ورلڈکپ کبڈی کے فائنل میں بھارت نے اپنی سرزمین پر پاکستان کو 22 کے مقابلے میں 59 پوائنٹ سے شکست دیکر ٹائٹل اپنے نام کر لیا۔ یہ تیسرا ورلڈکپ کبڈی تھا۔ جس کی میزبانی بھارت کر رہا تھا۔ فائنل میں کانٹے دار مقابلے کی توقع تھی۔ تاہم حسب معمول بھارت کے خلاف پاکستانی کھلاڑیوں نے غیر متوقع طور پر مایوس کن کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ایشیا کپ کے فاتح پاکستانی کھلاڑیوں نے ورلڈکپ کبڈی ٹورنامنٹ کے فائنل میں اپنی صلاحیتوں سے کم تر کھیل پیش کیا وگرنہ کوئی وجہ نہ تھی کہ پاکستان کی ٹیم اپنے بڑے مارجن سے ہارتی۔ پاکستان کے ”سائی“ اور ”جاپھی“ بے بس نظر آئے۔ نہ تو پکڑنے والے کام آسکے اور نہ ہی کبڈی ڈالنے والے توقعات پر پورا اتر سکے۔ وطن واپسی پر ٹیم کے کپتان مشرف جنجوعہ اور کوچ وحید بٹ نے منتظمین کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ کپتان اور کوچ کے مطابق بھارتی کھلاڑیوں نے اپنے جسم پر ”بام“ لگا رکھا تھا۔ جس سے انہیں پکڑنے میں مشکل پیش آتی رہی‘ بھارتی کھلاڑیوں پر پاکستان ٹیم کے کپتان اور کوچ کی طرف سے ممنوعہ ادویات کے استعمال کا الزام بھی سامنے آیا ہے۔ جبکہ میچ آفیشلز کے کردار کو بھی مشکوک قرار دیا گیا ہے۔ ایسے ہی خیالات کا اظہار پاکستان کبڈی فیڈریشن کے سیکرٹری محمد سرور نے نوائے وقت کے ساتھ گفتگو میں کیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ وہی بھارتی ٹیم تھی جس کے خلاف ہم نے لاہور میں ایشیا کپ کا فائنل جیتا تھا‘ میزبان ٹیم نے چند تبدیلیاں کی تھیں۔ بھارتی کھلاڑیوں نے ممکنہ طور پر ممنوعہ ادویات کا استعمال کر رکھا تھا۔ انہوں نے فائنل میچ کھیل کو اس کی اصل روح یعنی سپورٹس مین سپرٹ کے تحت نہیں کھیلا ایک سوال پر محمد سرور نے بتایا کہ وہ ناصرف پاکستان بلکہ ایشین کبڈی فیڈریشن کے بھی سیکرٹری ہیں۔ انہیں بھارت نے صرف اس لئے ویزہ نہیں دیا کہ وہ ہر محاذ پر اپنی ٹیم اور کھلاڑیوں کا دفاع کرتے ہیں۔ معروف پاکستانی کھلاڑی بابر گجر اپنی والدہ کی بیماری کے باعث ورلڈ کپ کبڈی ٹورنامنٹ میں شرکت نہ کر سکے۔ بابر گجر نے ٹرائلز میں بھی شرکت نہیں کی تھی ناہی وہ کیمپ میں شریک ہوئے ان سے کوئی رابطہ بھی نہیں ہو سکا‘ یہی وجہ تھی کہ بابر گجر کے نام پر غور نہیں کیا گیا‘ لالہ عبیداللہ دوسرے ہاف میں بمشکل ہی کبڈی ڈالتے نظر آئے اس سوال پر پاکستان کبڈی فیڈریشن کے سیکرٹری تسلی بخش جواب نہ دے سکے۔ تاہم انہوں نے یہ دعویٰ کیا کہ آئندہ سال فروری میں ہونے والے دوبئی کپ میں حقیقت کھل کر سامنے آجائے گی۔
پاکستان ٹیم کے کوچ اور کپتان اب شور مچا رہے ہیں کہ بھارتی کھلاڑیوں نے اپنے جسم پر ”پھسلن“ والی کوئی چیز لگا رکھی تھی اور ممنوعہ ادویات کا استعمال بھی کر رکھا تھا‘ یہ انہیں اس وقت نظر کیوں نہیں آیا جب وہ بھارت میں تھے‘ اگر ناانصافی کی جارہی تھی تو دوران میچ یا میچ سے پہلے ہی بھرپور احتجاج کیوں نہیں کیا۔ لاہور میں ایشیا کپ کے فائنل میں بھارت کی ٹیم ریفری کے فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے میدان چھوڑ کر چلی گئی تھی۔ ہمارے کھلاڑیوں اور انتظامیہ کی زبان بھارت کے خلاف میچ میں ”گنگ“ کیوں ہو گئی تھی۔ اب شور مچانے کا کیا فائدہ ہے۔ یکطرفہ مقابلے کے بعد وہ فائنل بھارت کو پلیٹ میں رکھ کر دے آئے ہیں۔ جس انداز میں کھلاڑیوں نے کھیل پیش کیا اور جس طرح نامور کھلاڑیوں کو نظرانداز اور فائنل میں استعمال کیا گیا اس طرز عمل نے شکوک و شبہات پیدا کئے ہیں۔ ماہرین کے نزدیک فائنل ”دوستی“ کی نذر ہوا ہے۔ چند ہفتوں میں نہ تو کوئی ٹیم اتنی بہتر ہوسکتی ہے اور نہ ہی کسی ٹیم کی کارکردگی اتنی ”ماٹھی“ ہو سکتی ہے کہ یکطرفہ مقابلہ دیکھنے کو ملے۔ جہاں تک ورلڈکپ کبڈی کی بات ہے تو شروع سے اب تک اس ٹورنامنٹ میں قوانین اور قواعد و ضوابط کے حوالے سے مسائل سامنے آتے رہے ہیں۔ گذشتہ سال ہونے والے ورلڈکپ کبڈی ٹورنامنٹ کے ابتدائی 10 روز میں 52 کھلاڑیوں کے ڈوپ ٹیسٹ مثبت آئے تھے۔ جس کے بعد ڈوپ ٹیسٹ کا سلسلہ بند کر دیا گیا۔ اس مرتبہ بھی ورلڈکپ کبڈی ٹورنامنٹ کے دوران ہی قوانین میں تبدیلیاں کی جاتی رہیں۔ جن پر دبے لفظوں میں احتجاج بھی سامنے آتا رہا۔ مزید یہ کہ ویزے بھی من پسند افراد اور کھلاڑیوں کو دئیے جاتے ہیں۔ بھارت عالمی مقابلے میں اپنی ٹیم کی فتح کے لئے تمام تر وسائل اور اثرورسوخ کا استعمال کرتا ہے۔ اس طرح وہ ایک عالمی اعزاز تو حاصل کر سکتا ہے۔ جس کا میزبان وہ خود ہے تاہم کھیل کی روح کو نقصان پہنچتا ہے۔ قوانین سب کے لئے یکساں ہونے چاہیں۔ پاکستانیوں کو بھی بروقت احتجاج اور ردعمل کا رویہ اپنانا ہو گا بے وقت راگ الاپنے کی کوئی ضرورت نہیں۔