جمشید، اسامہ کتنے چراغ بجھ گئے

ذوالفقار احمد چیمہ نے صحیح کہا کہ حویلیاں کا طیارہ حادثہ کوئی حادثہ نہیں تھا بلکہ اس سے کہیں بڑھ کر تھا۔ حادثہ جس نے جنید جمشید جیسے خوش لباس خوش آواز کی جان لے لی۔ اسامہ جیسے چاند چہرے کو ستاروں بھرے گھر سے چھین لیا۔ طیارے کے 47 چہرے ایسے ہی تھے۔ ہر ایک اپنے گھر کا چراغ، اپنے گھر کی روشنی۔ حادثہ تھا کہ چار سو پھیلے اجالے کی شہادت، وطن عزیز پہلے ہی زخم زخم ہے۔ ہر سطح پر محاذ آرائی، ہاتھیوں کی لڑائی میں گھاس کا نقصان، عوام گھاس پھونس ہی تو ہیں دکھوں، دردوں کی ماری جندڑی کی طرح علیل علیل۔ 2016ءنے خوشیاں کم اور غم زیادہ دیئے عزیزوں کا غم تو ہوتا ہی ہے پر اس برس تو صابری سے ایدھی تک اور اسامہ سے جنید جمشید تک جدائی کے لمحوں نے گھیرے رکھا۔ ایسے لوگوں کی جدائی کہ جن کے ساتھ زمانہ جڑا ہوا تھا۔ لوگوں کی خوشیاں جڑی ہوئی تھیں۔ جنید جمشید کے چہرے اور اندر کی دنیا کو بدلنے میں مولانا طارق جمیل کا بڑا کردار رہا۔ میں نے دلوں کے حکمران حضرت خواجہ قمر الدین سیالوی، مولانا فضل الرحمان کے والد مفتی محمود، مولانا غلام غوث ہزاروی سے لےکر ادارہ منہاج القرآن کے سربراہ علامہ طاہر القادری کے پیر و مرشد سید طاہر علاالدین اور خود ان کو بہت قریب سے دیکھا ہے۔ سب کا محبت کرنے والوں کا ایک بڑا حلقہ ہے اور اسی پس منظر میں مولانا طارق جمیل کا حلقہ تو تبلیغی جماعت کے حوالے سے مسلسل بڑھ رہا ہے۔ شاید انکی دعوت فنون کی دنیا میں زیادہ ہے اور یہ انکے کلام کا اعجاز ہے کہ جدھر جاتے ہیں رنگ بدل دیتے ہیں۔ جنید جمشید کا جنازہ پڑھانے سے پہلے انہوں نے حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ کے دور کے پس منظر میں دل کو چھولینے والی باتیں کیں۔ یہ بھی کہہ دیا کہ حکمران جتنا بھی عبادت گزار ہو اگر ظالم ہے تو جنت سے محروم اور اگر کوئی عوام کے دکھ درد بانٹتا ہے تو خالق کا پسندیدہ ٹھہرتا ہے۔ چترال کے شہید ڈپٹی کمشنر اسامہ نے اپنی مختصر سی عملی زندگی میں عوام کے دلوں میں جگہ بنائی۔ ثبوت انکی شہادت پر سامنے آئے۔ ایک نوجوان بیورو کریٹ کیلئے چترال سے پشاور سے نہ جانے کہاں سے عام شہری آنکھوں کی چھتنار پر آنسوﺅں کی آبشار سجائے اسامہ کے گھر تعزیت کے پہنچے تو تب راز کھلا کہ وہ اپنی بے لوث خدمت، انصاف اور خلوص سے عام خلقت کے دل میں کتنی جگہ بنا چکے تھے۔ جعفری مرحوم کی نظم کا ایک ٹکڑا یاد آتا ہے۔
کیسے پھولوں کا تم کو تحفہ دوں
تو جدا ایسے موسموں میں ہوا
جب درختوں کے ہاتھ خالی ہیں
نوائے وقت میں اسامہ کے ماموں اور دانشور بیورو کریٹ ذوالفقار احمد چیمہ کے نوحہ نے کتنے دلوں کو رلا دیا۔ تاثیر مصطفی جیسے احباب لاہور سے اسلام آباد تک تڑپتے رہے یہ سول سروس کو نیک نامی سے ہمکنار کرنےوالے نوجوان افسر کے والدین کو خراج کا ایک انداز تھا۔ واقعی یہ حادثہ نہیں کچھ اور تھا کہ طیارے کو ایسے کیپٹن احمد منصور اور علی اکرم چلا رہے تھے جن کو اسلام آباد پشاور روٹ سے عشق تھا۔ پاکستان میں سچی ترقی پسند سوچ اور منشور والے پاکستانی مزدور محاذ کے لاہور چیمبر کے صدر محمد اقبال ظفر حاثے کے بعد سے آج تک اداسی کے بھنور سے نہیں نکل سکے۔ ان کا بیٹا حسیب اور زیادہ ملول ہے۔ پی آئی اے کی انجینئرنگ ونگ سے تعلق ہے حادثے سے ایک ہفتہ پہلے اس نے شہید پائلٹوں کےساتھ اسی طیارے میں اسلام آباد چترال روٹ پر سفر کیا تھا۔ گہری دوستی اور محبت کے تعلق کے ساتھ اس سفر کے بعد اب ایسے بچھڑے ہیں کہ اب شاید کبھی خوابوں میں ملیں۔ حادثے کی تحقیق ہو رہی ہے۔ ہوتی رہے گی کس کی غلطی نے اتنے آنسوﺅں کا سامنا کیا کیسے پتہ چلے گا اور اگر چل بھی گیا تو جانےوالے تو لوٹ کر نہیں آ سکتے۔ پاکستان تو جیسے حادثات کا مرکز بن کر رہ گیا ہے۔ سیاسی، سماجی، تعلیمی فکری، مذہبی اور نہ جانے کیسے کیسے حادثات نے چمن زار کو حادثے سے بڑھ کر کچھ اور صورت میں ڈھال دیا ہے بظاہر محرم ختم ہو گیا ہے مگر ایسا لگتا ہے کہ:
محرم ختم ہوتا ہی نہیںہے
سو ماتم ختم ہوتا ہی نہیں ہے

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...