عوام جلد ازجلد اپنے دیرینہ اور موجودہ مسائل کا حل اپنی مرضی اور خواہش سے چاہتے ہیں۔ اب عوام زبانی کلامی مٹھاس بھری باتوں سے ہر گز خوش نہ ہوں گے۔ وہ اچھے سے اچھے نتائج کی آس لگائے بیٹھے ہیں۔ لوگ روز گار حاصل کرنا چاہتے ہیں تاکہ وہ اپنے بچوں کی خوراک کی ضروریات کو پورا کر سکیں۔ اس بات کو بھی ذہن میں رکھا جائے کہ سرزمین پاکستان میں ان گنت مسائل کے ساتھ ساتھ ان گنت وسائل بھی موجود ہیں جن پر جلد از جلد کام کرنے سے لوگوں کے مطالبات کو یقینی طور پر پورا کیا جاسکتا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان میں کروڑوں ایکڑ بنجر زمین بیکار پڑی ہے، اس زمین کو ملک کے نادار اور مفلس لوگوں کو انتہائی واجبی قیمت پر فروخت کیا جاسکتا ہے، ایسے کاشتکاروں کو آسان شرائط پر سود کے بغیر قرضہ جات دیئے جاسکتے ہیں۔ اس فہرست میں شہروں میں بے روزگار لوگوں کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے۔ ایسے اقدامات سے عوام خوشحال ہوں گے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان کے کونے کونے میں درمیانے اور نچلے طبقات میں بامقصد تعلیم کو پھیلا دیاجائے۔ اس وقت قوم کے کروڑوں بچے گلی گلی کوچے کوچے میں آوارہ پھرتے نظر آتے ہیں، وقت کو کسی بھی قوم کے لئے ایک بہت بڑی ناختم ہونے والی دولت تصور کیا جاتا ہے۔ اس دولت کو جلد ازجلد حاصل کرنے کے لئے پاکستان میں لاکھوں فنی اداروں کے قیام کی ضرورت ہوگی۔ ایسے قوانین بنائے جائیں جن کے تحت قوم کا ہر بچہ حصول تعلیم کی خاطر درسگاہوں میں داخل ہوگا۔ اس عظیم قومی منصوبے کو پانچ سال کے اندر اندر ہی مکمل کرنا ہوگا۔ ہمارا پڑھا لکھا اور باشعور معاشرہ پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کر ڈالے گا۔ تعلیم کی بدولت ہی جاپان، کوریا، چین اور سنگا پور وغیرہ نے زندگی کے ہر میدان میں حیرت انگیز ترقی کی ہے۔ یقینی طور پر ہم بھی ان ممالک کی صف میں جلد ازجلد شامل ہو سکتے ہیں شرط صرف اور صرف یہ ہوگی کہ ہمارے حکمران اور سیاست دان دیانت دار ہوں۔ عوام نے موجودہ حکمرانوں کو اس امید پر ووٹ دے کر کامیاب کیا تھا کہ وہ پاکستان سے غربت، بے روزگاری اور جہالت جیسی بیماریوں کا علاج کریں گے مگر افسوس سے یہ بات کہنی پڑتی ہے کہ ہمارے سب حکمران سوئے پڑے ہیں۔ اللہ ہی جانتا ہے وہ کب بیدار ہوں گے۔ یہ بات بھی یاد رکھی جائے کہ ماضی میں ہمارے حکمرانوں کی نااہلی، سستی اور بددیانتی کی وجہ سے مارشل لاءلگتے آئے ہیں۔ لوگوں نے مجبوری کے تحت مارشل لاءلگانے والوں کا ساتھ دیا تھا۔ یہ بات بھی سچ ہے کہ جب بھی پاکستان میں غیرآئینی حکومت قائم ہوئی تو عوام نے کبھی بھی ایسی حکومت کی مخالفت نہ کی تھی۔ پاکستان میں ہر جگہ ایسے سیاست دان بھاری تعداد میں موجود ہیں جنہوں نے آمروں کا کھل کر ساتھ دیا تھا۔ وہ ہر قسم کے عہدوں پر خوشی خوشی براجمان ہوگئے تھے۔ وہ لوگ وزرائے اعلیٰ اور وزیراعظم کے عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں۔ خود موجود ہ حکمران بھی فوجی آمروں کا ساتھ دے چکے ہیں۔ اس حمام میں سب ننگے نظر آتے ہیں۔ سیاست دانوں اور حکمرانوں کے ان غیر آئینی اور غیر قانونی اقدامات سے جمہوری قدروں کو پامال کیا جا چکا ہے، اب وقت آگیا ہے ہم سب ماضی کو بھول جائیں اور وطن کی تعمیر کے کاموں میں ایمانداری سے لگ جائیں۔کیا ہمیں نظر نہیں آتا کہ ہماری جان اور ملک کے دشمن ہمارے ارد گرد بڑی تعداد میں موجود ہیں؟ کیا ہم 1971ءکے سانحہ کو بھول چکے ہیں؟ ہماری بے اتفاقی اور غفلت کی وجہ سے ہمارا دنیا کا تیسرا بڑا ملک ٹکڑوں میں تقسیم ہوگیا تھا۔ 1971ءکی خانہ جنگی کی طرح اب بھی باقی پاکستان میں پاکستانی قوم کے افراد ایک دوسرے کا قتل عام کرتے جا رہے ہیں۔ میری تجویز ہے کہ ہمارے حکمران ہر ماہ باقاعدہ تمام صوبوں کا دورہ کیا کریں۔ موقع پر ہی لوگوں کے مسائل کو حل کرنے کے لئے احکامات جاری کیا کریں۔ اسی طرح بھنور میں ہماری پھنسی ہوئی کشتی ساحل تک پہنچ سکے گی۔
کیا کبھی حکمرانوں نے اس بات کا انداز ہ لگای ہے کہ ”گوادر سے اسلام آباد“ کا سفر کتنا مشکل طویل اور مہنگا ہے؟ اس مسئلے کا صرف اور صرف حل یہ ہے کہ ہمارا وزیراعظم اور اس کے وزراءگوادر یا اس کے گرد و نواح سے فون پر شہریوں سے بات کرنے کے لئے تیار ہوجائیں۔ دوسرے الفاظ میں وزیراعظم کے ماتحت سرکاری افسران ایسے پاکستانی شہریوں سے فون پر بات کرنے کو تیار ہوں گے۔ ان افسران کو قانون کے تحت پابند اور مجبور کردیا جائے کہ وہ ہر حالت میں شہریوں کی شکایت کو سنیں گے۔ اس طرح دور دراز رہنے والے پاکستانیوں کے مسائل گھر بیٹھے بٹھائے حل ہوتے چلے جائیں گے۔ یہ بات بھی اپنی جگہ درست ہے کہ اس طرح کے کام کو سرانجام دینا ایک فرد کے بس میں نہ ہوگا۔ اس مسئلے کے حل کے لئے مزید غور وفکر لازمی درکار ہوگا۔ مطلب صاف ظاہر ہے کہ شہری کی ہر شکایت کو ہرحالت میں سنا جائے اور اس پر کارروائی کی جائے۔
موجودہ حکمران یاد رکھیں کہ اگر انہوں نے ملک میں شدت پسندی ، ڈاکہ زنی اور مہنگائی پر قابو نہ پایا تو مستقبل کے انتخابات میں لوگ موجود ہ حکمرانوں کو مکمل طور پر مسترد کر دیں گے۔ اس طرح وہ کوئی اور راستہ اختیار کریں گے۔ حکمران یہ بات بھی اچھی طرح ذہن نشین کر لیں کہ آئندہ قوم کبھی اور کسی صورت میں انتخابات میں کی جانے والی دھاندلیوں کو برداشت نہ کرے گی۔ ہمیں 1977ءکی قومی تحریک کو ہر وقت اپنے دماغوں میں قائم رکھنا ہوگا۔ یہ تحریک قومی انتخابات میں دھاندلی کے خلاف چلی تھی۔ یہ تحریک پاکستان کے ایک انتہائی زیرک اور محب وطن وزیراعظم کو پھانسی کے پھندے پر چڑھا کر ختم ہوئی تھی۔ یہ ایک ایسا واقعہ ہے جس کو پاکستانی قوم آج تک نہ بھول سکی ہے۔