وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک نے دورہ بھارت کے دوران بھارتی حکام سے بلوچستان میں مداخلت اور اسلحہ کا مسئلہ بھی اٹھایا ہے جس کے بارے میں ثبوت بھی دیئے جائیں گے۔ بھارت سے فون کالز کے ذریعے بلوچستان میں اپنے ایجنٹوں کو دہشت گردی بارے ہدایات دی جاتی ہیں۔
سب سے پہلے تو یہ شکر کا مقام ہے کہ ہمارے وزیر داخلہ رحمن ملک نے بھارت میں بھارت کے خلاف بات کرنے کی ہمت تو کی ورنہ اب تک تو ہماری حکومت غیر ملکی مداخلت کے حوالے سے کھل کر بھارت کا نام لینے سے بھی گریزاں رہی ہے۔ بھارتی مداخلت پر تو بہت پہلے ہی سفارتی اور وزارتی سطح پر بھارت کے ساتھ بات ہونی چاہئے تھی۔ حکومت جب کہتی ہے کہ بلوچستان کی بدامنی میں غیر ملکی ہاتھ ملوث ہے تو یقیناًً عوام ان سے یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ اس نے غیر ملکی مداخلت کو روکنے کے سلسلے میں سفارتی‘ انتظامی اور عسکری سطح پر کیا اقدامات کئے ہیں؟ رحمن ملک کی بھارت یاترا کا کم از کم اتنا تو فائدہ ضرور ہوا ہے کہ بھارت کو اس کا چہرہ دکھانے کی کوشش کی گئی۔
سابق وزیراعظم یوسف رضاگیلانی کی طرح وزیراعظم راجہ پرویز اشرف بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ بلوچستان کی بدامنی میں غیر ملکی ہاتھ ملوث ہے۔ وزیر داخلہ سے لے کر وزیراعظم تک ہر کوئی بلوچستان کی بدامنی کی موجودہ صورتحال کی وجہ یہی بتاتا ہے کہ صوبے میں بھارتی مداخلت ہو رہی ہے۔ بھارتی وزیر خارجہ سوشیل کمار شنڈے نے بھی بڑے بڑھ چڑھ کر بیان دیا ہے کہ پاکستان بلوچستان میں بھارتی مداخلت کے ثبوت پیش کرے‘ ہم کارروائی کریں گے تو اس سلسلے میں عرض ہے کہ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ سے ایک ملاقات میں بلوچستان میں بھارتی مداخلت کا سوال اٹھایا تھا۔ انہوں نے بھی اس ضمن میں ثبوت مانگے تھے جو انہیں دے دیئے تھے تاہم من موہن سنگھ نے بھارتی میڈیا سے جھوٹ بولا کہ پاکستان کی طرف سے الزامات کی تائید میں کوئی ثبوت پیش نہیں کیاگیا۔
افغانستان میں قائم تربیتی کیمپوں میں بلوچیوں کوپاکستان سے بد ظن کر کے انہیں بھارتی مقاصد کےلئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ بھارتی حکومت غریب لوگوں کو مالی امداد دیکر انہیں ہندومت کی طرف راغب کر رہی ہے۔ اس مقصد کے حصول کےلئے افغانستان کے مختلف علاقوں میں سکول اور شفاخانے قائم کئے جا رہے ہیں جن میں ہندو سٹاف کے ذریعے مسلمانوں کو گمراہ کیا جا رہا ہے۔ کابل میں بھارتی سفارتخانے اور قندھار اور شمالی علاقوں میں بھارتی قونصل خانے سرگرمی سے مصروف عمل ہیں۔ بھارت نے اپنے سفارتخانے اور قونصل خانوں میں وسیع پیمانے پر ”را“ کے اہل کار تعینات کر دیے ہیں۔ کئی دہشت گرد گروپ بن گئے ہیں جن کو غیر ملکی ایجنسیاں اور باغی بلوچ سردار چلا رہے ہیں۔ صوبے میں مذہبی فرقہ واریت پیدا کی جا رہی ہے تاکہ امن و امان کے مسائل پیدا ہوں۔
