وزیرِاعظم ۔۔۔ بے قصور!

16 دسمبرکو ، سقوطِ ڈھاکہ کے دِن ، قصور کے جلسہءعام سے خطاب کرتے ہوئے، وزیرِاعظم راجا پرویز اشرف نے صِرف ایک جُملہ کہا کہ۔ ”اب غلطی کی گنجائش نہیں“ ، لیکن انہوں نے، چیئر مین ذوالفقار علی بھٹو کا ایک ایسا کارنامہ بھی بیان کِیا ، جو مرحوم سے سرزد ہی نہیں ہُوا ۔ راجا صاحب نے فرمایا کہ ۔” ڈکٹیٹر صدر ایوب خان نے ، عام انتخابات میں ، پاکستان کے ہر شخص کو ووٹ کے حق سے محروم کر کے ، صِرف 80ہزار بی ڈی ( بنیادی جمہوریت) ممبران کو انتخابات میں ووٹ کا حق دِیا تھا ، یہ ذوالفقار علی بھٹو ہی تھے کہ جنہوں نے جدوجہد کر کے ، عام آدمی کو ووٹ کا حق لے کر دِیا اور صحیح معنوں میں جمہوریت بحال کروائی “۔
صدر ایوب خان نے 1962ءمیں بی ڈی نظام متعارف کرایا اور 1962ءہی میں ، انہوں نے 80ہزار بی ڈی ممبران کو ووٹ کا حق دے کر، قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کرائے، ذوالفقار علی بھٹو ، صدر ایوب کی کابینہ، میں تھے، وہ لاڑکانہ سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے ۔ راجا پرویز اشرف کی تاریخِ پیدائش 26دسمبر1950ءہے ۔ 1962ءمیں موصوف کی عُمر 12سال تھی ۔ وہ اُس وقت سکول میں پڑھتے ہوں گے ۔ صدر ایوب خان نے جو کنونشن مُسلم لیگ کے صدر بھی تھے ، 1964ءمیں بھی بی ڈی نظام کے تحت ہی انتخابات کرائے ۔ انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کو 1963ءمیں وزیرِ خارجہ بنا یا تھااور کنونشن مُسلم لیگ کا مرکزی سیکرٹری جنرل بھی۔
ذوالفقار علی بھٹو نے، صدر ایوب خان کی خدمت میں تجویز پیش کی تھی کہ ہر ضلع کے ڈپٹی کمشنر اور سُپرنٹنڈنٹ کو بالترتیب کنونشن مُسلم لیگ کا ضلعی صدر اور سیکرٹری جنرل نامزد کر دیا جائے، لیکن صدر ایوب خان نے، یہ تجویز قبول نہیں کی تھی۔ جنوری 1965ءمیں جب بی ڈی نظام کے تحت صدارتی انتخاب ہُوا تو، صدر ایوب خان کے مقابلے میں، مادرِ ملّت محترمہ فاطمہ جناح حزبِ اختلاف کی مشترکہ امیدوار تھیں۔ انہی دِنوں ایک خبر اخبارات میں چھپی کہ ۔” ایوب خان ” فیلڈ مارشل“ کی حیثیت سے ، چونکہ سرکاری ملازم ہیں ، ممکن ہے چیف الیکشن کمشنر انہیں انتخاب کے لئے نا اہل قرار دے دیں“۔
صدر ایوب خان نے ایک نوٹیفیکیشن جاری کریا اور پچھلی تاریخوں سے ”فیلڈ مارشل“ کے عہدے سے ریٹائرمنٹ لے لی ۔ اِس کے باوجود ، وہ اپنے ہی نامزد کردہ چیف الیکشن کمشنر سے خوفزدہ تھے ۔ انہوں نے اپنے دو وزیروں ،وزیرِ خزانہ محمد شعیب اور وزیرِ خارجہ ذوالفقار علی بھٹو کو اپنا” Covering candidate“ نامزد کر دیا چیف الیکشن کمشنر جناب اختر حسین ، اگرصدر ایوب خان کو انتخاب کے لئے نااہل قرار د ے د یتے تو محمد شعیب یا ذوالفقار علی بھٹو جنوری 1965ءمیں صدرِ پاکستان منتخب ہو جاتے۔
صدر ایوب خان کے آخری دور میں، جب انہوں نے تمام سیاسی جماعتوں کی گول میز کانفرنس کا اہتمام کِیا تو چیئر مین پاکستان پیپلز پارٹی ، ذوالفقار علی بھٹو نے اُس کا بائیکاٹ کِیا تھا ۔ حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے گول میز کانفرنس میں ، صدر ایوب خان سے یہ بات منوا لی تھی کہ۔ ”مُلک میں پارلیمانی نظام ہو گا اور عام انتخابات میں ، ہر عاقل و بالغ مرد اور عورت کو ووٹ دینے کا حق ہو گا“۔ محترم راجا پرویز اشرف صاحب! آپ اُس دور کی اپوزیشن جماعتوں کے کردار کی نفی کر کے ہماری قومی سیاسی تاریخ کو کیوں مسخ کر رہے ہیں؟ اگر آپ آج کل ایم اے سیاسیات یا تاریخِ پاکستان کے طالبعلم ہوتے تو یقیناً فرسٹ ڈویژن میں فیل ہو جاتے۔
