رئیس الاحرار چوہدری غلام عباس ہمہ گیر شخصیت کے مالک تھے۔ زندگی بھر برداشت ، درگزر مساوات کے اصولوں پر کار بند رہے۔ قوم کو مسلسل نظریہ کی وابستگی کا درس دیا وہ پاکستان میں قائد اعظم کے با اعتماد ساتھیوں میں تھے۔ آپکی شخصیت کشمیر کے لئے باعث فخر ہے۔ ہماری خوش نصیبی ہے کہ ان جیسا انتہائی دین دار ، محب الوطن کشمیر اور پاکستان سے محبت کرنے والا جموں کشمیر کی دھرتی میں پیدا ہوا۔
پکے توحید پرست ، سچے عاشق رسول تھے جنہوں نے اپنی جوانی کے ابتدائی دنوں سے ہی برصغیر کے مسلمانوں بالخصوص کشمیریوں کو انگریزوں اور ڈوگروں کے ظلم و ستم سے نجات دلانے کے لئے کار ہائے نمایاں انجام دیئے۔ انہوں نے انتہائی مشکل وقت میں کشمیری مسلمانوں کی سرپرستی و رہنمائی کا بیڑا اٹھایا ۔ ریاست جموں و کشمیر کے عوام کے تشخص ووقار کو بلند کیا مسئلہ کشمیر کو قومی مسئلے کی حیثیت سے زندہ رکھنے میں کامیاب ہوئے۔
قید و بند کی مشکلات ڈوگرہ مہاراجہ کے ریاستی جبر سے بڑے بڑے لیڈروں کے قدم ڈگمگائے اور وہ حق صداقت کے راستے سے بھٹک گئے۔ لیکن آفرین، چوہدری غلام عباس چٹان کی طرح اپنے موقف پر قائم رہے۔ صبر و رضاء ، ہمت و استقلال آخری لمحہ تک قائم رہا۔ تاریخ میں ان جیسے اجلے دامن اور درد مند دل والے رہنماء کم ہی ملتے ہیں۔ انہوں نے اپنی زندگی کو اپنی آخرت کے لئے سرمایہ بنایا۔
آپ 1904ء میں جموں کے متوسط طبقے میں پیدا ہوئے۔ میٹرک تک تعلیم جموں میں حاصل کی۔ بعد ازاں پنجاب یونیورسٹی سے گریجوایشن کیا پھر 1929ء میں قانون کی ڈگری حاصل کی۔ آپ کو اس کی کامیابی کی خبر جیل میں ملی۔ جولائی 1931 ء میں ڈوگرہ حکومت کے خلاف توہین قرآن کے واقعہ کے خلاف تحریک چلی جس میں 22 مسلمانوں نے جام شہادت نوش کیا۔ اس احتجاج کے دوران چوہدری غلام عباس، گوہر رحمان ، مستری یعقوب ، شیخ عبداللہ ، غلام نبی گلگار ، مولوی عبدالرحیم کو بھی گرفتار کر لیا گیا۔ 13 جولائی 1931ء کا واقعہ تحریک آزادی کشمیر میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔
اکتوبر 1932ء میں آل جموں کشمیر مسلم کانفرنس کی بنیاد رکھی گئی۔ شیخ عبداللہ کو صدر اور رئیس لااحرار چوہدری غلام عباس کو جنرل سیکرٹری منتخب کیا گیا۔ اس موقع پر کشمیری قوم کے بڑے اجتماع نے آپ کی بے لوث قیادت ، جرات ، بہادری اور بیباکی پر رئیس لا حرار کا خطاب دیا۔ بعد ازاں جب شیخ عبداللہ اپنا سیاسی توازن برقرار نہ رکھ سکے تو چال بازی کر کے مسلم کانفرنس کا نام تبدیل کر کے نیشنل کانفرنس کا قیام عمل میں لے آئے۔ لیکن چوہدری غلام عباس نے ان سے اتفاق نہ کیا۔ آپ نے ایک بار پھر آل جموں کشمیر مسلم کانفرنس کی قیادت سنبھالی۔ آپ نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ ڈوگرہ حکومت ، نیشنل کانفرنس اور کانگریس کا مقابلہ کیا کیونکہ شیخ عبداللہ کی پشت پر ان سب لوگوں کے اختیار اور سرمایہ تھا لیکن چوہدری غلام عباس کا اثاثہ، خلوص، دیانت اور عوام کی تائید اور حمایت تھی۔ آپ نے قائد اعظم سے رہنمائی و تائید لے کر ریاستی سیاست کو تحریک پاکستان کے خطوط سے استوارا۔ قائد اعظم نے 1942ء میں دورہ کشمیر کے دوران مسلم کانفرنس اور نیشنل کانفرنس کے اختلاف ختم کرانے کی کوششیں کیں۔ لیکن شیخ عبداللہ اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہے۔
