”پنجاب یو نیورسٹی۔قومی امنگو ں کا آئینہ “

پاکستان کے تمام تعلیمی اور ادبی اداروں میں یو نیورسٹی آف دی پنجاب سب سے بڑی اور تاریخی لحا ظ سے قدیم تر جامعہ ہونے کے ناطے ایک خصو صی مقام رکھتے ہوئے نہ صرف پورے ملک بلکہ جنوبی ایشیا میں ایک خصو صی باعزت مقام کی حامل ہے 14اگست1947ءکے مبارک روز جب پاکستان کا معجزہ رونما ہو اتو پورے ملک میں اُس وقت پنجاب یونیورسٹی کو واحد جامعہ ہونے کا اعزاز حاصل تھا ۔ اُس دن سے لیکر آج تک اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اب ایک سو سے زیادہ معتبر اور ہر لحا ظ سے قابلِ تعریف یو نیورسٹیاں مملکت کے مختلف حصوں میں ہر شعبہ حیات سے متعلقہ علمو و فنون کو فروغ دینے میں ملک میں اندھیروں کو دور کرنے اور علم کی روشنی سے مملکت کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے میں مصروف ہیں۔
گزشتہ جنگ عظیم کے بعد پاکستان کے قیام کے ساتھ ہی مغربی دنیا کی ترقی کا راز سائنس و ٹیکنالوجی میں اُن کی حیرت انگیز کامیابیوں میں مضمر ہے جس کو دیکھ کر مشرق میں ایشیا کے مختلف ممالک نے بھی تعلیمی سرگرمیوں کو ایک ایسا شعار بنا دیا ہے جس کو اگر جنگی سطح کی جدوجہد کہاجائے تو غلط نہ ہو گا چنانچہ 1950ءکے بعد سے لے کر آج تک مختلف مشرقی ممالک تعلیمی جامعا ت اپنی ما ضی کی کارکردگی سے کئی گنا بہتر نتیجے دنیا کے سامنے پیش کر کے عالمی شہرت کی جامعہ کا رتبہ حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کر چکی ہیں۔ چنانچہ راقم کو یہ کہنے میں فخر محسو س ہوتا ہے کہ اِن ترقی یافتہ یونیوسٹیوں میں پنجاب یونیورسٹی کا نام اب عالمی سطح پر نہایت عزت سے لیا جا تا ہے۔ جسکی بڑی وجہ پاکستان کی قیادت میں اس احساس کے اُجا گر ہونے میںبڑا عمل دخل ہے کہ پاکستان کی تعمیر وترقی سو فیصد خواندگی کے حصول اور اعلی سطح پر زیادہ سے زیادہ ریسرچ اور ڈویلپمنٹ کو اولین ترجیح دیئے بغیر نوجوان نسل کاشعور بیدار ہو کر ملکی تعمیر و ترقی اور ڈویلپمنٹ کے ہد ف حا صل نہیں کرسکتا ۔چنانچہ گزشتہ انتخابات میں کامیابی کے بعد جب میاں محمد نواز شریف نے تیسری بار وزارتِ عظمی کا عہدہ سنبھالا تو اپنے 2025کے نئے Visionکو عملی جامعہ پہنانے میں اُنہوں نے شعبہ تعلیم اور خاص طور پر سائنس اور ٹیکنالوجی کے ہر شعبہ میں خصو صی توجہ کو اپنی اولین ترجیح دی ہے اور نوجوان نسل کی پاکستان کی فلا ح و بہبود اور تر قیا تی منصو بوں میں نئی نسل کے شعور کو خصو صی اہمیت دینے کے کئی عملی منصو بے شروع کیے ہیں جن میں پنجاب یو نیورسٹی نہا یت سر گرمی سے حصہ لے رہی ہے ۔کہتے ہیں کہ اصل جادو وہ ہوتا ہے جو سر چڑھ کر بولے اس کا عملی ثبوت جامع پنجاب کی قیادت کا نمایاں کردار دیکھ کر حیر ت ہوتی ہے کہ اگر کسی ہدف کو حاصل کر نے کیلئے عزم مضبوط ہو تو مشکل سے مشکل کام بھی تھوڑے سے وقت میں حیر ت انگیز نتائج حاصل کر سکتاہیں۔ جس کا مشاہدہ میں نے ذاتی طور پر آج 17دسمبر بروز جمعرات اپنی آنکھوں سے کیا ہے جو پوری طرح الفاظ میں بیان نہیں ہو سکتا ۔
