شاعر مشرق علامہ اقبال کی یہ Prediction کہ ”مغرب کی وادیوں میں گونجی اذاں ہماری“ اور توحید کی امانت سینوں میں ہے ہمارے آسان نہیں مٹانا نام و نشاں ہمارا مجھے اس لئے بھی زیادہ پسند ہے کہ مغربی کلچر کے بارے میں ڈیڑھ سو برس قبل اقبال کی اس پیشگوئی نے حقیقت کا ایسا روپ دھارا جس کا اقرار آج مغربی دنیا بھی کرنے پر مجبور ہے۔ انگلستان بلاشبہ آج اسلام کا گہوارہ بن چکا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق صرف لندن میں 3 سو سے زائد مساجد قائم کی جا چکی ہیں جو ”ایمان کی حرارت“ والوں کی دین اسلام سے بھی عملی وابستگی اور باہمی اخوت و محبت کا واضح ثبوت ہیں۔ اب ایک طرف تو اسلامی جذبے کا یہ عالم جبکہ دوسری جانب ”من اپنا پرانا پاپی ہے برسوں سے نمازی بن نہ سکا“ کا حقیقی مفہوم ہماری سمجھ میں نہیں آ رہا حالانکہ یہی وہ نقطہ ہے جسے برطانوی مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد بھی نہیں سمجھ پا رہی۔ مسجدیں تو شب بھر میں بنا لیں مگر ان مساجد کے جو مقاصد تھے انہیں درست طریقے سے اب پورے نہیں کر پا رہے۔ برطانیہ دنیا کا واحد ایسا ملک ہے جہاں مسلمانوں کو تحریر و تقریر کی ہی نہیں تہذیب کی بھی مکمل آزادی ہے، انگلستان کے متعدد شہروں میں لوکل اتھارٹیز نے مسجدوں میں نماز جمعہ اور نماز عید کی ادائیگی کیلئے لاﺅڈ سپیکر تک استعمال کرنے کی اجازت دے رکھی ہے۔ ماہ صیام میں انتہائی صبح کی نماز فجر اور انتہائی شب کی ادا کی جانے والی نماز عشاءاور نماز تراویح کے دوران مساجد سے ملحقہ مکانوں اور فلیٹس میں رہائش پذیر غیرمسلم بھی نمازیوں، مسجدوں اور اس ماہ مبارک کا احترام کرتے نظر آتے ہیں۔ سٹوروں اور دکانوں پر 30 دن کیلئے اشیاءکی قیمتیں آدھی کر دی جاتی ہیں مگر ان تمام تر سہولتوں کے باوجود بیشتر مسجدوں میں رواداری کا وہ ماحول نظر نہیں آ رہا جو ایک عملی مسلمان کی شان، آن اور پہچان ہے۔ نمازیوں اور مسجد کمیٹی ممبران کے تعلقات اس طرح پروان نہیں چڑھ رہے جس طرح اسلام ہمیں درس دیتا ہے۔
مجھے آپ کو یہ آگاہ کرتے ہوئے دلی دکھ اور ندامت بھی ہو رہی ہے کہ لندن کے علاقہ MIDDLE SEX کی جس مرکزی جامع مسجد میں نماز جمعہ ادا کرتا ہوں حالات یہاں بھی عدم برداشت اور عدم یکجہتی کا شکار ہو چکے ہیں۔ چہرے بظاہر مسکراتے نظر آتے ہیں مگر اندر معاملہ ”تیرا دل تو ہے صنم آشنا تجھے کیا ملے گا نماز میں“ تک جا پہنچا ہے!!!