اس موقع پر "قائد اعظم نے فرمایا میں چوہدری غلام عباس اور مسلمانان ریاست کو یقین دلاتا ہوں کہ مسلم لیگ اور ہندوستان کے مسلمانوں کی خدمات ان کے قدموں میں ہیں" قائد اعظم نے چوہدری غلام عباس کی شخصیت کے بارے میں کہا کہ میں نے ڈھائی ماہ کشمیر قیام کے دوران انفرادی اور وفود میں ہزاروں لوگ جو مجھے ملنے آئے ہر ایک سے سوال کرتا تھا کہ آپ کی غلام عباس کے بارے میں کیا رائے ہے۔ مجھے دلی خوشی ہوئی کہ تمام ملنے والوں میں کوئی فرد بھی ایسا نہ تھا جس نے سیاسی اور ذاتی حیثیت میں چوہدری غلام عباس کی تعریف نہ کی ہو۔ حتی کہ شیخ عبداللہ اور ان کے ساتھی سب سے زیادہ ان کے مداح تھے۔ آل جموں کشمیر کا دوبارہ احیاء ہوا تو مسلم کانفرنس میں پہلے جیسی طاقت نہ رہی تو قائد اعظم نے جموں کشمیر میں مسلم لیگ کی اپنی شاخ کو آل جموں کشمیر مسلم کانفرنس میں ضم کر دیا۔ اور قائد اعظم نے قرار دیا کہ ہندوستان میں مسلم لیگ اور جموں کشمیر میں مسلم کانفرنس مسلم لیگ کا متبادل ہے۔
1948ء کو چوہدری غلام عباس رہا ہو کر پاکستان آئے تو قائد اعظم نے خود انکا پرتباک استقبال کیا اور آپ سے گفتگو کے دوران "قائد اعظم نے بار بار فرمایا کہ غلام عباس تم جانتے ہو کہ میں جذباتی نہیں لیکن آج تمہیں دیکھ کر مجھ سے زیادہ خوش کوئی نہیںہے"۔ قائد اعظم نے بطور گورنر جنرل پاکستان آپ کو رفیوجی سنٹرل ریلیف کمیٹی کا چیئرمین مقرر کیا اور تمام صوبوں کے وزیر اعلیٰ اس کمیٹی کے رکن تھے۔ پاکستان مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی کے اجلاسوں میں آپ کو مدعو کیا جاتا تھا۔ قائد اعظم علیحدگی میں ان سے مشورہ کرتے تھے۔ یہ ایک منفرد انداز تھا۔ قائداعظم نے اپنی قوم کی قیادت کے لئے جن دو اشخاص کو اپنا جانشین نامزد کیا ان میں ایک نواب بہادر یار جنگ اور دوسرے رئیس احرار چوہدری غلام عباس تھے۔ قائد اعظم نے فرمایا کہ خوش قسمت ہے کشمیری قوم جس کو چوہدری غلام عباس جیسا رہنماء میسر آیا۔
قائد اعظم کی وفات کے بعد چوہدری غلام عباس پاکستان کے حکمرانوں سے بہت مایوس تھے۔ 27 جون 1958ء کو حکومت پاکستان کی پالیسیوں سے تنگ آ کر آل جموں کشمیر مسلم کانفرنس کے زیر اہتمام بہت بڑی تعداد میں کارکنوں کو لے کر حد متارکہ جنگ کو عبور کرنے کی کوشش کی اور گرفتار کر لیے گئے۔ لیکن اس جدوجہد سے مقبوضہ کشمیر میں تحریک حریت میں زندگی کی نئی لہر دوڑ گئی۔
1964ء میں پاکستان کے صدارتی انتخاب میں صدر ایوب کے مخالف مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کا بھر پور ساتھ دیا۔ ان کی حمایت میں اپنے خون سے لکھ کر تحریر پیش کی۔ چوہدری غلام عباس کینسر کے موذی مرض میں مبتلا تھے۔ انہوں نے اپنی زندگی میں " مجاہد اول سردار محمد عبدالقیوم خان سے کہا کہ آل جموں کشمیر مسلم کانفرنس آپ کے حوالے اور آپ اللہ تعالیٰ کے حوالے"۔ مجاہد اول نے اپنی زندگی میں یہ کردار خوب نبھایا۔ پاکستان اور کشمیر کے درمیان رشتہ کمزور نہیں ہونے دیا اور آل جموں کشمیر مسلم کانفرنس کو بکھرنے نہیں دیا۔
آل جموں کشمیر مسلم کانفرنس کے موجودہ صدر فرزند کشمیر سردار عتیق احمد خان ہیں۔ اپنے اور بیگانوں کی سازشوں سے مسلم کانفرنس کو کمزور کرنے کی پوری کوشش کی گئی لیکن آج بھی مسلم کانفرنس ریاست کشمیر کی بڑی جماعت ہے اور تاریخی تناظر میں اس کے کردار کو کسی طرح فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ چند دن قبل 83 سالہ تاریخ ساز کنونشن مظفر آباد میں منعقد ہوا۔ جس میں سردار عتیق احمد خان کو پانچویں بار صدر چنا گیا۔ آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کے چوہدری غلام عباس سردار عبدالقیوم خان ، سردار سکندر حیات خان ، سردار محمد ابراہیم خان ، راجا حیدر خان بھی صدر رہ چکے ہیں۔
بلا شبہ مظفر آباد کی تاریخ میں آل جموں کشمیر مسلم کانفرنس کا یہ کنونشن عظیم اجتماع تھا جو کہ پاکستان آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر کے لئے خوبصورت پیغام تھا۔ رئیس احرار چوہدری غلام عباس کی ذاتی جماعتی، سیاسی، اخلاقی و روحانی زندگی کے کئی گوشے ہیں جن پر بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے۔ چوہدری غلام عباس 18دسمبر 1967ء کو انتقال کر گئے۔ ان کی وصیت کے مطابق فیض آباد راولپنڈی میں ان کو سپرد خاک کیا گیا۔