میں لکھنا چاہتا ہوں کہ” صبر کریں“مگر کیسے لکھوں ؟

Dec 18, 2014

سید سردار احمد پیرزادہ

میں لکھنا چاہتا ہوں کہ ”صبر کریں“ مگر کیسے لکھوں؟ ابھی تو ان کی ماﺅں کی نا ک میں ان کی بچپن کی گیلی”نے پیوں “کی خوشبو بھی کم نہیں ہوئی ہو گی۔ ابھی تو ان کے باپ گودی اٹھا کر ان کے بال کٹوانے کا منظر بھی نہیں بھولے ہوں گے۔ ابھی تو بہن بھائیوں سے ان کے نٹ کھٹ جھگڑے شروع بھی نہیں ہوئے ہوں گے۔ ابھی توانہوں نے اپنے باپوں کے جوتوں میں چھوٹے پاﺅں ڈال کر اپنے آپ کو بڑا ثابت کرنے کی معصوم حرکت بھی نہیں کی ہو گی۔ ابھی تو وہ چوری چھپے موٹر سائیکل یاگاڑی چلاتے ہو ں گے کیونکہ ابھی توان کی ڈرائیونگ لائسنس لینے کی عمر بھی نہیںآئی ہو گی۔ ابھی تو انہوںنے جوانی چڑھتے بیٹوں کی روایت پرعمل کرتے ہوئے اپنی ماﺅںسے اپنے باپوں کی ڈانٹ کی شکایت بھی نہیںکی ہو گی۔ ابھی تو انہیں آئے زیادہ سے زیادہ پندر ہ سولہ برس ہی گزرے تھے اتنے کم عرصے میں دنیا تو ایک طرف وہ اپنا شہر بھی پوری طرح گھوم پھر نہ سکے ہوں گے۔ ابھی تو وہ سارے رشتہ داروں سے شناسا بھی نہیں ہو ںگے۔ ابھی تو اُن کے ماں باپ انہیں اکیلا باہر نکلنے سے بھی منع کرتے ہوں گے ۔ابھی توان کے باپوں نے اپنے سینے پُھلا کر ےہ کہنا بھی شروع نہیں کےا ہوگا کہ ہمارے بیٹے انجینئر، ڈاکٹر، آرمی افسر، وکیل، سائنسدان، صحافی، پروفیسر، بزنس مین وغیرہ بن رہے ہیں۔ میں لکھنا چاہتا ہوں کہ ”صبر کریں“ مگر کیسے لکھوں؟ اُس دن صبح بہت سوں کی آنکھ دیر سے کھلی ہو گی وہ جلدی جلدی سکول جانے کے لئے تیار ہوئے ہوں گے اور ناشتہ بھی نہیں کےا ہو گا۔ ماﺅں نے اُن کو ڈانٹا ہو گا مگر دل میں ان کی سلامتی کی دعا کی ہو گی۔ اُن ماﺅں کو کےا معلوم تھا کہ جو دعائیں ےہاں قبول نہیں ہوتیں ان کا صلہ اگلے جہان ملتا ہے انہی میں سے اُن کی ماﺅں کی ےہ اےک دعا تھی۔اس دن صبح ان کے جانے کے بعد ماسیاں ان کے کمروں کی صفائی کر رہی ہوں گی اور ان کے بستروں کی چادریں صحیح کر رہی ہوں گی کہ اچانک گھر میں چیخوں کی آواز بلند ہوئی ہو گی۔اس دن صبح اُن کے باپوں نے اپنے اپنے کام شروع ہی کئے ہوں گے کہ موبائل فون کی اےک منحو س گھنٹی نے انہیں زندہ لاش میں تبدیل کر دےا ہوگا۔ وہ پاگلوں کی طرح اپنے بیٹوں کے سکول کی طرف بھاگے ہوں گے۔ اس دن صبح ان میں سے بہت سوں نے اپنے کمپیوٹر پر پاس ورڈ لگا دےا ہوگا تا کہ ان کے پیچھے ان کے بہن بھائی کمپیوٹر نہ کھولیں۔ اب وہ پاس ورڈ کون کھولے گا۔ اُس دن صبح ان میں سے بہت سوںکے بہن بھائیوں نے پروگرام بنایا ہو گا کہ جب ان کا بھائی سکول سے واپس آ جائے گا تو وہ کمپیوٹر گیم کھیلیں گے۔ اب ان کے بہن بھائی کس سے کھیلیں گے۔ میں لکھنا چاہتا ہوں کہ” صبر کریں“مگر کیسے لکھوں؟ دنیا میں خون خوار جانور بھی دوسروں کے بچوں کو تو نقصان پہنچاتے ہیں مگر اپنی نسل کے بچوں کی حفاظت کرتے ہےں ۔یہ کون سے درندے ہیں جنہوں نے اپنی ہی نسل کے بچوں کا خون پی لےا۔ وہ سیاست دان کس کی نمائندگی کر رہے ہیں جو اب بھی کھل کر ظالموں کا نام نہیں لیتے۔ وہ نامراد عوامی نمائندے جو اپنے مفاد کو حاصل کرنے کے لئے ملک میں سیاسی افرا تفری پھیلا کر کامیابی کا نعرہ لگاتے ہیں اور مروڑ توڑکر سیاسی بیان دیتے ہیں اُنہیں اب تو لرز جانا چاہئے۔ وہ صحافی جو اپنی زبان، گفتگو اور قلم کو گھما پھرا کر بد بخت خونیوں پر پردہ ڈال رہے ہیں انہیں اپنی اولاد یاد رکھنی چاہئے۔ وہ گھٹیا نام نہاد دانشور جو الفاظ کی ہیرا پھیری کر کے گھر کے اندر موجود سانپوں کو کمبلوں میں چھپا رہے ہیں انہیں اچھی طرح پتہ ہے کہ سانپ اپنے بچے کھا سکتا ہے تو انہیں کیسے چھوڑے گا۔ انسانوں کی اس دنےا میں جانوروں کے کمسن بچوں کو مارنے اور ذبح کرنے کو پسند نہیں کےا جاتامگر ہائے !ےہ تو انسانوں کے اپنے کمسن بچے تھے۔ انہیں کیسے مارا گیا کیسے ذبح کےا گےا۔میں لکھنا چاہتا ہوں کہ ”صبر کریں“ مگر کیسے لکھوں؟ ظالم خونیو! اگر تم اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہو تو اللہ رسول کے لیے بتاﺅ۔ اگر کافر ہو تو اپنے بتوں کی قسم کھا کر بتاﺅ۔ اگر تم کسی نظرئیے پر یقین نہیں رکھتے تو اپنی ماں کے واسطے بتاﺅ تمہیں ان معصوموں نے کےا نقصان پہنچاےا تھا۔ تمہارا اختلاف اگر ان کے باپوںسے تھا تو اولاد سے بدلہ لینا کس مذہب کس نظریے میں جائز ہے۔ اگر تم حکومتی پالیسیوں کو بدلنا چاہتے تھے تو ان بچوں کی زندگیوں کو موت میں کیوں بدل دےا۔ ان کے مرنے سے سینکڑوں گھر تو ضرور آنسو بن گئے مگر تمہاری خواہشیںپوری نہیں ہو ں گی۔ شیکسپیئر نے صدیوں پہلے ” ہیملٹ “ ڈراما لکھا۔ جس میںجواں سال بیٹے کے مرنے کے خونی منظر کو پڑھ کر آج بھی لوگوں کی سسکیاں خون آلود ہوتی ہیں۔ وہ تو ایک بیٹا تھا اور ڈرامے کا کردار تھا۔ ےہ تو جیتے جاگتے بیٹے تھے زندگی کا حصہ تھے۔ اےک ہی دن میں اےک نہیں ایک سو بتیس سے زیادہ کا خون زمین پربہا دےا گےا۔ نہ جانے ان کی چیخیں صدیوں کے کتنے صفحات تک بکھری رہیں گی۔ میں تجزیہ لکھنا چاہتا ہو ں کالم لکھنا چاہتا ہوں لےکن کیسے لکھوں میرے ہر طرف معصوموںکا خون بکھرا پڑا ہے۔ میں لکھنا چاہتا ہوں کہ ”صبر کریں“ مگر کیسے لکھوں؟ سکول کی وہ خاتون پرنسپل جس نے اپنے سٹوڈنٹس کی حفاظت کے عوض اپنے سینے پر گولیاں کھا لیں اسے ہمیشہ انسانیت سلیوٹ کرے گی۔ اس خاتون پرنسپل کو ہسٹری جھک جھک کر سلام کرے گی۔ وہ خاتون پرنسپل اپنے شہید سٹوڈنٹس کے ساتھ جنت میں بیٹھ کرظالم خونیوں کو جہنم میں جلتا دیکھے گی۔ شہید ہونے والے بچوں کے ماں باپ کو میں دل و جان سے قوم کی محبتیں پیش کرتا ہوں۔ ہم اُس نبی پا ک کی امت میں سے ہیں جن کی پیاری بیٹی کے بیٹوں کو ذبح کر دےا گیا۔ رسولِ پاک کے نواسوں کے معصوم پیاسے شہزادے کی گردن میں تیر پیوست کر دےا گیا۔ ہم اس اُمت میں سے ہیںجہاں شہادت بھاگ بھاگ کر لینے کی آرزو ہوتی ہے۔ آپ بھی شہداءکے ماں باپ ہیں بہن بھائی ہیں ۔میں لکھنا چاہتا ہوں کہ ”صبر کریں“ مگر کیسے لکھوںکیونکہ میں اےک باپ ہوں، میں اےک ماں ہوں، میں اےک بہن ہوں اور میں اےک بھائی ہوں۔

مزیدخبریں