سادہ لفظوں میں یوں سمجھ لیں کہ مسجد کی ایگزیکٹو کمیٹی، عہدیداران اور عام نمازیوں کے مابین دھڑے بندی کی جھلک اب واضح نظر آنے لگی ہے وہ مالی معاملات اور ایڈمنسٹریٹو امور جو مسجد کے اندر بیٹھ کر خلوص و محبت سے حل کر لئے جاتے تھے اب وہ چیرٹی کمشن، کونسل حکام اور پولیس تک جا پہنچے ہیں۔
یہ مسجد بنیادی طور پر پروٹسٹنٹ عیسائی فرقے کا ایک گرجا گھرتھا جو 1904ءمیں تعمیر کیا گیا تھا۔1993ءمیں مقامی مسلمانوں نے اپنی مدد آپ کے جذبہ سے سرشار ہو کر 3 لاکھ 80 ہزار پونڈ کی خطیر رقم سے خرید کر اسے مسجد کے نام واقف کر دیا۔ اس سے قبل مسلم ویلفیئر ایسوسی ایشن کو شمال مغربی لندن میں پہلی مسجد قائم کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ ابتدا میں ایک ٹرسٹ قائم کیا گیا اور پھر قرض حسنہ اور دیگر ذرائع سے ایک خطیر رقم اکٹھی کر لی گئی۔ اتنی بڑی رقم کیسے اکٹھی ہوئی یہ ایک علیحدہ کہانی ہے جو پھر کبھی سناﺅں گا۔
چرچ کو جب مسجد میں تبدیل کیا گیا تو اس وقت یہاں 500 افراد کے عبادت کرنے کی گنجائش موجود تھی، چرچ کی عمارت کا شمار چونکہ برطانیہ کی Listed Building میں ہوتا ہے اس لئے برطانوی Heritage Rules کے تحت مسجد کے صحن کی کشادگی، عمارت کے اندرونی اور بیرونی حصوں کی توسیع، بلڈنگ میں لگی کھڑکیوں اور دروازوں کے ڈیزائن میں تبدیلی یا کونسل رولز ریگولیشنز کے مروجہ قانون سے ہٹ کر ایسی بلڈنگ کی آرائش و زیبائش کرنا ممنوع ہے۔ نمازیوں کی بڑھتی تعداد کے پیش نظر کچھ عرصہ قبل صحن میں ایک اور ہال تعمیر کرنے کی درخواست دی گئی مگر کونسل کی جانب سے اجازت نہ مل سکی۔ پھر جب کچھ عرصہ پہلے مسجد میں آتشزدگی کا واقعہ ہوا تو کونسل نے صحن سے ملحقہ حصے میں توسیع کی اجازت دیدی۔ 2011ءمیں اس منصوبے کا آغاز ہوا اور مسجدمیں آج دوسرا ہال تعمیر کیا جا چکا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق مسجد میں 2 ہزار سے زائد نمازیوں کی جس میں خواتین سیکشن بھی شامل ہے گنجائش موجود ہے تاہم عیدالفطر اور عیدالاضحی کے موقع پر صحن میں نمازیوں کیلئے یہاں بھی جگہ تنگ پڑ جاتی ہے۔
نماز پنجگانہ اور نماز جمعہ پڑھانے کیلئے علاقے کے ہردلعزیز امام گزشتہ 20 برس سے یہاں نمازیوں کی خدمت پر مامور ہیں۔ حافظ قرآن ہیں ان کی آواز میں اللہ تعالیٰ نے ایسا گداز پیدا کر رکھا ہے کہ لندن کے دیگر علاقوں سے بھی نمازی انکی تلاوت سننے کیلئے اس مسجد کا رخ کرتے ہیں۔ مسجد کمیٹی کی گزشتہ 3 سالہ کارکردگی قابل تعریف ہے تاہم ایگزیکٹو کمیٹی کے بعض ارکان کا جارحانہ انداز، عدم رواداری اور عدم برداشت رویئے پر نمازیوں کی ایک کثیر تعداد میں گہری تشویش پائی جاتی ہے۔ اس سلسلہ میں مبینہ طور پر پولیس ایک دو بار مسجد کے صحن تک آ چکی ہے، نمازیوں اور بالخصوص بچوں میں ایک خوف سا پایا جاتا ہے۔ مساجد کو غیرمسلموں کیلئے ہم نے نمونہ بنانا ہے، کرسی یا عہدے کا حصول عارضی شان و شوکت ہے۔ اللہ کے گھر کا احترام، باہمی محبت و اخوت اور قوت برداشت ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔ یہی اقبال کا فلسفہ اور یہی فکر و نظر تھی جس پر انہیں۔ع ”مغرب کی وادیوں میں گونجی اذان ہماری“ کی پیشگوئی کرنا پڑی۔٭