لاہور (سید شعیب الدین سے) پاک فوج کے سابق سربراہ جنرل (ر) مرزا اسلم بیگ نے کہا ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات کی نوعیت بیحد مختلف ہے۔ 30 سال سے سعودی عرب سے فوجی تعاون کا غیرتحریری معاہدہ ہے۔ 91ء کی خلیجی جنگ سے 5، 6 برس پہلے سے ہمارے 15 ہزار کے لگ بھگ فوجی سعودی عرب میں موجود تھے۔ لیکن کسی نے بھی خلیجی جنگ میں حصہ نہیں لیا تھا۔ تب بھی فوج وہاں تھی۔ آج بھی ہے۔ تب بھی جنگ میں حصہ نہیں لیا تھا۔ میرا یہی موقف تھا کہ ہماری فوج کرائے کی فوج نہیں ہے۔ نوائے وقت سے خصوصی بات چیت میں اسلم بیگ نے کہا کہ خلیجی جنگ سے پہلے آپریشن ڈیزرٹ سٹارم کی کمانڈ پوسٹ ہمارے ہی انجینئرز نے تعمیر کی تھی۔ سعودی عرب میں ہمارا آرمرڈ بریگیڈ، انفنٹری بریگیڈ، آرٹلری بریگیڈ موجود تھے لیکن کسی نے جنگ میں حصہ نہیں لیا۔ ہم سعودی فوجیوں کو ٹیکنیکل ٹریننگ دیتے ہیں۔ دہشت گردی سے نبٹنا سکھانے میں انٹیلی جنس سپورٹ فراہم کرتے ہیں۔ الیکٹرانک سسٹم پر دشمن کی شناخت کرنا سکھاتے ہیں۔ جنرل مرزا اسلم بیگ نے کہا کہ 91ء کی خلیجی جنگ میں شمولیت کی اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کی پالیسی سے انہوں نے اختلاف کیا تھا۔ نواز شریف کہتے تھے کہ فوج سعودیوں کی کمانڈ میں دے دو۔ انکار پر میاں نواز شریف اور سعودی ناراض ہو گئے۔ جس کے بعد سعودی عرب سے پاک فوج کو واپس بھجوا دیا گیا۔ تقریباً ساری پاک فوج واپس آ گئی۔ لیکن پھر آہستہ آہستہ پاک فوج سعودی عرب جانے لگی۔ اسلامی ممالک کے اتحاد میں شامل ہیں۔ ہم ان کی مدد کر رہے ہیں۔ ہم اس گروپ میں تعاون کے لیے شامل ہیں۔ اسلامی ممالک کی طرف سے اسلامی ممالک کے اتحاد میں شمولیت پر اعتراض کے سوال پر کہا کہ کسی مسلمان ملک کو اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ ہمارا تعاون محدود ہے۔ سعودی عرب کو اس وقت کسی سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ پاکستانی سیاست کے حوالے سے سوال پر انہوں نے کہا کہ عمران کی غلطیوں کی وجہ سے نواز شریف کو فائدہ پہنچا ہے۔