چیف جسٹس افتخارمحمد چوہدری کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے ریکوڈیک کیس کی سماعت کی۔ دوران سماعت چیف جسٹس افتخارمحمد چوہدری نے ریمارکس دیئے کہ کوئی بھی معاہدہ ملکی خودمختاری کومدنظررکھ کرکیا جاتا ہے، ریکوڈک معاہدے میں وفاق پارٹی نہیں تھا، یہ بلوچستان ڈوپلمنٹ اتھارٹی کا معاملہ تھا، جس میں ایک گورنر نے معاہدے سے انکارکیا تومارشل لاء کے دوران اس کی اجازات دے دی گئی۔ بی ایچ پی کمپنی کے وکیل حفیظ پیرزادہ نے دلائل میں کہا کہ بی ایچ پی نے کامیابی سے سونے اورتانبے کی دریافت کی تھی جس کے بعد معاہدہ اسی کمپنی کوملنا چاہیے۔ حفیظ پیرزادہ نے مزید دلائل دئیے کہ بی ایچ پی کمپنی کوکوئی بھی خفیہ سہولت فراہم نہیں کی گئی، تمام سہولیات کے باقاعدہ نوٹی فیکشن بھی جاری ہوئے ہیں، جس پرچیف جسٹس افتخارمحمد چوہدری نے ریمارکس دیے کہ کیا دستاویزات کے مطابق صرف انہیں قوانین میں ترمیم کی گئی جوکمپنی کے لیے فائدہ مند تھے، عدالت فیصلہ بھی انہیں دستاویزکے مطابق دے گئی جو عدالت کوفراہم کیے گئے ہیں۔ حفیظ پیرزادہ نے دلائل مکمل کرتے ہوئے کہا کہ ریکوڈک معاہدہ بلوچستان کی عوام کے لیے فائدے مند ہے۔ جس کے بعد عدالت نے ٹیٹھیان کمپنی کے وکیل خالد انورکوکل دلائل شروع کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے مزید سماعت ملتوی کردی۔