اف میرے خدا یہ کیا دل فگار منظر ہے‘ جسے دیکھ کر زندگی اور روشنی دونوں اداس ہیں۔ چشم فلک حیراں ہے‘ ایسا کبھی دیکھا نہ سنا‘ کربل کی خاک سر اٹھا اٹھا کر دیکھ رہی ہے‘ آج علی اصغرؓ‘ عونؓ اور محمدؓ کا زخم تازہ ہوا ہے۔ میرے دیس کے سبھی بچے‘ پھول ‘ پرندے‘ تتلیاں اور بھنورے آنکھوں میں نم لئے اپنے نگہبانوں کی طرف دیکھ رہے ہیں ہر چہرے پر اداسی اور دل میں غم ہے۔ ہر سینہ فرط جذبات سے پھٹا جا رہا ہے۔گھروں میں بڑے خوف زدہ اور بچے سہمے ہوئے ہیں۔گلشن میں ہر طرف اداسی ہے‘ نونہالوں کے پھول سے چہرے حادثہ¿ وقت کی دھوپ سے جھلس گے ہیں۔ کوئی ویرانی سی ویرانی ہے کہ زندگی سہم کر دیوار سے لگ گئی ہے۔
تاریخ کے چہرے پر اپنی ذہنی کالک ملنے والوں نے 16 دسمبر کے بدقسمت دن کا انتخاب کیا وہ سقوط ڈھاکہ کے سانحہ کا اعادہ ہمارے بچوں کے خون سے کرنا چاہتے تھے۔ اس مقصد میں وہ اس حد تک کامیاب ہوئے کہ سانحہ¿ پشاور ہماری تاریخ کی پیشانی پر سقوط مشرقی پاکستان کا سب سے بڑا سانحہ کہلائے گا۔ ایجنٹ اپنے مذموم مقاصد کو تقویب پہنچا سکتے ہیں۔سانحہ¿ پشاور کوئی ایک دو دن کی پیداوار نہیں حادثہ ایک دم نہیں ہوتا۔ اس حد درجہ دلخراش واقعہ کو سطحی نگاہ سے دیکھنا مجرمانہ غفلت ہوگی۔ اس لئے اسے بڑے کینوس پر بڑے حقائق کی روشنی میں دیکھنا ناگزیر ہے۔ آپ کو ہر دوراہے پر ملت اسلامیہ کا قبلہ راست رکھنے کیلئے مصلح یعنی ریفارمنزکا راست کردار نظر آئے گا۔ دور نہ جائیں مجدد الف ثانیؒسے ہی شروع کریں تو شاہ ولی اﷲ اور پھر ایک تسلسل میں سرسید احمد خان‘ علامہ اقبالؒ اور حضرت قائد اعظمؒ تک سارے قطبی ستارے جگمگ نظر آئیں گے۔ اسلامیان برصغیر کے ان رہنما¶ں نے متفقہ طور پر ملت اسلامیہ کو جعلی مولوی اور جعلی پیر سے بچنے کی دردمندانہ تلقین کی۔ ان سب قطبی ستاروں کا کہنا تھا کہ اسلام اور اسلامیان برصغیر کو متذکرہ ہر دو منفی کرداروں سے کبھی خیر کی توقع نہیں کرنا چاہئے لہذا مسلمانوں کو انہیں اپنا پیشوا بنانے سے گریز کرنا ہوگا۔ سرسید احمد خان کو ہی لیجئے ان کا کہنا تھا کہ اسلام میں دین دنیا کے بغیر نہیں چل سکتا‘ اس لئے کہ اسلام دین فطرت ہے سرسید کا اپنے عہد کے مسلمان بچوں کو دنیاوی تعلیم دیتے ہوئے علی گڑھ کالج میں علامہ شبلی نعمانیؒ ایسے عالم دین کو اصرار کر کے لانا کوئی چھوٹی بات نہ تھی۔ دراصل سرسید دین اور دنیاکو ساتھ لے کر چلنے کے قائل تھے گہری نظر سے دیکھیں تو علامہ اقبالؒ اور قائد اعظمؒ سمیت تحریک پاکستان کی ساری لیڈر شپ سرسید احمد خان کے ویژن کی پیداوار تھی جنہوں نے کبھی اسلام کی حقانیت کو دین اور دنیا کی تفریق میں نہیں دیکھا۔ اقبالؒ نے تو بحیثیت مسلمان فرد اور جماعت کی تشکیل میں دین اور دنیا کے حسین امتزاج کو ملحوظ خاطر رکھا ہے انہوں یقین محکم ‘ عمل پیہم اور محبت فاتح عالم مسلمان کے اوصاف گنوائے ہیں۔ قیام پاکستان تک اور اس کے بعد کی تین دہائیوں میں مقاصد پاکستان کے ساتھ ایسے دینی پیشوا¶ں کی قربت نظر نہیں آئی جو سرسید‘ اقبالؒ اور قائد اعظمؒ کے افکار پر کاربند نہ ہو۔ اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ بعدازاں طالبان اور اس قبیل کے نام نہاد اسلامی جتھے کیسے وجود میں آ گئے ؟ بقول اقبالؒ یہ اس طرح ہوا کہ :
رسم اذاں رہ گئی روح بلالیؓ نہ رہی
فلسفہ رہ گیا تلقین غزالیؒ نہ رہی
دین اور دنیا کا حسین امتزاج قائم نہ رہ سکا جعلی اسلامی پیشوا¶ں نے نعوذ باﷲ اسلام کو ڈبے میں بند کر کے روحانی پاکیزگی اور اخلاقی جمالیات سے عاری کر دیا۔ عشق رسول کی دولت ہی میسر نہ رہی تو پھر تقلید رسول کہاں رہتی ؟ اتباع رسول نہ رہی تو پھر عورتوں اور بچوں کے ساتھ حسن سلوک کہاں سے آتا ؟ طالبان یک دم پیدا تو نہیں ہوئے ؟ ان کی اساس کہیں نہ کہیں پاکستانی قوم کی مجموعی دینی و اسلامی جبلت سے جڑی ہوئی ہے‘ جس میں محبت رسول اور اسوہ حسنہ پر چلنے کی حقیقی جستجو ناپید ہے۔ محبت رسول کی شمع ٹمٹماتی جا رہی ہے۔ طالبان کیا ہیں ؟ ڈنڈے کے زور پر اسلام کو منوانے کی کوشش میں غلطاں عاقبت نااندیش .... جن کی اساس بحرطور اسی قوم کے اجتماعی شعور سے بے ترتیب ہی سہی لاشعوری طور پر جڑی ہوئی تو ضرور ہے۔ اب بھی طالبان کو بے گناہ ثابت کرنے والے لوگ اس قوم میں موجود ہیں۔ یہ کیا ہے ؟ لاشعوری ‘ بے راہ روی۔ اگر یہ شعوری ہوتی تو ہم کب کے ڈوب کر سطح آب پر مردہ جانوروں کی طرح نمودار ہو چکے ہوتے۔ آج سانحہ¿ پشاور کے بعد پوری قوم کو بحیثیت مجموعی اپنا محاسبہ کر کے ایک جائزہ مرتب کرنے کی ضرورت ہے کہ آیا ہم مسلمان ہیں بھی یا نہیں ؟ پہلے نام کے مسلمان تھے اور اب یہ ”اعزاز“ بھی رخصت ہوا لیکن اس کے باوصف ایک خوبی ہے جو دوبارہ ہمیں اپنے پا¶ں پر کھڑا کر سکتی ہے۔ رسول کریم ﷺ سے محبت یہی خیر کا ایک پہلو پاکستانی قوم کے باطن کے ساتھ جڑا ہوا ہے‘ ورنہ روح اسلام کی روشنی دیکھیں تو کم از کم میں اپنے بارے میں شرمندگی اور شرمساری کے جذبات میں ڈوب کر کہتا ہوں کہ:
میرا حسینؓ ابھی کربلا نہیں پہنچا
میں حر ہوں اور ابھی لشکر یزید میں ہوں
آخر میں ایس ایم ایس پر موصولہ ایک نثری نظم پشاور کے پیارے پیارے دلیر بچوں اور ان کی بلند حوصلہ ما¶ں کے لئے آنسو¶ں کی جھڑی کیساتھ :
یونیفارم پہ سیاہی لگ گئی ہے ماں ڈانٹنا مت
یونیفارم لال ہو گیا ہے ماںرونا مت