ملتان(ظفراقبال سے) آزادی کی لگن اور خواہس کے باعث ہم نے تمام دکھ اور تکالیف کا جوانمردی سے مقابلہ کیا۔ یہ الفاظ تھے ضلع فیروزپور کے گاؤں سریے والا سے ہجرت کر کے پاکستان آنے والے چوہدری محمد بوٹا نے ۔ ’’میں نے پاکستان بنتے دیکھا‘‘ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت تیسری جماعت کا طالب علم تھا۔ ایک دن گھر کے باہر دیگر خاندان کے افراد کے ساتھ موجود تھا کہ اچانک ہماری گاؤں کے ایک گھر سے آگ کے شعلے بھڑک رہے تھے ہم اس طرف بھاگ کھڑے ہوئے دیکھا تو سکھوں نے نواب دین چوہدری کے گھر کو آگ لگادی تھی اور جوبھی ان کے نزدیک آتا تلواروں‘ گنڈاسوں سے حملہ کر کے اسے کاٹ کر پھینک دیتے یوں گلی میں خون کی ہولی کھیلی جا رہی تھی۔ ہم واپس گھر کی طرف آ گئے ابھی گھر پہنچے ہی تھے کہ سکھوں نے ایک اور حملہ کردیا جس سے ہم خاندان کے 20 افراد خالی ہاتھ گھر چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے اور نزدیک کھیت میں چھپ گئے۔ سکھوں نے ہمارے گھروں سے اپنی مرضی سے سامان لوٹا اور اس کے بعد گھروں کو آگ لگا دی‘ ہمارا 8‘9 کلومیٹر پر مشتمل قافلہ گنڈا سنگھ بارڈر کی طرف رواں دواں تھا۔ حملہ آوروں نے ایک بار پھر خون کی ہولی کھیلی تو کئی جوان ہماری آنکھوں کے سامنے شہید ہوئے۔ کئی جوان خوبرو دوشیزاؤں کو اٹھا کر لے گئے۔ میرا ایک چچا زاد بھائی جو کہ 18 سال کا تھا شہید کردیا گیا۔ اﷲ کی رحمت اور میری والدہ کی دعاؤں کے صدقے ہمارا خاندان محفوظ رہا۔ بھوک پیاس کا یہ عالم تھا کہ ہمارے بزرگوں نے پیٹ پر پتھر باندھ رکھے تھے۔ جڑی بوٹیاں کھا کر بھوک مٹاتے۔ شدید ترین پیاس کے باعث ندی نالوں کا پانی آب حیات لگتا۔ جسے پی کر ہم اﷲ کا شکر ادا کرتے ‘ کوئی 24 روز مسلسل سفر کے باعث لاہور بارڈر پر پہنچے۔ وہاں کچھ دن آرام کے بعد پتوکی اور وہاں سے ملتان کے علاقہ سورج میانی آ کر آباد ہوئے۔ لیکن چند ہی دن بعد دیگر قریبی رشتہ داروں کی طرف سے پیغام ملنے پر ہم ٹاٹے پور قیام پذیر ہو گئے۔
سکھوں نے قتل عام شروع کیا تو گھروں سے بھاگے کھیتوں میں پناہ لی: محمد بوٹا
Aug 18, 2024