مذاکرات کا آپشن مسترد‘ حکومت فوجی کارروائی کا منصوبہ بنا رہی ہے‘ ہم بھی تیار ہیں: ترجمان طالبان

Dec 18, 2013

دبئی + اسلام آباد (اے این این)کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان شاہد اللہ شاہدنے کہاہے حکومت کی جانب سے مذاکرات کی باتیں محض سیاسی نعرے ہیں، بات چیت آزاد لوگوں سے ہی ہوتی ہے مجبور لوگوں اور غلاموں سے نہیں، ہماری پالیسی سیاست پر نہیں شریعت پر مبنی ہے جو تبدیل نہیں ہو سکتی، طاقت کے ذریعے شریعت نافذ کرنے پر یقین نہیں رکھتے، ہماری جنگ مغربی سیکولرازم کے خلاف ہے، امریکی ڈرون حملوں میں پاکستان ملوث ہے، پاکستانی اور افغان طالبان ایک تھے اور ایک رہیں گے، سرحدوں پریقین نہیں رکھتے،تعلیم کے خلاف نہیں خواہ لڑکوں کی ہو یا لڑکیوں کی، شام میں ہمارے تقریباً 100 جنگجو لڑنے کیلئے گئے ہیں۔ خلیجی اخبار ’’گلف نیوز‘‘ کو انٹرویو میں شاہد اللہ شاہد نے کہا ہمیں امن کا درس دینے والے پہلے خود اپنے اوپر اسے لاگو کریں۔ انہوں نے کہا ملا فضل اللہ کے امیر بننے کے بعد تحریک طالبان کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ ہماری پالیسی سیاست پر نہیں بلکہ شریعت پر مبنی ہے اور یہ تبدیل نہیں ہو سکتی۔ حکیم اللہ محسود کی ڈرون حملے میں ہلاکت اور پاکستانی حکومت کے اس حملے کی مذمت نہ کرنے سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا ہم شروع سے ہی یہ جانتے ہیں مذاکرات آزاد لوگوں سے ہی ہوتے ہیں مجبورلوگوں اور غلاموں سے نہیں ہو سکتے لیکن ہم نے عوام کے لئے ایسا کیا کیونکہ لوگ اس بات کو پسند کرتے ہیں۔ ہم نے صرف لوگوں کے لئے اپنی پالیسی میں نرمی دکھائی اور لچک کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے کہا ہم پہلے دن سے ہی جانتے ہیں مذاکرات کی باتیں سیاسی نعرے ہیں۔ تنظیم سے وابستہ ہر کوئی ایک ہی زبان بولے گا ایسے لوگوں کے ساتھ مذاکرات کی کوئی ضرورت نہیں۔ یہ صرف کسی ایک حکومت کے اچھا یا برا ہونے کی بات نہیں۔ حکومت خواہ آصف علی زرد اری کی ہو یا نوازشریف کی ہم آزاد لوگوں سے ہی بات چیت کریں گے۔ نوازشریف کو آزادی حاصل نہیں تو ہم ان سے بات چیت نہیں کریں گے۔ طالبان ترجمان نے کہا ہم طاقت کے ذریعے شریعت نافذ کرنے پر یقین نہیں ر کھتے۔ ہماری جنگ تو مغربی سیکولرازم کے خلاف ہے جو نظام اور تعلیم ہم پر مسلط کی گئی ہماری لڑائی اس کے خلاف ہے۔ قبائلی علاقوں میں لڑائی ہم پر مسلط کی گئی۔ مغرب جب چاہتا ہے ہم سے لڑائی کی جاتی ہے پھر جنگ بندی کے لئے کہا جاتا ہے اور ہم پر حملہ کیا جاتا ہے تو پھر ہم ان کے لئے کیا کریں جو ہمارے گھروں کو تباہ کرتے ہیں۔ مسجدوں اور مدرسوں کو شہید کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا جب کوئی بم دھماکہ ہوتا ہے تو الزام ہم پر عائد کیا جاتا ہے صرف ایک رات ڈرون حملوں میں تین مسجدوں کو شہید کیا گیا۔ ایک گھر میں 16 افراد شہید ہوگئے جبکہ ایک گھر میں 25 افراد ڈرون حملے میں مارے گئے اور پھر الزام ہمیں دیا جاتا ہے۔ میڈیا اس بات کو تو اجاگر ہی نہیں کرتا ہم کس صورتحال سے دوچار ہیں اور کس طرح متاثر ہیں۔ شاہد اللہ شاہد نے کہا ہمارے پاس اس بات کے ثبوت ہیں ڈرون حملوں میں پاکستان امریکہ کے ساتھ ملوث ہے۔ پاکستان دہشت گردی کی جنگ میں صف اول کا اتحادی ہے اور اس کی مرضی سے ڈرون حملے ہوتے ہیں۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا افغان طالبان اور پاکستانی طالبان ایک ہیں اور ہمیشہ ایک رہیں گے۔ ہم سرحدوں کو تسلیم نہیں کرتے نہ ہی اس پر یقین رکھتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں یہ ہم پر مسلط کی گئی۔انہوں نے کہا ہم تعلیم کے خلاف نہیں خواہ وہ لڑکوں کی ہو یا لڑکیوں کی‘ نہ ہی ملا فضل اللہ یا ہم میں سے کوئی اور اس پر یقین رکھتا ہے۔ ہم نے لوگوں کو تعلیم حاصل کرنے سے کبھی نہیں روکا۔ ایسی باتیں نہ کی جائیں کہ ہم لوگوں کو تعلیم سے روک رہے ہیں۔ جب ملا فضل اللہ سوات میں تھے تو لڑکیوں کا کوئی سکول یا مدرسہ بند نہیں ہوا۔ یہ بات ثابت کرتی ہے ہمارے امیر لڑکیوں کی تعلیم کے لئے خلاف تھے نہ ہیں۔ انہوں نے کہا ہم سمجھتے ہیں سیکولر نظام اور سیکولر تعلیم نے مسلمانوں کے خیالات تبدیل کئے ہیں۔ انہوں نے کہا تعلیم نے مسلمانوں کے تعلقات اور نکتہ نظر کو مضبوط کرنے کے بجائے قوم پرستی کو فروغ دیا ہے۔ یہ سب سیکولر نظام اور ایسے سکولوں کی وجہ سے ہوا۔ یہ تعلیمی ادارے ہی ہوتے ہیں جو خیالات اورنکتہ نظر کو بدلتے ہیں ملا فضل اللہ واشنگٹن یا کابل میں سکول کھولیں تو کیا اوباما‘ نوازشریف اور کرزئی اپنے بچے وہاں داخل کرائیں گے‘ وہ ایسا نہیں کریں گے۔ اس کا مطلب یہ ہے اس تعلیمی نظام اور سکولوں کے خلاف جو ملا فضل اللہ نے کھولے ہیں۔ ہم سکولوں کے خلاف نہیں بلکہ ان سکولوں کے خلاف ہیں جو سکولرازم کی تعلیم دے رہے ہیں۔ اس سوال پر کہ شمالی وزیرستان میں آپریشن کیا جاتا ہے تو طالبان کی کیا حکمت اور ردعمل ہو گا؟ تو شاہد اللہ شاہد نے کہا شمالی وزیرستان کا کنٹرول حافظ غلام بہادر کی کمانڈ میں ہے اور انہوں نے مدد طلب کی تو مدد کی جائے گی۔ ہم جہاد کی راہ میں ہر مسلمان کی مدد کے لئے تیار ہیں اور جہاں تک اس بات کا تعلق ہے آپریشن کے ہم پر کیا اثرات مرتب ہوں گے تو ہمیں اس کی کوئی پروا نہیں کیونکہ ہم پہاڑوں میں رہنے کے عادی ہیں۔ اس موقع پر انہوں نے علامہ اقبال کا یہ شعر بھی پڑھا۔ ’’نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر… تو شاہین ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں پر‘‘ انہوں نے کہا یہ رپورٹس درست ہیں تحریک طالبان پاکستان کے جنگجو شام میں لڑنے گئے ہیں۔ ان کی تعداد تقریباً 100 ہے۔ مزید برآں حکومت کی طرف سے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے راستے کو ترجیح دینے کے اعلان کے چند ہی گھنٹے بعدکالعدم تحریک  طالبان نے مذاکرات کے آپشن کو مسترد کر تے ہوئے کہا ہے حکومت کے ساتھ مذاکرات  بے معنی ہیں، حکومت کو ہٹانے اور ملک میں شرعی نظام کے نفاذ کیلئے کارروائیاں جاری رکھی جائیں گی، ماضی کی طرح موجودہ حکومت بھی امریکی کٹھ پتلی، کمزور اور ڈالروں کی بھوکی ہے۔ برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق کالعدم تحریک  طالبان پاکستان کے نئے سخت گیر رہنما ملا فضل اللہ نے کہا حکومت سے امن مذاکرات بے معنی ہیں اور انہوں نے ایک بار پھر یہ دھمکی دی ہے وہ پاکستان کی حکومت کو ہٹانے اور ملک میں شرعی نظام نافذ کرنے کے لئے جدوجہد کے سلسلے میں اپنی کارروائیاں جاری رکھیں گے۔ تحریک طالبان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے کہا سابق حکومتوں کی طرح پاکستان کی موجود حکومت امریکہ کی کٹھ پتلی، ڈالر کی بھوکی اور کمزور ہے۔ شاہد اللہ شاہد نے رائٹرز کو بتایا انہیں علم ہے حکومت اندرون خانہ فوجی کارروائی کرنے کے منصوبے بنا رہی ہے مگر طالبان ان حملوں کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہیں۔ انہوں نے کہا حکومت خوشی سے فوجی کارروائی کرے ہم نے ماضی میں بھی فوجی آپریشنوں کا مقابلہ کیا اب بھی ان کا انتظار کر رہے ہیں۔ 

مزیدخبریں