قائدکشمیر چودھری غلام عباس


کشمیری آج اپنے قائد اور تحریک الحاق پاکستان کے علمبردار چودھری غلام عباس کی 45 ویں برسی عقیدت و احترام سے منا رہے ہیں۔ چودھری غلام عباس نے اپنی خواہش کا اظہار کیا تھا کہ انہیں اس جگہ پر سپردخاک کیا جائے جہاں سے راستہ کشمیر کو جاتا ہو چنانچہ راولپنڈی فیض آباد میں جہاں سے ایک راستہ اسلام آباد کو اور دوسرا کشمیر کو جاتا ہے۔ انجمن فیض الاسلام کے ادارہ نے 12 کنال کا رقبہ فوری طور پر عنایت کر دیا اور کشمیر کے اس مرد قلندر اور مرد حر کو سپرد خاک کر دیا گیا۔ آج یہ رقبہ سرسبزو آباد ہے اور ایک رابطہ سڑک کے ذریعے مری روڈ سے منسلک ہے۔
 13 جولائی 1931ءکو سری نگر سینٹرل جیل کے سامنے ڈوگرہ پولیس کی فائرنگ سے22 مسلمان شہید ہو گئے تھے۔ یہ سانحہ عظیم تھا جس نے کشمیر جنت نظیر میں مسلمانوں کی80 فیصد آبادی کو جھنجوڑ کر رکھ دیا اور ایک زور دار تحریک آزادی کو جنم دیا۔ اس شام شیخ محمد عبداللہ، چودھری غلام عباس، مولوی عبدالرحیم، خواجہ غلام نبی گلکار، سردار گوہر رحمن اور شیخ یعقوب علی گرفتار کر لئے گئے تھے۔ یہ ریاست کے پہلے سیاسی اسیر تھے۔
 تحریک آزادی بڑی سرعت کےساتھ 84 ہزار مربع میل کی ریاست کے بلند و پست پر پھیل گئی۔ اسے منظم کرنے کیلئے پہلی سیاسی جماعت جموں و کشمیر مسلم کانفرنس 1932ءمیں قائم کی گئی۔ شیخ محمد عبداللہ اس کے صدر اور چودھری غلام عباس جنرل سیکرٹری منتخب کئے گئے۔ گولیوں، ٹکٹکی اور نظربندی کے سایوں میں جمہوری نظام کےلئے تحریک پوری قوت سے جاری تھی۔ ریاست کے ڈوگرہ مہاراجہ نے 1935`1934 اور 1937ءمیں ایک لولی لنگڑی سی اسمبلی کے انتخابات کرائے جس میں مسلمانوں کےلئے مختص نشستوں میں سے مسلم کانفرنس نے 90 فیصد جیت لی تھیں۔
مسلم کانفرنس کو نیشنل کانفرنس میں بدل دیا۔چودھری غلام عباس اپنی آپ بیتی ”کشمکش“ میں لکھتے ہیں کہ میرے لئے نیشنل کانفرنس کے قیام کو قبول کرنا بڑا بھاری پتھر دل پر رکھنے کے مترادف تھا لیکن مسلمانوں کی اس عظیم سیاسی قوت کو انتشار سے بچانے کےلئے یہ بھاری پتھر اس شرط کے ساتھ اٹھا لیا تھا کہ کانگریس کا ریاست کی سیاست میں کوئی دخل نہیں ہو گا۔ تھوڑے عرصہ کے بعد شیخ محمد عبداللہ نے لاہور میں جواہر لال نہرو سے ملاقات کی۔ جو اس شرط کی خلاف ورزی تھی۔ چودھری غلام عباس نیشنل کانفرنس سے الگ ہو گئے۔23 مارچ 1940ءکو لاہور میں مسلم لیگ نے پاکستان کی قرارداد منظور کی۔
چودھری غلام عباس نے 1941ءمیں مسلم کانفرنس کا احیا کیا اور1942ءمیں یہ اعلان کر دیا کہ ریاست جموں و کشمیر میں جمہوری نظام کےلئے جاری مسلم کانفرنس کی جدوجہد تحریک پاکستان کا حصہ ہو گی۔ یہاں سے مسلم کانفرنس اور چودھری غلام عباس کو دو مخالف قوتوں کا مقابلہ کرنا پڑا۔ ایک ڈوگرہ کا شخصی نظام اور دوسری کانگرس کی پروردہ شیخ عبداللہ کی نیشنل کانفرنس۔ چودھری غلام عباس اور مسلم کانفرنس اپنے جاں نثار ساتھیوں کے ساتھ اور عوام کی حمایت سے ان دونوں قوتوں کے جوروستم کا مقابلہ کرتے رہے۔
