خداخدا کر کے بلدیاتی انتخابات ہوئے۔ بلدیاتی ادارے دنیا میں جمہوریت کی پہلی منزل بلکہ بنیاد کہلاتے ہیںمگر ہمارے ہاں جس جمہوریت کی خاطر قربانیاں دی جاتی ہیں اس میں انکی ضرورت ہی محسوس نہیں کی جاتی۔پچھلی حکومت نے توبہانہ سازی سے اپنی حکمرانی کی پانچ سالہ مدّت انکے بغیر ہی پوری کرلی جبکہ موجودہ حکومت نے اپنی آدھی مدّت گذارنے او ر عدالت عظمیٰ کے دباؤ کے بعد اس کا رخیر کو سرانجام دیا۔ آئین میں بھی اسکو بڑی مشکل سے جگہ دی گئی ہے۔ ذرا غور کیجئے آرٹیکل 140کا ٹائٹل ہے "Advocate General for a Province" اور اسی کے نیچے آرٹیکل 140-A کو Local Governmentکی سرخی دی گئی ہے یعنی جزو کا آرٹیکل کے اصل ٹائٹل سے کوئی تعلق نہ ہے۔ بہر حال آئین کی اس شق کے مطابق لازم ہے کہ ’’ہر صوبہ قانون کے تحت لوکل گورنمنٹ سسٹم قائم کریگا اور عوام کے منتخب نمائندوں کو سیاسی ، انتظامی ،مالی ذمہ داریاںاور اتھارٹی تفویض کریگا‘‘۔اسکی رو سے عوام کی حکومت میں شمولیت اور ایک مربوط سوسائٹی کی تشکیل کا راستہ تو نظر آتا ہے مگر کروڑوں روپے خرچ کر کے اسمبلیوں میں پہنچنے والوں کا مزہ خراب ہو جاتا ہے۔ انہیں ہر روز کام لیکر دروازے پر آنیوالوں کی قطاریں بکھرتی اور مُٹھی سے فنڈز سرکتے نظر آتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اول تو یہ ادارے بننے ہی نہیں دیئے جاتے اور اگربنانے پڑ جائیں تو اختیارات اسقدر محدود کر دیئے جاتے ہیں کہ عملی طور پر وہ ممبر ان اسمبلی اور صوبائی حکومت کے دست نگر ہی رہتے ہیں۔اس بار بھی کچھ مختلف ہوتا نظر نہیں آتا۔کم ازکم اگلے جنرل الیکشن تک تو اختیارات اور وسائل کا جو سسٹم سیٹ کیا جا چکاہے وہ اسی طرح رہے گا۔نو منتخب کونسلر وغیرہ کی طرف سے اس موضوع پر کافی بحث مباحثہ جاری ہے بلکہ ایم کیو ایم نے 8دسمبر کو بلدیاتی الیکشن میں نمایاں کامیابی پر یوم تشکر مناتے ہوئے یہ اعلان بھی کر دیا کہ میئر کو با اختیار بنانے کیلئے وہ با قاعدہ جدوجہد کرینگے۔بظاہر تو یہ بحث جائز ہے مگر کیا اوپر اور نچلی سطح پر عوام کے منتخب نمائندوں کے درمیان اسطرح کی رسہ کشی عوام کو کچھ دے سکے گی؟کیا آج کے حالات میں یہ نمائندے کوئی اور بہتر رول ادا نہیں کرسکتے؟ضرور کر سکتے ہیں: گلیوں تک پہنچنے والا یہ واحد انفراسٹرکچر ہے جو قوم کودرپیش چیلنجز میں وہ کچھ دے سکتا ہے جس کی شدت سے ضرورت ہے اور جو عمومی کاموں سے فی الوقت کہیں زیادہ اہم ہے۔
وطنِ عزیز حالت جنگ میں ہے۔ فورسز بڑی بے جگری سے برسرپیکار ہیں مگر سوسائٹی جوکہ ایک قلعہ ہوتی ہے کچھ منتشر کمپرومائزڈ اور اجتماعی طور پر کمزور ثابت ہورہی ہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب انفرادی طور پر ہر شہری وطنِ عزیز کی آزادی اور وقار پر مرمٹنے کو تیار ہے تو پھر بحیثیت سوسائٹی کمزوری کیوں ہے؟ گذشتہ وحالیہ حالات کا تجزیہ کیا جائے تو اسکی نشاندہی ربط و اعتماد ِباہمی کے فقدان میں ہوتی ہے۔ میرے نظریے کے مطابق ’’پاکستان کے تمام مسائل کا حل ایک مربوط سوسائٹی کے قیام ہے جسے حاصل کرنے کیلئے بلدیاتی انفراسٹرکچر کلیدی کردار ادا کرسکتا ہے‘‘۔ آئیں کچھ پہلوؤں پر غور کریں
