پنجاب کے عوام کو بجلی کے بھاری بلوں میں دو ماہ کا ریلیف مستقل ریلیف کے بغیر عوام کا اضطراب ختم نہیں کیا جا سکتا

بجلی کے بھاری بلوں سے عوام کو نجات دلانے کیلئے مسلم لیگ (ن) کے سربراہ اور سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کی زیرصدارت منعقد ہونیوالے مسلم لیگ (ن) کے مشاورتی اجلاس میں کئے گئے فیصلوں کی روشنی میں گزشتہ روز پنجاب کے بجلی صارفین کو اگست‘ ستمبر کے بلوں میں پانچ سو یونٹ تک 14 روپے فی یونٹ کا ریلیف دے دیا گیا۔ اس کا اعلان گزشتہ روز میاں نوازشریف نے وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس میں کیا۔ انہوں نے وزیراعظم محمد شہبازشریف سے بھی کہا کہ وہ بھی بجلی صارفین کو ایسے ریلیف کا لائحہ عمل طے کریں۔ نوازشریف کے بقول شہبازشریف کی جانب سے بجلی صارفین کیلئے 200 یونٹس تک کی رعایت بھی احسن اقدام ہے۔ ایک سوال کے جواب میں میاں نوازشریف نے کہا کہ مہنگائی کا ذمہ دار وہی ہے جو آج جیل میں بیٹھ کر باتیں کر رہا ہے۔ بانی پی ٹی آئی ہی ملک میں آئی ایم ایف کو واپس لایا تھا جبکہ ہم نے اپنے دور آئی ایم ایف کو تقریباً خیرباد کہہ دیا تھا۔ ہمارے دور میں ڈالر کو چار سال تک 104 روپے کی شرح پر برقرار رکھا گیا۔ اس وقت غریب کا بجلی کا بل 16 سو روپے تھا‘ جو آج 18 ہزار روپے تک پہنچ گیا ہے۔ انہوں نے استفسار کیا کہ غریب بچوں کا پیٹ پالے یا اپنی تنخواہ بلوں کی ادائیگی میں اجاڑے۔ ہمارے دور میں دس دس روپے کلو سبزیاں مل رہی تھیں‘ آج ہمارے دور کا 35 روپے کلو والا آٹا بھی کتنا مہنگا ہو گیا ہے۔ نوازشریف کے بقول بجلی کی لوڈشیڈنگ کا خاتمہ بھی ہمارے دور میں ہی ہوا تھا۔ ہمارے زمانے میں شرح سود پانچ فیصد تھی جو آج ساڑھے 19 فیصد ہے تو ملک میں کون سرمایہ کاری کریگا۔ انہوں نے وزیر اعلیٰ مریم نواز کو شاباش دیتے ہوئے وزیراعظم شہبازشریف سے کہا کہ وہ سولر پینلز کے منصوبہ کو آگے بڑھاتے ہوئے پنجاب حکومت سے تعاون کریں۔ اسی طرح دوسرے صوبوں سے بھی گزارش ہے کہ وہ عوامی ریلیف پر توجہ دیں۔ مجھے معلوم ہے کہ عوام کس مہنگائی کے کرب سے گزر رہے ہیں۔ میرا آج بھی یہی سوال ہے کہ ملک ترقی کے سفر پر گامزن تھا تو مجھے کیوں نکالا۔ 
یہ امر واقع ہے کہ آج ملک کے عوام بالخصوص تنخواہ دار‘ مزدور طبقات بجلی کے بھاری بلوں کی وجہ سے ہی سب سے زیادہ مضطرب اور بے چین ہیں جبکہ آئی ایم ایف کی شرائط کے تابع حکومت نے وفاقی اور صوبائی میزانیوں‘ ضمنی میزانیوں اور یوٹیلٹی بلوں میں براہ راست اور بالواسطہ ٹیکسوں کی بھرمار کرکے اور ساتھ ہی ساتھ مروجہ ٹیکسوں کی شرح بڑھا کر عوام سے آبرومندی کے ساتھ زندہ رہنے کی سکت بھی چھین لی ہے جن کے حکومتی پالیسیوں کے مخالف جذبات اور اضطراب کو بھانپ کر جماعت اسلامی نے بجلی کے بلوں اور آئی پی پیز کے معاملات کو فوکس کیا اور لیاقت باغ راولپنڈی میں 14 روز تک دھرنا دیا جبکہ امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان نے دھرنا تحریک پورے ملک میں پھیلانے کا اعلان بھی کردیا چنانچہ حکومت نے جماعت اسلامی کے ساتھ مذاکرات کیلئے تین وفاقی وزراء کی ٹیم تشکیل دیکر اس کی قیادت کے ساتھ سلسلہ جنبانی شروع کیا اور بالآخر لیاقت بلوچ کی سربراہی میں جماعت اسلامی کی مذاکراتی ٹیم کے ساتھ حکومتی مذاکرات کامیابی سے ہمکنار ہوئے۔ حکومت نے ایک معاہدے کے تحت بجلی بلوں میں جلد کمی کا وعدہ کیا اور نجی پاور کمپنیوں کے ساتھ معاہدوں پر نظرثانی کا بھی یقین دلایا جس پر امیر جماعت اسلامی نے دھرنا مؤخر کرنے کا اعلان کر دیا۔ 