چودھری غلام عباس جو جموں میں پیدا ہوئے تھے نے لاہور کے لا کالج سے ایل ایل بی ڈگری1931ءمیں اسیری کے دوران میں حاصل کی تھی۔ چودھری غلام عباس اپنے دیندار مزاج، ایثار و خلوص، دیانت و شرافت کے باعث کشمیریوں میں بڑے ہر دلعزیز تھے۔ ہندوستان میں مسلم لیگ کے اجلاسوں میں شریک ہوتے رہے اور قائداعظم و لیاقت علی خان کے حلقہ اعتماد میں تھے۔ قائداعظمؒ نے 1944ءمیں دو ماہ کے قیام سری نگر کے دوران کشمیر کے تمام سیاستدانوں، کارکنوں اور سیاسی دانشوروں سے ملاقاتیں کی تھیں اور کشمیر کے سیاسی حالات سے پوری طرح باخبر ہو چکے تھے۔ انہوں نے چودھری غلام عباس کو اپنے معتمد ساتھی کے طور پر چن لیا تھا۔ شیخ عبداللہ نے 1946ءمیں مہاراجہ کے خلاف تحریک شروع کی اور گرفتار کر لئے گئے۔
چودھری غلام عباس نے اکتوبر 1946ءمیں آزاد کشمیر کا نعرہ لگایا وہ بھی گرفتار کر لئے گئے تھے۔3جون 1947ءکو آزادی ہند اور قیام پاکستان کا اعلان ہوا تو دونوں رہنما جیل میں تھے۔ بھارت نے شیخ عبداللہ کی حمایت سے کشمیر پر فوجی کشی کی۔ شیخ محمد عبداللہ کو وزیراعظم بنایا اور اپنا تسلط قائم کیا۔ جموں میں اس تسلط کے دوران اڑھائی لاکھ مسلمان شہید ہوئے۔ چودھری غلام عباس جموں جیل میں تھے اور اپنے شہر کے لوگوں پر چلنے والی گولیوں کی سنسناہٹ اور مسلمانوں کی آہیں سنتے رہے۔ شیخ عبداللہ نے چودھری غلام عباس سے جیل میں ملاقات کی اور پیشکش کی کہ گاندھی اور نہرو ا چھے آدمی ہیں آپ آئیں ہم اکٹھے مل کر کام کریں گے۔ چودھری غلام عباس نے اس پیشکش کو اس دلیل کے ساتھ ٹھکرا دیا کہ گاندھی، نہرو میں اور آپ کب تک زندہ رہیں گے۔ یہ مسئلہ تو ہماری نسلوں تک اثرانداز ہو گا۔ میں آپ کے ساتھ کام نہیں کر سکتا۔
چودھری غلام عباس کومارچ 1948ءمیں رہا کر کے سیالکوٹ کی سرحد پر چھوڑ دیا گیا تھا۔ وہ قائداعظم سے ملنے کراچی گئے۔ قائداعظم نے انہیں تحریک آزادی کشمیر کے سپریم ہیڈ کا اعزاز دیا۔ چودھری غلام عباس نے 1957ءمیں سیز فائر لائن توڑ دو کی زور دار تحریک شروع کی تھی جس میں پاکستان کے عوام، سیاسی قیادت اور کشمیری عوام نے بھرپور ساتھ دیا تھا۔ اس تحریک میں چودھری غلام عباس دوبار گرفتار کئے گئے تھے۔ انہوں نے کشمیری عوام میں جمہوری حقوق کےلئے اور پھر کشمیر کے پاکستان سے الحاق کیلئے جس ایثار، خلوص، دیانت دار اخلاص کے اعلیٰ اصولوں کے ساتھ تحریک کا جو جذبہ پیدا کیا ہے وہ منزل کے حصول تک زندہ و تابندہ رہے گا ....
مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لعئیم
تو نے وہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کئے

ای پیپر دی نیشن