سیاست ‘ علامہ اقبال کے نکتہ ٔ نظر سے

علامہ اقبال تاریخ عالم کے وہ غیر معمولی مفکر ہیں جن کے نظریہ تمدن کی اساس پر ایک عظیم الشان مملکت معرض وجود میں آئی۔ ان کا نظریہ تمدن مکمل طور پر اسلام تھا جس کا مرکزی نقطہ عقیدہ توحید ہے۔ توحید کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کائنات کا واحد خالق اور مالک ہے وہی قادرمطلق ہے۔ وہی عبادت اور اطاعت کے لائق ہے۔ حکومت صرف اسی کی ہے کوئی دوسرا اس کی حکومت میں شریک نہیں۔ بقول اقبال: …؎
سروری زیبا فقط اس ذات بے ہمتا کو ہے
حکمراں ہے اک وہی ، باقی بتان آزری
’’اسلام بحیثیت ایک نظام سیاست کے اصول توحید کو انسانوں کی جذباتی اور ذہنی زندگی میں ایک زندہ عنصر بنانے کا عملی طریقہ ہے۔ اس کا مطالبہ وفاداری خدا کے لئے ہے نہ کہ تخت و تاج کے لئے۔‘‘ ڈاکٹر یوسف حسین خان کے بقول: ’’ اقتدار کا یہ نظریہ جدید مملکت کے معاہدہ عمرانی کے نظرئیے سے بالکل مختلف ہے جس کی روح سے مشیت عامہ جو کثرت رائے سے متعین ہوتی ہے، مملکتی اقتدار کا منبع تصور کی جاتی ہے۔یہ مشیت عامہ سیاہ و سفید کی مالک ہوتی ہے۔ وہ غیر اخلاقی افعال کو اخلاقی اور ناحق قرار دینے کی بھی اپنے آپ کو مجاز سمجھتی ہے۔‘‘ معاہدہ عمرانی کا یہ نظریہ روسو نے پیش کیا تھا۔ انقلاب فرانس میں اس کی بڑی پذیرائی ہوئی پھر مغرب میں جدید جمہوری حکومت کا نظام اسی نظرئیے پر قائم کیا گیا جس میں مکیا ولی کے تصور حکومت کے مطابق دین اور سیاست دو مختلف اداروں کی حیثیت رکھتے تھے۔ یہاں تک کہ دین اپنی اداری حیثیت سے بھی معزول ہوگیا اور صرف قومیت کا وطنی تصور سیاسی نصب العین بن گیا۔
اقبال نظریہ توحید کی تفسیر بیان کرتے ہوئے رقم طراز ہیں : ’’ اسلام کے نزدیک ذات انسانی بجائے خود ایک وحدت ہے۔ وہ مادے اور روح کی کسی ناقابل اتحاد ثنویت کا قائل نہیں۔ مذہب اسلام کی روح سے خدا اور کائنات، کلیسا اور ریاست اور روح اور مادہ ایک ہی کل کے مختلف اجزا ہیں۔ ‘‘ مادے کی ساری کثرت روح ہی کے ادراک ذات کا ایک میدان ہے اور اس لیے جو کچھ بھی ہے مقدس ہے۔ کیا خوب فرمایا حضور رسالت مآب ﷺ نے کہ : ’’ہمارے لیے یہ ساری زمین مسجد ہے‘‘ اسلام کا ظہور بطور ایک اجتماع مدنی کے ہوا۔‘‘ اسلام اب بھی ایک زندہ قوت ہے جو ذہن انسانی کو نسل و وطن کی قیود سے آزادی دلا سکتی ہے جس کا یہ عقیدہ ہے کہ مذہب کو فرد اور ریاست دونوں کی زندگی میں غیر معمولی اہمیت حاصل ہے اور جسے یقین ہے کہ اسلام کی تقدیر خود اس کے ہاتھ میں ہے۔ اسے کسی دوسری تقدیر کے حوالے نہیں کیا جا سکتا۔ اقبال کسی طور پر بھی اسلام کی اجتماعی حیثیت کو ختم کرکے اسے فرد کی نجی حیثیت دینے کے قائل نہ تھے۔ انہوں نے کہا : کیا مذہب ایک نجی معاملہ ہے اور ااپ بھی یہی چاہتے ہیں کہ ایک اخلاقی اور سیاسی نصب العین کی حیثیت سے اسلام کا بھی وہی حشر ہو جو مغرب میں مسیحیت کا ہوا ہے۔ اسلام کا مذہبی نصب العین اس کے معاشرتی نصب العین سے جو خود اسی کا پیدا کردہ ہے الگ نہیں ۔۔۔۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ اگر آپ نے ایک کو ترک کیا تو بالآخر دوسرے کا ترک کرنا بھی لازم آئے گا۔ اسلام بحیثیت مذہب دین و سیاست کا جامع ہے۔ یہاں تک کہ ایک پہلو کا دوسرے پہلو سے جدا کرنا حقایق اسلامیہ کا خون کرنا ہے۔
