” بھٹّو اِزم اور کراچی داﺅ پر ؟“

ایک پنجابی اکھان کے مطابق ۔ ” بٹیرے نئیں لڑ دے ، اُستاداں دے ہتّھ لڑدے نیں“۔ وزیراعلیٰ سندھ سیّد قائم علی شاہ اور اُن کے مُشیر اطلاعات جناب مولا بخش چانڈیو معزز سیاستدان ہیں ، اِس کے باوجود اُنہوں نے ثابت کردِیا ہے کہ وہ اپنے قائد جناب آصف علی زرداری کی ہدایات اور داﺅ پیچ کے مطابق ” سندھ نہ ڈیسوں“ کی لڑائی سے وفاق اور آپریشن ضرب اُلعضب کے غازیوںاور شہیدوں کو بھی آنکھیں دکھا سکتے ہیں ۔ ابھی جنابِ آصف زرداری سکول کے طالبعلم ہوں گے جب سرگودھا کے میرے ایک مرحوم دوست شاعر سیّد ضامن علی حیدر نے کہا تھا کہ ....

” یاد ہیں ہم کو ، سبھی تین سو تیرہ داﺅ
اور ہم اُن کو لگانے کا ، بھی فن جانتے ہیں“
16 دسمبر کوسندھ اسمبلی میں عددی اکثریت کی طاقت پر دہشت گردوں کے سہولت کاروں کے خلاف رینجرز کے اختیارات کو محدود کرنے کی ” قراردادِ مقاصد“ منظور کرنے میں پُھرتی دکھائی گئی ۔یہ پاکستان پیپلز پارٹی کی سیاسی تاریخ کا دوسرا بڑا واقعہ ہے۔ پہلا واقعہ یہ کہ جب قومی اسمبلی میں عددی اکثریت کے بل پر 1973ءکے مُتفقہ آئین میںبڑی عُجلت سے 6 ترامیم وزیراعظم بھٹو نے کرائی تھیں ۔اسلام آباد میں مقیم ایک ریٹائرڈ اعلیٰ افسر جناب یزدانی ڈار کے مطابق ” آئین میں ایک ترمیم کے دَوران مَیں اپنی ڈیوٹی پر قومی اسمبلی میں تھا ،جب ترمیم کے خلاف حزبِ اختلاف کے ارکان احتجاج کر رہے تھے ۔ سپیکر قومی اسمبلی جناب فاروق علی خان ڈپٹی سپیکر صاحب کو اپنا قائم مقام بنا کر اپنے چیمبر میں گئے۔ انہوں نے ٹیلی فون پر وزیراعظم بھٹو سے بات کی اور واپس آ کر احتجاج کرنے والے ارکان کو سکیورٹی اہلکاروں سے باہر پھنکوا دیا، جن میں خان عبدالولی خان اورمولانا مفتی محمود بھی تھے“۔
رینجرز کے اختیارات محدود کئے جانے کی قرارداد کی منظوری سے پہلے ہی سپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی جنابِ زرداری اور وزیراعلیٰ قائم علی شاہ سے ہدایات لے چُکے تھے کہ انہیں ” اخلاق کا مظاہرہ “ کرنا ہے ۔ انہوں نے حزبِ اختلاف کے ارکان کا احتجاج خندہ پیشانی سے برداشت کِیا اورجب وہ سب قرارداد کی کاپیاں پھاڑتے ہُوئے۔” نو کرپشن نو“ اور ” گو زرداری گو“ کے نعرے لگاتے ہُوئے ایوان سے واک آﺅٹ کر گئے تو آغا صاحب نے بُرا نہیں منایاکہ جنابِ زرداری اقتدار اور ملک سے "GO" ہو چکے ہیں ۔
وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے 12 دسمبر کو سیّد قائم علی شاہ اور جناب مولا بخش چانڈیوکو بھی رینجرز کو دہشت گردوں اور دوسرے جرائم کاروں کے خلاف پہلے کے سے اختیارات نہ دینے کے نتائج پر خبردار کِیا لیکن” غازی “ آصف زرداری کی قیادت میں ”شہیدوں کی پارٹی“ کے اُن قائدین نے وہی کِیا جِس کا انہیں حُکم دِیا گیا تھا ۔ قرارداد کے مطابق رینجرز صِرف ٹارگٹ کلنگ اغواءبرائے تاوان اور فرقہ وارانہ کلنگ سے نِمٹے گی۔ پولیس کے علاوہ کسی دوسرے ادارے سے تعاون حاصل نہیں کرے گی۔ اُسے سرکاری دفاتر پر چھاپے، اہم شخصیات اور دہشت گردوں کے سہولت کاروں کی گرفتار ی سے پہلے حکومتِ سندھ (وزیراعلیٰ اور چیف سیکرٹری سے اجازت لینا ہوگی“۔ خبروں کے مطابق ” جِس وقت حزبِ اختلاف کے ارکان ایوان میں احتجاج کر رہے تو سپیکر صاحب نے کمال چابک دستی سے 9 سرکاری "Bills" بھی منظور کروالئے۔
