اندیشہ زوال

ہم خوش قسمت ہیں کہ بد قسمت کچھ سمجھ نہیں آ رہا ’’زیرو‘‘سے سفر شروع کیا اور دنیا کے ہیرو بن گئے، پھر بھی ہر ایک کی زبان پر ایک ہی سوال ہے کہ پاکستان کا کیا بنے گا؟ معاشی صورتحال پریشان کن، سیاسی معاملات ایسے الجھے کہ سلجھنے کا نام نہیں لے رہے، قصور اپنوں کا ہے لیکن کوئی اس قدر جذبہ نہیں رکھتا کہ غلطی تسلیم کر کے آگے بڑھنے کا سبب بنے، مصلحت پسندی، مفادات کا لالچ اور انا کا بت 77 سالوں میں مضبوط ہی نہیں مضبوط ترین ہو چکا ہے۔ غلطی کس کی ہے؟ کوئی آ مریت کو نشانہ بناتا ہے اور کوئی سیاست دانوں پر الزام لگاتا ہے۔ حالانکہ اس بد اعتمادی کی فضا میں ہر کسی نے اپنا اپنا حصہ بقدر جثہ ڈالا ہے۔ پہلے عبوری آ ئین اور پھر 73ء کے متفقہ آ ئین سے ریاست کی ترقی و خوشحالی کی راہ تلاش کی گئی لیکن حالات نے بار بار آ ئین سے کھلواڑ ہوتے دیکھا ،غریب ملک ،ترقی پذیر معیشت اور کمزور جمہوریت ایک سے زیادہ مرتبہ طاقتوروں کے پاؤں تلے روندی گئی اور مفاد پرست سیاست دانوں نے ہی نہیں ،عدلیہ نے بھی غیر آ ئینی ،غیر قانونی حکمرانوں کے ہاتھ پاؤں مضبوط کیے۔ عوام کو مختلف انداز میں،، سبز باغ،، دکھائے گئے اور بھولی قوم تالیاں بجا کر گزارا کرتی رہی۔ کس نے کیا کیا؟ اس سے قطع نظر، 77 سالہ زندگی اس بات کی کہانی سنا رہی ہے کہ سب کے سب وقت گزاری میں مصروف رہے اور  آج عوام تالیاں بجانے کی سکت بھی نہیں رکھتے کیونکہ ان کے ہاتھ مہنگائی، بے روزگاری اور بجلی بلوں نے ناکارہ کر دیے ،اب ان ہاتھوں میں حالات اور اپنی قسمت پر ماتم کرنے کی طاقت بھی نہیں، حکومتی دعوے اپنی جگہ لیکن عوامی مایوسی اور بد اعتمادی بھی عروج پر ہے۔ چادر 77 سالہ اچھی بری دھلائی میں اتنی بھی نہیں رہی کہ اپنی حیثیت اور شخصیت کو ڈھانپ لے۔ کچھ چھپائے نہیں چھپتا، غریب اور متوسط طبقہ بے چین اور ایسے میں بھی مفاد پرست ،اشرافیہ دندناتا پھر رہا ہے۔ سوال یہی ہے کہ ہمارے قائدین، اکابرین اور بزرگوں نے جن گراں قدر قربانیوں کے بعد بابائے قوم حضرت قائد اعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ کی قیادت میں یہ مملکت خداداد حاصل کی، یہ خطہ ارض بہترین موسموں، معدنیات اور محل وقوع کا مالک تھا۔ زراعت کے لیے بھی وسیع و عریض رقبہ موجود، باصلاحیت لوگوں کی بھی کمی نہیں ،پھر ہمیں کس کی نظر لگ گئی؟ جواب ایک ہی ہے کہ قوم ’’پاکستان‘‘ پیدا ہوتے ہی یتیم ہو گئی اور بابائے قوم کی رخصتی کے بعد اس کے ساتھ بھی ہر طاقتور نے یتیموں والا ہی سلوک کیا۔ پھر بھی اس نے طوفانوں کا مقابلہ کرتے ہوئے اگر،، زیرو سے ہیرو،، بننے کی ٹھانی تو ازلی دشمن بھارت کے عزائم بھی خاک میں ملائے اور عالمی سازش اور ہمسائے کی سہولت کاری سے دولخت ہونے کے بعد بھی محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی زیر نگرانی مسلم دنیا کی پہلی اور دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت بن کر دکھایا۔ پھر بھی ’’اندیشہء زوال‘‘ لاحق ہے۔ دشمنوں کو تو ایٹمی اثاثے ہضم نہیں ہوتے، اپنے بھی ان کی ہاں میں ہاں ملاتے ،ایٹمی اثاثوں کے غیر محفوظ ہونے اور چھن جانے کی افواہیں کسی خاص مقصد کے لیے پھیلاتے رہتے ہیں۔ ایسے میں ہماری عسکری اور سیاسی قیادت بہترین قومی جذبے سے سرشار ہے اسی لیے دشمن ماضی کی طرح کسی حرکت میں کامیاب نہیں ہو سکتا لیکن قومی استحکام میں دراڑیں ڈالنے کے لیے اپنے پرائے تلملا رہے ہیں جو ایک مضبوط افواج پاکستان کی موجودگی میں کبھی بھی کامیاب نہیں ہوں گے تاہم شر پسندی، سہولت کاری اور دہشت گردی کا سلسلہ جاری ہے جس میں ،،ڈیجیٹل دہشت گردی،، نے اپنا خاص حصہ بھی ڈال دیا ہے۔ حکومتی اداروں کی مضبوطی اور پارلیمنٹ کا فعال ہونا آج وقت کی ضرورت ہے تاکہ منفی سوچ کے سیلاب کے سامنے بندھ باندھا جا سکے۔