اب مسلم لیگ (ن) کی قیادت کی جانب سے چاہے دو ماہ کیلئے ہی سہی‘ بجلی کے بھاری بلوں میں پنجاب کے صارفین کیلئے پانچ سو یونٹ تک 14 روپے فی یونٹ ریلیف کا اعلان گیا ہے تو اس سے صوبے کے عوام کو وقتی طور پر مناسب ریلیف ضرور مل جائیگا۔ جماعت اسلامی کی قیادت اس حکومتی اعلان کو اپنی تحریک کی کامیابی سے تعبیر کر رہی ہے جبکہ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے صوبے کے عوام کو اگست‘ ستمبر کے بلوں میں ریلیف دینے کیلئے صوبے کے ترقیاتی بجٹ میں سے 45 ارب روپے اس ریلیف کیلئے نکالنے کا اعلان کیا ہے تاہم یہ حکومتی فیصلہ عوام کیلئے مستقل ریلیف کا فیصلہ تو ہرگز نہیں۔ بجلی کے بھاری بلوں کا اصل باعث ان بلوں میں عائد کئے گئے مختلف قسم کے 14 ٹیکس ہیں جبکہ نجی پاور کمپنیوں کو کیپسٹی چارجز کی مد میں کی جانیوالی کھربوں روپے کی ادائیگیاں بھی بجلی کے بلوں کی شکل میں عوام پر ہی بھاری بوجھ ڈال کر کی جارہی ہیں جس کے بارے میں وزارت پاور ڈویژن کے حکام نے گزشتہ روز قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے توانائی کے روبرو یہ بیان دیکر عوام کیلئے مزید پریشانی کا اہتمام کر دیا ہے کہ آئی پی پیز کو ادائیگی کی خاطر اور گردشی قرضوں کی حد میں اضافہ روکنے کیلئے بجلی کے نرخوں میں اضافہ ناگزیر ہے۔ 
یہی وہ زمینی حقائق ہیں جو عوام میں حکومتی پالیسیوں کے خلاف اضطراب بڑھانے کا باعث بن رہے ہیں اور مستقبل قریب میں حکومت کے عائد کردہ براہ راست اور بالواسطہ ٹیکسوں اور بجلی کے بھاری بلوں کیخلاف تاجروں سمیت مختلف مکاتب زندگی کے لوگوں کے سڑکوں پر نکلنے کے آثار پیدا ہوتے نظر آرہے ہیں۔ ٹیکسوں کیخلاف مرکزی تنظیم تاجراں اور آل پاکستان انجمن تاجراں کی جانب سے 28 اگست کو ملک گیر ہڑتال کا اعلان کیا جا چکا ہے جس کے بعد امیر جماعت اسلامی نے بھی اسی روز ملک گیر ہڑتال کا اعلان کردیا ہے جبکہ جماعت اسلامی کی قیادت کا کہنا ہے کہ بجلی بلوں میں مستقل ریلیف اور آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں پر نظرثانی تک جماعت اسلامی کی ہڑتال جاری رہے گی اور لانگ مارچ بھی کیا جائیگا۔ یہ صورتحال حکمرانوں کیلئے کسی اطمینان کا عکاسی تو ہرگز نہیں کر رہی جبکہ مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں نوازشریف کی گزشتہ روز کی پریس کانفرنس بھی ایک طرح سے حکومت کیخلاف ہی چارج شیٹ ہے جن کے بقول انکے دور میں یوٹیلٹی بل اور اشیائے خورد و نوش سستی تھیں اور ڈالر بھی 104 روپے کی شرح پر ٹکا ہوا تھا۔ آج اگر میاں نوازشریف کے دور کے مقابلہ میں مہنگائی تین چار گنا بڑھ گئی ہے اور بجلی کے بھاری بلوں کی ادائیگی کی سکت نہ رکھنے والے غریب لوگ خودکشیوں کا راستہ اختیار کر چکے ہیں تو اسکی ذمہ داری اتحادی جماعتوں کی موجودہ حکومت پر ہی عائد ہوتی ہے۔ اس میں بھی طرفہ تماشا یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی اتحادی پیپلزپارٹی مہنگائی کا سارا ملبہ مسلم لیگ (ن) پر ڈالتی نظر آرہی ہے جبکہ پی ٹی آئی کی حکومت مخالف پالیسیوں میں بھی سارا فوکس مسلم لیگ (ن) پر ہے جو اقتدار کے نازک آشیانے پر بیٹھی ہے تو اسکے اتحادی بھی اس آشیانے کی جڑیں کاٹنے میں مصروف ہیں۔ 
بے شک میاں نوازشریف کی مشاورت کے ساتھ وزیراعلیٰ مریم نواز نے صوبے کے عوام کو بجلی کے بھاری بلوں میں ریلیف دینے کا اہم اقدام اٹھایا ہے تاہم جب تک یہ ریلیف مستقل بنیادوں پر عوام کے لیئے ٹھنڈی ہوا کا جھونکا نہیں بنے گا اور جب تک آئی پی پیز کے معاہدوں سے خلاصی نہیں پائی جائیگی‘ کسی قسم کا وقتی ریلیف حکومت کے لیئے اپنے معاملات سنبھالنے کا باعث نہیں بن پائے گا۔

ای پیپر دی نیشن