سندھ اسمبلی کے اجلاس کے بعد ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہُوئے سندھ اسمبلی میں حزب اختلاف کے لیڈروں نے کہا کہ ” رینجرز کے اختیارات محدود کرنے کی قرارداد کے ذریعے، چوروں ، ڈاکوﺅں ، جرائم پیشہ اور کرپشن میں ملوث افراد کو تحفظ دِیا گیا ہے ۔ یہ قرارداد نیشنل ایکشن پلان اور شُہداءکی قربانیوں کے منافی ہے “۔جناب آصف زرداری کی ہدایت پر ، سیّد قائم علی شاہ اور سندھ میں پاکستان پارٹی کے ارکان اسمبلی نے جو کچھ کِیا وہ خلافِ توقع نہیں ہے ۔ وفاق اور پنجاب میں مسلم لیگ ن کی حکومت نے شاید خیر سگالی کے جذبے سے ) جنابِ آصف زرداری، سیّد یوسف رضا گیلانی، راجا پرویز اشرف، مخدوم امین فہیم، مخدوم شہاب اُلدّین ، مولانا حامد سعید اور پیپلز پارٹی کے کچھ دوسرے لیڈروں کے خلاف یہاں تک کہ قومی خزانے سے 82 ارب روپے ہڑپ کرنے والے اور ضمانت پر رہا ہو کر گھر بیٹھنے والے جناب جہانگیر بدر کے برادر نسبتی اوگرا کے سابق چیئرمین توقیر صادق کے خلاف مقدمات کی بھی پیروی کرنے میں سنجیدگی نہیں دکھائی۔ ” تے ہُن ہور چُوپو!“
16 جون کو اسلام آباد میں پاکستان پیپلز پارٹی ” فاٹا“ کے عہدیداروں کی تقریبِ حلف وفاداری سے خطاب کرتے ہُوئے جناب آصف زرداری نے وفاقی حکومت اور خاص طور پر جرنیلوں کے خلاف جو اشتعال انگیز تقریر کی تھی اُس کے "Clips" ( 16 دسمبر کو ) مختلف نیوز چینلوں پر دکھائے گئے ۔ زرداری صاحب کو یہ کہتے ہُوئے دکھایا اور سُنایا گیا کہ ” ہماری کردار کُشی بند نہ کی گئی تو ہم اِینٹ سے اِینٹ بجا دیں گے جرنیلوں کا کچا چٹّھا کھول دیں گے ۔ پیپلز پارٹی ہل جاتی ہے تو سب ہل جاتے ہیں ، جِس دِن ہم کھڑے ہوں گے تو صِرف سندھ نہیں کراچی سے خیبر تک سب بندہو جائے گا“۔
اِس تقریر کے بعد بھی جنابِ آصف زرداری کے ساتھ اُن کی مرضی کے مطابق وفاقی حکومت اور جرنیلوں نے ” مُک مُکا“ نہیں کِیا پھر حالات ایسے ہُوئے کہ موصوف دُبئی منتقل ہوگئے ۔ پھر بھی اُن سے رابطہ نہیں کِیا گیا تو اُنہوں نے اِینٹ سے اینٹ بجانے کا ” ساز“ تو چھیڑنا ہی تھا ۔ کراچی بلکہ پورے سندھ میں دہشت گردوں، ٹارگٹ کلرز ، بھتّہ خوروں، اغواءکاروں اور دوسرے جرائم کاروں اور اُن کے سہولت کاروں کا قلع قمع کرنے میں اپنی جانیں قربان کر نے والے رینجرز (افسروں اور اہلکاروں) نے امن قائم کرنے میںکوئی کسر نہیں چھوڑی اور اب اُن پر یہ پابندی کہ ۔ ” فلاں کو پکڑو اور فلاں کو نہ پکڑو اور اگر کسی اہم شخصیت اور مشکوک سہولت کار کو پکڑنا تو سندھ کے وزیراعلیٰ اور سندھ سے اجازت لو“۔ کی قرارداد نہ صرف وفاقی حکومت، پاک فوج بلکہ پوری قوم کے لئے ایک چیلنج نہیں تو کیا ہے؟
صدر فاروق لُغاری نے وزیراعظم بے نظیر بھٹو کی حکومت ختم کی تو جناب آصف زرداری کو گرفتار کرلِیا گیا تھا ۔ اُس کے بعد جناب حاکم علی زرداری نے کراچی اور پھر لاہور میںپریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ۔ ” مَیں نہیں جانتا تھا لیکن میرے بیٹے کو گھسیٹ کر سیاست میں لایا گیا ہے حالانکہ ،بے نظیر بھٹو سے نکاح کے وقت یہ شرط نہیں رکھی گئی تھی“۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنی زندگی میں اپنے شوہر کوپارٹی میں کوئی عہدہ نہیں دِیا تھا۔ جناب زرداری نے محترمہ کے قتل کے بعد بلاول زرداری کو پارٹی کا چیئرمین نامزد کر کے خود شریک چیئرمین کا عہدہ سنبھال لِیا تھا ۔پِھر نان گریجویٹ زرداری صاحب کوصدر مملکت بنایا گیا۔
جنابِ زرداری نے لاہور ہائی کورٹ کے حُکم پر 22 مارچ 2013ءکو پیپلز پاٹی کے شریک چیئرمین کا عہدہ چھوڑ دِیا تھا ۔ جناب بھٹو ہوتے تو صدر کا عہدہ چھوڑ دیتے۔ جناب بھٹو کے ” سوشلزم“ نے غریبوں کو کچھ نہیں دِیا اور نہ ہی وزیراعظم بے نظیر بھٹو اور صدر زرداری کے ” بھٹو اِزم“ نے ۔ رینجرز کے اختیارات محدود کرنے سے متعلق سندھ اسمبلی کی قرارداد داد ” بھٹو ازم“ کا آخری شاہکار ہے۔ جنابِ آصف زرداری نے اپنی ذاتی اناءپر ” بھٹواِزم “ اور کراچی دونوں کوداﺅ پر لگا دِیا ہے ۔اب جو کچھ کرنا ہے سیاسی اور عسکری قیادت نے ہی کرنا ہے۔

ای پیپر دی نیشن