بزرگ کشمیری رہنما اور آل پارٹیز حریت کانفرنس (گ) کے چیئرمین سید علی گیلانی نے کہا ہے کہ بھارت سے نام نہاد الحاق کا مطالبہ کشمیری عوام‘ پاکستان اور عالمی برادری کیلئے ناقابل قبول اور غیرقانونی ہے۔ جموں و کشمیر کے عوام کا فطری میلان پاکستان کی طرف ہے‘ اگر پاکستان کشمیر پر اصولی مو¿قف سے ہٹا تو ہم مو¿قف پر قائم رہ کر کوئی راستہ نکالیں گے۔ اس سلسلہ میں انہوں نے وزیر خارجہ حنا ربانی کھر کو مراسلہ بھجوایا ہے جس میں باور کرایا گیا ہے کہ مسئلہ کشمیر کوئی نیا مسئلہ نہیں بلکہ یہ تقسیم ہند کے پروگرام کا حصہ ہے اور تکلیف دہ امر یہ ہے کہ پاکستان بنیادی ایشو سے ہٹ کر مفادات کی طرف جاتا نظر آتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ریاست جموں و کشمیر کے عوام اپنے سیاسی مستقبل کافیصلہ اپنی آزادانہ رائے سے کرینگے۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ پاکستان کے حکمرانوں کی جانب سے کشمیر پر پاکستان کے اصولی مو¿قف سے انحراف کے عملاً کئی راستے اختیار کئے جا رہے ہیں تاہم پاکستان کا آج بھی یہی مو¿قف ہے کہ مسئلہ کشمیر کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق حل کیا جائے۔ انہوں نے اپنے مراسلہ میں واضح کیا ہے کہ کشمیر کے عوام گزشتہ 66 برس سے اپنے مو¿قف پر قائم رہ کر جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں‘ جنہوں نے بھارتی تسلط قبول کیا ہے‘ نہ کرینگے۔ انکی حق خودارادیت کی جدوجہد ہر نشیب و فراز کے باوجود مضبوط اور مستحکم ہے اور یہ جدوجہد کامیابی تک جاری رہے گی۔
یقیناً کشمیر پر پاکستان کا وہی مو¿قف ہے جو بانی¿ پاکستان قائداعظم نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دے کر اختیار کیا تھا اور اسے جارح بھارتی افواج کے تسلط سے چھڑانے کیلئے پاکستان کی مسلح افواج کے سربراہ جنرل ڈگلس گریسی کو کشمیر پر چڑھائی کا حکم دیا تھا‘ یہ بھی حقیقت ہے کہ تقسیم ہند کے ایجنڈے کی روشنی میں کشمیری عوام نے قیام پاکستان سے پہلے ہی کشمیری رہنما غلام عباس کی سربراہی میں اپنے اجلاس میں پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کرلیا تھا کیونکہ مسلمانوں پر مشتمل وادی ¿کشمیر کی غالب اکثریت کا متعصب‘ جنونی اور کاروباری ہندو کے ساتھ گزارا نہیں ہو سکتا تھا۔ جب دو قومی نظریے کی بنیاد پر برصغیر کے مسلمانوں کیلئے الگ خطہ¿ ارضی کے حصول کیلئے آل انڈیا مسلم لیگ نے علامہ اقبال اور قائداعظم کی زیر قیادت انگریز اور ہندو سے آزادی کی جدوجہد کا آغاز کیا تو فطری طور پر کشمیری مسلمان بھی اس جدوجہد کا حصہ تھے جبکہ نظریاتی پس منظر کے علاوہ جغرافیائی طور پر بھی کشمیر کا پاکستان کے ساتھ ہی الحاق ہونا تھا جس کے بغیر پاکستان کا وجود مکمل نہیں ہو سکتا تھا۔ اس پس منظر میں جب تقسیم ہند کے فارمولے میں برصغیر کی آزاد اور خودمختار ریاستوں کو اپنے مستقبل کے تعین کا خود فیصلہ کرنے کا حق دیا گیا اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی طے کیا گیا کہ ہندو اکثریتی آبادی والی ریاستیں بھارت اور مسلمان اکثریتی آبادی والی ریاستیں پاکستان کے ساتھ الحاق کرنے میں آزاد ہونگی تو قیام پاکستان کے ساتھ ہی تقسیم ہند کے فارمولے کی بنیاد پر کشمیر کا پاکستان کے ساتھ الحاق ہو جانا چاہیے تھا جیسے ریاست جوناگڑھ‘ مناوادر کا بھارت کے ساتھا الحاق کیا گیا۔ یہ طرفہ تماشا ہے کہ اس طے شدہ فارمولے کے باوجود مسلم اکثریتی آبادی والی ریاست حیدرآباد دکن کا بھی بھارت کے ساتھ الحاق کر دیا گیا اور ریاست جموں و کشمیر کو بھی متنازعہ بنادیا گیا تاکہ اس کا پاکستان کے ساتھ الحاق نہ ہونے دیا جائے۔ ہندو لیڈران کی اس شاطرانہ چال کو بھانپ کر کشمیری عوام نے اسی وقت پاکستان کے ساتھ الحاق کی تحریک شروع کر دی جسے دبانے کیلئے بھارت نے 1948ءمیں وادی ¿ کشمیر میں اپنی افواج داخل کرکے اس پر اپنا تسلط جمالیا اور کشمیری عوام پر ظلم و جبر کا طولانی سلسلہ شروع کردیا اور پھر بھارتی وزیراعظم جواہر لال نہرو کشمیر کا کیس لے کر اقوام متحدہ جا پہنچے‘ تاہم جب یو این جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل نے اپنی الگ الگ قراردادوں کے ذریعے کشمیری عوام کے حق خودارادیت کو تسلیم کرتے ہوئے کشمیر میں استصواب کا اہتمام کرنے کی ہدایت کی تو ہندو لیڈران ان قراردادوں سے منحرف ہو گئے اور بھارتی آئین میں ترمیم کراکے مقبوضہ وادی کو باقاعدہ بھارتی ریاست کا درجہ دے دیا۔
کشمیر پر بھارتی قبضہ درحقیقت پاکستان کی شہ رگ پر قبضہ تھا جو پاکستان کو بھوکا پیاسا مار کر اسکی سالمیت پر شب خون مارنے کی نیت سے کیا گیا۔ بھارت کی یہی نیت آج بھی برقرار ہے چنانچہ وہ یو این قراردادوں کی روشنی میں مسئلہ کشمیر کا قابل قبول حل نکالنے کے بجائے اسے اٹوٹ انگ قرار دینے کی ہٹ دھرمی پر قائم ہے اور اب تک ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ کشمیری عوام بشمول خواتین اور بچے اس بھارتی ہٹ دھرمی کی بھینٹ چڑھ کر اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر چکے ہیں۔
اس تناظر میں کشمیر پر پاکستان کا شروع دن سے یہی اصولی مو¿قف ہے کہ کشمیری عوام کو استصواب کے ذریعے اپنے مستقبل کا خود تعین کرنے دیا جائے جبکہ بھارت پاکستان کے اس مو¿قف سے اس لئے بدکتا ہے کہ استصواب میں کشمیری عوام ہر صورت پاکستان کے ساتھ الحاق کا ہی فیصلہ کرینگے۔ یہ حقیقت بھی اپنی جگہ اٹل ہے کہ کشمیری عوام کی قربانیوں سے لبریز جدوجہد درحقیقت پاکستان کے وجود کی تکمیل کی جدوجہد ہے اور اس پس منظر میں کشمیری عوام کی جدوجہد کا دامے‘ درمے‘ سخنے بھرپور ساتھ دینا پاکستان کے عوام اور حکمرانوں کی بنیادی ذمہ داری ہے کیونکہ کشمیر کی آزادی درحقیقت دشمن کے خونیں پنجے سے پاکستان کی شہ رگ کی آزادی کے مترادف ہو گی۔ قیام پاکستان کے بعد قائداعظمؒ حیات رہتے تو پاکستان کی شہ رگ کشمیر کو اسی وقت دشمن کے خونیں پنچے سے آزاد کرالیا گیا ہوتا مگر انکی وفات کے بعد ہمارے خودغرض سیاست دان اپنے اپنے مفادات کے اسیر ہو گئے چنانچہ مسئلہ کشمیر بھارتی ہٹ دھرمی کے باعث پیچیدہ سے پیچیدہ ہوتا گیا اور پھر ہمارے حکمران کشمیر کی آزادی کے معاملہ میں مصلحتوں کا شکار بھی ہونے لگے۔ تاہم ذوالفقار علی بھٹو نے اقتدار میں آکر پاکستان کی بقاءکےلئے کشمیر کی اہمیت کو محسوس کیا اور کشمیر کی آزادی کیلئے بھارت کے ساتھ ہزار سال تک جنگ لڑنے کے عزم کا بھی اظہار کردیا۔ اسی تناظر میں انکے دور حکومت میں پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے کیلئے ایٹمی توانائی کے حصول کی ذمہ داری ڈاکٹر اے کیو خان کو سونپی گئی۔ انکے بعد جرنیلی آمر ضیاءالحق کے دور تک کشمیر پر پاکستان کا اصولی مو¿قف نہ صرف برقرار رہا بلکہ کشمیری عوام کی آزادی کی تحریک کا ساتھ بھی دیا جاتا رہا۔ تاہم جنرل مشرف کے دور سے کشمیر ایشو پر قلابازیاں کھانے کی ابتدا ہوئی‘ جنہوں نے نرم مزاجی کا مظاہرہ کرنے کی کوشش میںیکطرفہ کشمیر فارمولا پیش کرکے مقبوضہ وادی کی آزادی کے حوالے سے راہ نکالنے کی کوشش کی جو نہ یو این کی قراردادوں کے مطابق تھی اور نہ ہی بھارتی رہنماﺅں نے اسے کوئی خاص اہمیت دی۔
مشرف کی جرنیلی آمریت سے اب تک کی ہمارے حکمرانوں کی کشمیر کو نظرانداز کرنیوالی پالیسیوں کے باعث ہی پاکستان سے الحاق کی تمنا رکھنے والے کشمیری عوام اب پاکستان سے مایوسی کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں۔ سید علی گیلانی وزیر خارجہ حنا ربانی کو مراسلہ بھجوانے سے پہلے بھی متعدد مواقع پر ہمارے حکمرانوں کو احساس دلا چکے ہیں کہ کشمیر پر اپنے اصولی مو¿قف میں تبدیلی کرکے وہ پاکستان کی سلامتی کیلئے سخت نقصانات کا باعث بنیں گے اور اگر ہمارے حکمرانوں کی یہی پالیسی برقرار رہی تو کشمیری عوام اپنی جدوجہد آزادی کی کامیابی کی صورت میں پاکستان کے ساتھ الحاق والے جذبے کو برقرار نہیں رکھ سکیں گے۔ اس تناظر میں حکمرانوں کا کشمیر کے حل کے بغیر بھارت کے ساتھ دوستی کی پینگیں ڈالنا‘ کشمیریوں کی جدوجہد اور پاکستان سے کئے گئے عزم سے غداری ہو گی۔ یہی سید علی گیلانی ہمارے حکمرانوں کو باور کرا رہے ہیں اور اسی حوالے سے جماعت اسلامی آزاد جموں و کشمیر کے امیر عبدالرشید ترابی بھی یہ تجزیہ کرکے پاکستان کے مستقبل کے بارے میں اپنی فکرمندی کا اظہار کر رہے ہیں کہ حکومت پاکستان نے بھارت کو پسندیدہ قرار دے کر پسپائی میں مشرف کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔
اس وقت چونکہ کشمیری حریت لیڈروں کا ایک وفد میرواعظ عمر فاروق کی قیادت میں پاکستان کے دورے پر ہے جو بادی النظر میں مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے بھارتی حمایت یافتہ تجاویز لے کر آیا ہے اس لئے اس موقع پر ہمارے حکمرانوں کو حریت لیڈروں کے ذہنوں میں موجود غلط فہمیوں کو بھی دور کرنا چاہیے اور کشمیر کی آزادی سے متعلق پاکستان کے دیرینہ اصولی موقف پر ڈٹے رہنے کا پیغام بھی دینا چاہیے۔ اگر حکمرانوں نے کشمیرکاز سے دستبردار ہونے کا فیصلہ کرلیا ہے تو ملکی استحکام و سلامتی کے یکسر برعکس اس پالیسی کو کشمیری عوام قبول کرینگے‘ نہ پاکستان کے عوام پایہ¿ تکمیل کو پہنچنے دینگے۔