ایک خطرناک بات جو رحمن ملک نے کہی کہ ہمیں بھولنا ہوگا کہ پاکستان اور بھارت دشمن ملک ہیں۔ جناب وزیر داخلہ صاحب عرض ہے کہ بھارت ہمارا ازلی دشمن ہے۔ اس نے ہمیں نیچا دکھانے کےلئے، ختم کرنے کےلئے، غیر مستحکم کرنے کےلئے کیا کیا اقدامات نہیں کئے؟ سب سے پہلے تو اس نے سازش کے ذریعے ہمیں دولخت کیا۔ ہمارا بازو توڑا۔ ہمیں صومالیہ کی طرح بنجر بنانے کےلئے ہمارا پانی روکا۔ ہمارے پرامن شہروں میں دہشت گردی کے ذریعے افراتفری پھیلائی۔ گزشتہ چند سالوں بلکہ سچ کہا جائے تو آپ ہی کے دور حکومت میں شہروںمیں ہونے والی دہشت گردی، بم دھماکوں اور خود کش حملوں میں کیا بھارت کے ملوث ہونے کے ثبوت نہیں ملے؟ کیا بلوچستان، کراچی اور وزیرستان میں بھارتی ایجنٹ نہیں پکڑے گئے۔؟ اگر یہ سچ ہے تو پھر آپ کس منہ سے کہہ رہے ہیں کہ بھارت ہمارا دشمن نہیں۔ وزیر داخلہ رحمان ملک نے بھارتی وزیراعظم کو صدر پاکستان آصف علی زرداری کی جانب سے دورہ پاکستان کی دعوت دی تاہم بھارتی وزیراعظم نے رحمان ملک کو دوٹوک الفاظ میں جواب دیا کہ وہ بھارت کے عوام کے سامنے جوابدہ ہیں جو ان سے پوچھتے ہیں کہ ممبئی کے حملہ آوروں کا کیا بنا؟
جہاں تک ممبئی حملوں میں پاکستانیوں کی شرکت کی بات ہے توحقیقت یہ ہے کہ ممبئی حملوں کے الزام میں بھارت میں گرفتار لشکر طیبہ کا رکن ابوجندل بھارتی خفیہ ایجنسی کا ایجنٹ ہے۔ ابوجندل بلاشبہ ایک جرائم پیشہ شخص ہے اور بھارتی خفیہ ادارے کا ایجنٹ ہے۔ یہ الزام نہیں بلکہ مجرم نے خود اعتراف کیا ہے۔ ابوجندل کے علاوہ ممبئی حملوں کے الزام میں مطلوب مزید ملزمان بھارتی شہری ہیں۔ ابوجندل پاکستانی شہری نہیں بلکہ جعلی پاکستانی پاسپورٹ اور شناختی کارڈ بنوا رکھا تھا۔ہمیں اس حوالے سے پریشانی ہے کہ یہ لوگ کیوں اور کیسے پاکستان گئے۔ پاکستان غیر ریاستی عناصر کی سرگرمیوں کے حوالے سے تحقیقات کر رہا ہے کہ سرحدوں پر دونوں ممالک کی سکیورٹی فورسز کی موجودگی کے باوجود یہ عناصر کیسے داخل ہوئے ہیں۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب منموہن ہماری اعلیٰ حکومتی قیادتوں کی بار بار کی دعوت کے باوجود پاکستان نہیں آنا چاہتے اور دورے کی ہر دعوت کو حالات سازگار نہ ہونے کا جواز بنا کر اور اسکے ساتھ ہی ممبئی حملوں کے مبینہ ملزموں کیخلاف کارروائی کی شرط لگا کر ٹھکرا رہے ہیں تو ہمارے حکمران انکے دورہ پاکستان پر کیوں م±صر ہیں۔ کیوں ان کی خوشامدیں کر رہے ہیں۔ کیا انکے دورہ پاکستان سے دودھ کی نہریں بہنا شروع ہوجائیں گی ؟ کیا ہمارے ہاں دہشت گردی بند ہو جائے گی۔ کیا مذاکرات کی میز پر انکی جانب سے کشمیر کی بھارتی تسلط سے آزادی کے اعلان کی توقع کی جاسکتی ہے؟ ہمارے حکمرانوں کو اپنی ، عوام کی اور پاکستان کی عزت کا خیال رکھتے ہوئے اپنے دشمن کے سامنے یوںنہیں جھکنا چاہیے کہ نہ چاہتے ہوئے بھی مجرم بن جائیں۔
بھارت کو بلوچستان میں مداخلت سے روکنا ہو گا!
Dec 18, 2012