جس طرح بڑی مچھلی چھوٹی مچھلیوں کو کھا جاتی ہے، اِسی طرح اس خبر نے بھی سابقہ پیش آنے والے تمام واقعات کو گہنا دیا ہے۔ یقیناً آنے والے چند ہفتے بڑے اہم ہوں گے۔ اِس معاملے میں قیاس آرائیوں کا سلسلہ بھی جاری رہے گا مگر حتمی طور پر کچھ کہنا، میری دانست میں، قبل از وقت ہوگا.۔