1968ءہی میں چیئرمین بھٹو ساہیوال جیل میں قید تھے۔ ”بابائے سوشلزم“ شیخ محمد رشید ، اِن سے مُلاقات کر کے لاہور واپس آئے اور انہوں نے ایک پریس کانفرنس میں مطالبہ کیا کہ۔”چیئرمین بھٹو کو رہا کِیا جائے، کیونکہ وہ آئندہ صدارتی انتخاب میں صدر ایوب خان کے مقابلے میں امیدوار ہیں“۔ راجا پرویز اشرف اُس وقت 18سال کے تھے اور پیپلز پارٹی سے اُن کا دور کا بھی واسطہ نہیں تھا۔ راجا صاحب تقریر اچھی کر لیتے ہیں اور آہستہ آہستہ جُگت بازی میں بھی مہارت حاصل کرتے جا رہے ہیں، لیکن پیپلز پارٹی کی تاریخ کے بارے میں اُن کا۔ ”مبلغِ علم“۔ ناقابلِ رشک ہے۔
16دسمبر 1971ءکو، جناب ذوالفقار علی بھٹو کو، فوج نے ، چیف مارشل لا ءایڈمنسٹریٹر اور صدرِ پاکستان مقرر کِیا تھا ۔راجا پرویز اشرف نے اُس موقع پرقصور میں ، گویا بھٹو صاحب کے اقتدارمیں آنے کی سالگرہ منائی ۔ 14 اگست 1973ءکو، جب متفقہ آئین نافذ ہُوا اور نئے آئین کے تحت جب بھٹو صاحب وزیرِاعظم بنے تو انہوں نے مُلک میں ہنگامی حالت نافذ کر دی تھی، اِس سے قبل وہ، چیف مارشل لاءایڈمنسٹریٹر کی حیثیت سے ، نظامِ مملکت چلاتے رہے۔ افسوس کہ پیپلز پارٹی میںسے 90 فی صد ''Uncles'' نکال دئیے گئے ہیں ورنہ کوئی نہ کوئی تو، راجا صاحب کو، پارٹی کی تاریخ سے آگاہ کرتا رہتا۔
وزیرِاعظم نے قصور میں بابا بلّھے شاہ یونیورسٹی، بنانے کا اعلان کِیا۔ اچھی بات ہے۔ بابا جی نے کہا تھا ۔۔۔۔
”منگ اوئے بندیا اللہ کولوں ، گُلّی ، جُلّی ، کُلّی “
یعنی اے بندے! تو اللہ سے روٹی کپڑا اور مکان مانگ۔ جناب ذوالفقار علی بھٹو ، محترمہ بےنظیر بھٹو اور جناب آصف زرداری نے بھی یہ معاملہ اللہ پر چھوڑ دیا ۔ اب اللہ جانے اور اُس کے بندے ۔ ” بلاول بھٹو زرداری جدوں آئے گا‘ لگ پتہ جائے گا“۔
قصور سے ، بے نظیر بھٹو کی پیپلز پارٹی کے دو اصحاب‘ سردار آصف احمد علی اور میاں خورشید قصوری ، باری باری وزیرِ خارجہ رہے ہیں۔سردار صاحب کو تو وزیرِ اعظم بے نظیر بھٹو نے۔ ” پاکستان کا ہینری کیسنجر“۔ قرار دِیا تھا ، اب دونوں صاحبان تحریکِ انصاف میں ہیں ۔ قصور کے ہی ایک اور صاحب اور پیپلز پارٹی کے بانی رُکن احمد رضا خان قصوری کا ذکر بھی ہو جائے ، جِن کے والد نواب محمد احمد خان کے قتل کی سازش کا بڑا مُلزم قرار دے کر جنابِ بھٹو کو پھانسی کی سزا دی گئی ۔ 1976ءمیں بیگم نُصرت بھٹو ، لاہور میں احمد رضا قصوری کے گھر واقع ماڈل ٹاﺅن تشریف لے گئی تھیں اور قصوری صاحب نے اعلان کیا تھا کہ۔” بھائی کے گھر بہن آگئی ہے اور میںنے وزیرِاعظم بھٹو کو‘ اپنے والد کا خون معاف کر دیا ہے“۔
بھٹو صاحب سے دو غلطیاں ہوئیں۔ ایک تو انہوں نے لاہور کے کسی مجسٹریٹ کی عدالت میں قصوری صاحب کا یہ بیان قلم بند نہیں کروایا اور دوسری یہ کہ جب احمد رضا قصوری نے دوبارہ پیپلز پارٹی میں شامل ہو کر 1977ءکے انتخابات سے پہلے قومی اسمبلی کی نشست کے لئے ٹکٹ کی درخواست دی تو بھٹو صاحب نے یہ درخواست مسترد کر دی ۔پھر جنرل ضیاءاُلحق نے ، قصوری صاحب کو مُدّعی بنا لیا ۔ اِس لحاظ سے بھٹو صاحب کی پھانسی خود کُشی کا کیس ہے۔
وزیرِاعظم راجا نے، حسبِ سابق مخالفین کے خُوب لتّے لئے۔ اُن کی تقریر کا خلاصہ ہے۔ ”مخالفین سُن لیں! ہم فصلی بٹیرے، اقتدار کے پُجاری اور آمریت کی پیداوار نہیں۔ ہم غیر آئینی آشیرباد سے، اعوانوں میں آنے والوں کی اصلیت جانتے ہیں“۔ اِس طرح کی تقریر راجا صاحب فیصل آباد میں بھی کر چُکے ہیں۔ یہ ”ضرورتِ شعری“ ہے یا نظریہءضرورت۔ راجا صاحب نے مسائل زدہ عوام کو کوئی اچھی خبر نہیں سُنائی۔ کوئی خواب نہیں دِکھایا اور نہ ہی ذوالفقار علی بھٹو کی طرح غریبوں کے حق میں ”انقلاب“ لانے کا اعلان کِیا ہے۔ در اصل راجا صاحب‘ مختار ِکُل نہیں بلکہ مجبورِ محض ہیں۔ ”یا اللہ‘ یارسول۔ وزیرِاعظم بے قصور!

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...