  حالات کا تقاضا ہے کہ حکومتی سطح پر ایسی منصوبہ بندی کی جائے کہ عوام کو مہنگائی اور بجلی کے بھاری بھرکم بلوں سے نجات ملے اور ان کی کمر سیدھی ہو تو مثبت انداز میں انہیں یہ یاد دہانی کرائی جائے کہ ہمارے وسائل آ بادی کا طوفان نگل رہا ہے۔ اس پر خصوصی توجہ دی جائے تاکہ حکومت زیادہ اچھے انداز میں گورننس کر سکے۔ لیکن ایسا جب ہی ممکن ہوگا کہ کرپشن ،لوٹ مار اور لٹیروں کے خلاف سیاسی نہیں، قومی انداز میں کارروائی کر کے ایسی سزا دلائی جائے کہ،، جزا و سزا،، ہوتی دکھائی دے۔ اس طرح عوامی اعتماد بحال ہوگا۔ کون لٹیرا ،کون چور، کون بڑا ڈاکو اور کون چھوٹا ڈاکو ؟اس بحث کو اب دفن کر دیا جائے۔ پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا بڑا اقدام کون اٹھائے گا یعنی بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا؟ جواب سیدھا سادہ ہے پارلیمنٹ کی طاقت سے یہ کام گڈ گورننس کی خواہش مند حکومت کرے۔ صرف اپنی مرضی اور سیاسی ضرورت کی ترامیم نہ کرے بلکہ ایسی تبدیلیاں وجود میں لائے جن کے باعث ادارے مضبوط، آزاد اور آ ئین و قانون کے مطابق کام کر سکیں ہر اچھی بری تبدیلی کو ایوان میں چیلنج کرنے کا رواج ڈالا جائے تاکہ عدلیہ پر دباؤ کم ہو اور ججز صاحبان کو بھی آ ئینی ترامیم کے ذریعے ماضی کی روایت کا پابند بنایا جائے کہ ،،وہ نہ بولیں ان کے فیصلے بولیں،، سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے ایسا رواج ڈالا کہ اب فیصلہ خواہ کچھ بھی آ ئے میڈیا میں سیاستدانوں کی طرح ججز کے بیانات شہ سرخیوں سے شائع کیے جاتے ہیں جس سے متنازعہ حوالوں سے معاشرے میں تقسیم در تقسیم کے عمل کو تقویت مل رہی ہے بلکہ ہر بات کا،، بتنگڑ،، بننا لازمی ہو چکا ہے۔ پاکستان اپنے وجود کے نازک ترین دور سے گزر رہا ہے۔ بحرانوں کا بھی ڈیرہ ہے لیکن بحران آ تے ہی جانے کے لیے ہیں ،حکومتی مشکل اور سخت فیصلوں نے عوامی امتحان مزید مشکل کر دیے ہیں پھر بھی توقعات بہتر مستقبل کی ہیں۔ دہشت گردی سے ٹکرا کر پاکستان پہلے بھی امن کا گہوارہ بنا تھا اب ،،جدید ڈیجیٹل دہشت گردی،، کے خلاف بھی عوامی تعاون کے ساتھ کامیابی حاصل ہوگی۔ سپہ سالار عاصم منیر کی واضح حکمت عملی اور سینیئر سابق عسکری قیادت کی مشاورت سے جلد مثبت نتائج منظر عام پر آ ئیں گے، ہمیں موجودہ ،،اندیشہ زوال،، میں انفرادی سوچ کی نفی کر کے محنت، خدمت اور اپنی خدا دا صلاحیتوں سے اپنے آ پ کو صرف اور صرف پاکستانی بن کر دکھانا ہوگا کیونکہ یہی ہماری پہچان ہے اور سبز ہلالی پرچم کے سائے تلے ہم سب ایک ہیں، پنجاب بڑا صوبہ اور یہاں کی پہلی خاتون وزیراعلی نے اپنی شب و روز محنت اور اقدامات سے ایسا بہت کچھ کر دکھایا جو ماضی میں نہیں ہو سکا، آ ج وہ اقتدار میں ہیں اس لیے عوامی سطح پر ہر ممکن کام کر گزرنا چاہیے مصلحت پسندی اور تنقید کے خوف سے بالاتر ہو۔ کیونکہ ،،جو ڈر گیا وہ مر گیا،،۔ مریم نواز نے اقتدار سنبھالنے سے پہلے ہی بہت کچھ قریب سے دیکھا ہے انہیں نواز شریف اور سینیٹر پرویز رشید کی خصوصی مشاورت بھی حاصل ہے اگر عوامی خدمت کے جذبے سے آگے بڑھتی رہیں تو پھر’’تندیء بادِ مخالف‘‘  انہیں اونچا ہی اڑائے گی، نتائج مثبت ہی نکلیں گے، رہی بات پاکستان کی تو اس کو تجربہ گاہ بنایا گیا، اس میں اچھے برے ادوار دیکھے گئے لیکن پاکستانی ایسے ہیں کہ انہوں نے ہر بحران ، آ سمانی  آفت ،جنگ اور دہشت گردی کی فضا میں بھی ہمت نہیں ہاری ،اس لیے دشمن یہ بات پلے باندھ لیں کہ،، اندیشہء زوال،، صرف ان کی خواہش ہے، حقیقت یہ نہیں کیونکہ خواہش اور خواب ہمیشہ پورے نہیں ہوتے،  آخر میں جناب احمد ندیم قاسمی کا یہ دعائیہ شعر ہے ...
 خدا کرے کہ میری ارض پاک پر اترے 
 وہ فصل گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو

ای پیپر دی نیشن

ہم باز نہیں آتے!!

حرف ناتمام…زاہد نویدzahidnaveed@hotmail.com یادش بخیر …یہ زمانہ 1960 کا جس کے حوالے سے آج بات ہوگی۔ یہ دور ایوب خاں کے زوال اور بھٹو ...