وطن عزیز کو اپنے یوم پیدائش سے ہی طرح طرح کے چیلنج در پیش ہیں اُن میں سب سے بڑا چیلنج مسئلہ کشمیر کا منصفانہ حل ہے ۔دوسرا بڑا زخم 1971ءمیں پاکستان کا دولخت ہوجانا ہے سقوطہ ڈھاکہ کیونکر ہوا اس کے پیچھے کس کس کی کیا کیا سازش تھی یہ رازپوری طرح ابھی تک فاش نہیں ہوئے لیکن پاکستان کے بعض دشمن مندرجہ بالا دونوںپاکستان مخالف سازشوں میں برابر کے شریک ہیں اس پر تیسری سازش دہشتگردی کی صورت میں پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لے کر ملکی سالمیت کو خطرات سے دو چار کرنا تھا اس کا ایک خوفنا ک پہلو 16دسمبر 2014کے روز آرمی پبلک سکو ل پشاور پر قیامت برپا کر نے کی صورت میں رونما ہوا تھا۔ چنانچہ دسمبر کا مہینہ شروع ہو تے ہی پوری قوم ان تاریخی واقعات کی یاد کو تازہ کر نے اور اِن سے سبق حاصل کرنے کی کو شش میں مختلف صورتوں میں قوم کے شعور کو بیدار کر نے کی کو شش کرتی ہے تاکہ پاکستان کی سلامتی پر ایسے خطرناک حملے دوبارہ نہ ہو پائیں ۔ ملک کے مختلف حصوں میں گزشتہ دو تین روز سے ان موضوعات پر مختلف تقریبات اور سیمینار منعقد ہو رہے ہیں لیکن جس انداز میں وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر مجا ہد کامران نے 17دسمبر ایک ہی دن میں پنجاب یو نیورسٹی کے اندر ان تینوں قومی مو ضوعات پر تین نہایت اونچے درجے کے اعلیٰ ترین تحقیقاتی سیمینارز منعقد کروانے کا اہتمام کیا اُسکی مثال نہیں ملتی اور قوم کے چوٹی کے متعلقہ شعبوں کے نمائندوں نے جس جوش و جذبہ کے ساتھ ان مختلف سیمیناز میں سقوط ڈھاکہ سانحہ آرمی پبلک سکول پشاور اور مسئلہ کشمیر کے مستقبل کے بارے میں انتہائی پرُ ہجوم سیمیناز کو خطاب کیا وہ دیدنی تھا صبح 9:30 یو نیورسٹی کے فیصل آڈیٹوریل میں ڈائریکٹر آف سٹوڈنٹ آفئیرنے پاکستان کے دو لخت ہونے پر جو تقریر منعقد کی اُس میں ڈیڑھ ہزار سے بھی زیادہ طالب علم اور اساتذہ شریک تھے جہاں سانحہ پشاور اور سانحہ سقوط ڈھاکہ پر مقررین نے اپنے خیالات کا اظہار کیا جبکہ وائس چانسلر نے مہمان خصوصی کا عالمانہ خطاب کیا الراضی ہال میں مسئلہ کشمیر کے ممکنہ حل کا جائزہ لیا جس کا پاکستان سٹڈیز سنٹر کی ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹر مسرت عابد نے اہتمام کیا تھا اور لیفٹیننٹ جنرل غلام مصطفی اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقبل سفیر جناب مسعود خان نے اس دیرینہ مسئلہ کا جائزہ لیتے ہوئے پُر جو ش اندا ز میں اس یقین کا اظہار کیا کہ مستقبل قریب میں وہ وقت آنیوالا ہے جب مقبوضہ کشمیر دوبارہ پاکستان کا حصہ بنے گا کیونکہ یہی نوشتہ تقدیر ہے ۔ پروفیسر ڈاکٹر حسن عسکری رضوی نے پاکستان ، بھارت اور کشمیریوں کی صحیح لیڈر شپ کی آپس میں مل بیٹھ کر اس مسئلہ کے سب کو قابل قبول حل تلا ش کر نے پر زور دیا۔ وائس چانسلر ڈاکٹر مجا ہد کامران نے اس با ت پر زور دیا کہ جب کوئی قوم کسی مقصد کو حاصل کر نے کا مصمم ارادہ کر لے تو کوئی طاقت راستہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتی اور پہلے کشمیر پر جو مظالم بھارت نے ڈھائے ہیں اُنکی اب انتہا ہو چکی ہے۔ سیمینارز کے خاتمہ پر تمام شرکاءنے وائس چانسلر کی قیادت میں ایک بڑی بھر پور ریلی کی قیادت کی ۔راقم پنجاب یو نیورسٹی کا 70سال سے اوپر غالباً معمر ترین سٹودنٹ ہونے کے نا طے ان کامیاب سیمینار ز کے انعقاد پر جنہوں نے نئی نسل میں ایک نیا جذبہ کی روح پھونک دی ہے مبارک با د پیش کرتا ہوں۔

کرنل (ر) اکرام اللہ....قندیل

ای پیپر دی نیشن