اسلام رنگ ، نسل اور علاقائی تصبات کی مکمل نفی کرتا ہے۔ اس کے نزدیک عرب و عجم ، اسود و احمر، بندہ وآقا سب برابر ہیں۔ ان اعلیٰ انسانی اصولوں کی بنا پر اقبال اسلام کے مقابلے میں کسی ضابطہ حیات کو مطلق کوئی اہمیت نہیں دیتے۔ انہوں نے کہا: ’’میرے نزدیک فاشزم ، کمیونزم یا زمانہ حال کے اور ازم کوئی حقیقت نہیں رکھتے میرے عقیدے کی رُو سے صرف اسلام ہی ایک حقیقت ہے جو بنی نوع انسان کے لئے ہر نقطہ نگاہ سے موج نجات ہوسکتی ہے۔‘‘ اسلام ہیئت اجتماعیہ انسانیہ کے اصول کی حیثیت میں کوئی لچک اپنے اندر نہیں رکھتا اور ہیئت اجتماعیہ کے کسی اور آئین سے کسی قسم کا راضی نامہ یا سمجھوتہ کرنے کے لیے تیار نہیں۔ بلکہ اس امر کا اعلان کرتا ہے کہ ہر دستور العمل جو غیر اسلامی ہو وہ نامعقول اور مردود ہے۔
باطل دوئی پسند ہے حق لاشریک ہے
شرکت میانہ حق و باطل نہ کر قبول
اقبال کے نزدیک اسلام ایک جمہوری نظام حیات ہے اور جمہوریہ اسلامیہ کی بنا شریعت حقہ کے نزدیک ایک مطلق اور آزاد مساوات پر قائم ہے۔ شریعت کے نزدیک کوئی گورا ، کوئی ملک، کوئی زمین فائق و مرجع نہیں۔ اسلام میں کوئی مذہبی پیشوائی یا مشخییت نہیں۔ ذات پات یا نسل و وطن کا امتیاز نہیں۔ سب سے پہلے نبی عرب ﷺ نے انسان کو فطری آزادی کی تعلیم دی اور غلاموں اور آقائوں کے حقوق کو مساوی قرار دے کر اس تمدنی انقلاب کی بنیاد رکھی جس کے نتائج کو اس وقت تمام دنیا محسوس کر رہی ہے۔
پروفیسر نکلسن کے نام خط میں اسلام کو واحد جدید معاشرتی نظام قرار دیتے ہوئے لکھا: ’’میری نظموں کا مقصود اسلام کی وکالت نہیں۔ بلکہ میری قوت طلب و جستجو تو صرف اس چیز پرمرکوز رہی ہے کہ ایک جدید معاشرتی نظام تلاش کیا جائے اور عقلاً ناممکن معلوم ہوتا ہے کہ اس کوشش میں ایک ایسے معاشرتی نظام سے قطع نظر کر لیا جائے جس کا مقصد وحید ذات پات، رتبہ و درجہ ، اور رنگ و نسل کے تمام امتیازات کو مٹا دینا ہے۔ ’’ اسلام عقائدی مذہب نہیں ہے۔ اس کا منتہائے مقصد یہ ہے کہ نوع انسانی ایک گھرانا اور ایک خاندان بن جائے۔ دنیا میں نسلی، لسانی اور علاقائی تعصبات ہی فتنہ وفساد کی اصل و اساس بنتے رہے ہیں صرف دین اسلام ان کی نفی کرتا ہے۔ فرمایا: ’’ اسلام کے سوا اور کوئی ایسا طریق نہیں جس پر کار بند ہوکر یہ امتیازات مٹ سکیں۔ اسلام نے جو فرائض امکان یا طریق عبادت مقرر کئے ہیں ان سب کا مدعا یہ ہے کہ انسانی قلوب کو رنگ، نسل اور قوم کے امتیازات سے پاک کردے۔
انہوں نے 1930ء میں مسلم لیگ کے صدارتی خطبہ میں واضح طور پر کہا: ’’ میری خواہش ہے کہ پنجاب ، صوبہ سرحد، سندھ اور بلوچستان کو ایک ہی ریاست میں ملا دیا جائے۔ خواہ وہ یہ ریاست سلطنت برطانیہ کے اندر حکومت خود اختیاری حاصل کرے خواہ اس کے باہر ، مجھے تو ایسا نظر آتا ہے کہ اور نہیں تو شمال مغربی ہندوستان کے مسلمانوں کو آخر ایک منظم اسلامی ریاست قائم کرنی پڑے گی۔‘‘ تاکہ اسلام بحیثیت ایک تمدنی قوت کے زندہ رہے۔
حضرت علامہ کے تصور کے مطابق پاکستان ایک آزاد اسلامی ریاست کی صورت میں ظہور پذیر ہوا ۔ مؤسس پاکستان حضرت قائداعظم نے علامہ اقبال کی سیاسی بصیرت کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے فرمایا: ’’اس حقیقت کو میں سمجھتا ہوں کہ وہ ایک بہت بڑے سیاست دان بھی تھے۔ انہوں نے آپ کے سامنے ایک واضح اور صحیح راستہ رکھ دیا جس سے بہتر کوئی دوسرا راستہ نہیں ہوسکتا۔ مرحوم دور حاضر میں اسلام کے بہترین شارح تھے کیونکہ اس زمانے میں اقبال سے بہتر اسلام کو کسی نے نہیں سمجھا۔ مجھے اس امر کا فخر حاصل ہے کہ ان کی قیادت میں ایک سپاہی کی حیثیت سے کام کرنے کا مجھے موقع مل چکا ہے۔ میں نے ان سے زیادہ وفادار رفیق اور اسلا م کا شیدائی نہیں دیکھا۔‘‘

ڈاکٹر سید اکرم اکرام

ای پیپر دی نیشن