1۔دہشت گردی کی جنگ ۔اس جنگ میں بہت بڑی کمزوری یہ نظر آئی ہے کہ دہشت گرد واردات سے پہلے اور واردات کے بعد ہماری گلیوں میں ہی چھپے پائے گئے ہیں ۔اگر مقامی کونسلراپنی گلیوں میں لوگوں کو قدرے منظم کرلیں تو یہ کمین گاہیں ان پر بند کی جاسکتی ہیں۔ پھر دہشت گردی اور جرائم کیخلاف حکومت کے انفارمیشن نیٹ ورک سے منسلک ہو کر اپنی فورسز کو سپورٹ کرسکتے ہیں۔ہماری پولیس اسوقت پبلک کی شمولیت سے بیٹ سسٹم رائج کرناچاہ رہی ہے جس کی عوام میں کوئی خاص پذیرائی نہیں ہو رہی۔ اس کارخیر میں ہمارے عوامی نمائندے حصّہ ڈال کر اپنے بچوں کو امن کا تحفہ دلانے میں مددگار ثابت ہوسکتے ہیں۔
2۔شہریوں کا وقار۔اس وقت ہمارے شہری اس وقار سے محروم ہیں جسکے وہ حقدار ہیں۔اسکی ایک وجہ لوگوں کی اپنے معاشرتی ہجوم کے اندر رہتے ہوئے تنہائی ہے۔کوئی بچہ ظلم کا شکار ہو جائے تو یہی کہا اور سمجھا جاتا ہے کہ فلاں محنت کش کا بچہ ظلم کا شکار ہوا۔وہ محنت کش چند گھنٹوں کی ہمدردی کے بعد ہی تنہا رہ جاتا ہے۔اسی طرح کسی شریف شہری کے خلاف کوئی جھوٹی رپورٹ بھی درج ہو جائے تو اسی وقت اسکی تذلیل شروع ہو جاتی ہے اور وہ تنہا رہ جا تا ہے۔جنھوں نے ووٹ لئے ہیں ان کا اخلاقی فرض بنتا ہے کہ وہ دیگر لوگوں کو ساتھ لیکر کسی کو بھی مشکل لمحات میں تنہا نہ چھوڑیں ۔اسطرح کے کاموں سے شہریوں میں اعتماد اور وقار کا احساس پیدا ہوگاجوآگے چل کر صاف ستھری قوم بنانے کا موجب بن سکتا ہے۔
3۔معاشرتی قدریں۔قومیں اپنی معاشرتی قدروں کے احترام سے عظیم کہلاتی ہیں۔ہماری قدریں کچھ اس طرح سے مسخ ہوئی ہیں کہ کئی بار انہیں پہچاننا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔اسکی بڑی وجہ بھی معاشرے میں انفرادیت کا غالب آجانا ہے۔اب تو حالت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ گھروں میں مل بیٹھنا،کھانے پر ایک دوسرے کا انتظار کرنا اور محلے داروں کو اپنا سمجھنا بھی ختم ہوتا جارہا ہے۔گھر کے اندر کے معاملات تو خیرگھر والے ہی سلجھا سکتے ہیں البتہ گلی محلے ،گاؤں یا یونین کونسل وغیرہ کی سطح پر ہم Public Interaction بڑھا کر معاشرے کو سہارا دے سکتے ہیں۔اسطرح کے ماحول میں لوگ محتاط بھی ہو جاتے ہیں اور الرٹ بھی۔ جسکا نتیجہ معاشرے میں سچائی،بین المذاہب وفرقہ ہم آہنگی، باہمی احترام،بچوںو خواتین کا تحفظ اور انتخابات میں درست ووٹ ڈالنے کے شعور کی صورت میں نکلتا ہے۔
4۔ناداروں سے رابطہ۔ہمارے معاشرے میں جتنے مخیر حضرات موجود ہیں شاید ہی کہیں اور پائے جاتے ہوں پھر بھی بہت سارے نادار،یتیم ،بیمار،کس مپرسی کی تلخ زندگی گذاررہے ہیں۔اسکے علاوہ پچھلے سالوں میں دھماکوں وغیرہ میں اپاہج ہو جانیوالے بھی خاصی تعداد میں موجود ہیں۔ اگر گلیوں سے ڈائریکٹ رابطہ رکھنے والے نمائندگان ایسے لوگوں کو معاشرتی اور حکومتی اداروں سے یا مخیر لوگوں سے متعارف کروادیں تو اس سے نہ صرف معاشرہ مضبوط ہوگا بلکہ ربّ العزت کی رحمت بھی شاملِ حال ہوجائیگی۔بے نظیر سپورٹ پروگرام کے جائز یا نا جائز استعمال میں بھی یہ لوگ موثر کردار ادا کر سکتے ہیں۔
ہمارے ہاں ساری اجتماعی کمزوریاں حکومت سے منسوب کر کے بری الذمہ ہو جانا اک روایت سی بن گئی ہے جبکہ اپنے انفرادی حقوق کی جنگ ہم لڑتے رہتے ہیں ۔حقوق کی تگ ودو درست ہے مگر اخلاقی اور معاشرتی ذمہ داریوں سے نہ تو افراد مبرّا ہو سکتے ہیں نہ انکے اندر سے چنے گئے نمائندے۔اگر ہم اسطرح کی سوچ کو اپنا لیں تو ہماری کمپرومائزڈ سوسائٹی مربوط اور مضبوط ہو کرمن حیث القوم تمام معاملات کو سلجھانے میں کامیاب ہو سکتی ہے۔
’’بلدیاتی نمائندے اور معاشرتی ذمہ داریاں‘‘
Dec 18, 2015