پاکستان کی سب سے بڑی عدالت نے تکنیکی بنیاد پرمجھے نااہل قرار دیا ہے ” میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے سامنے سر تسلیم خم کرتا ہوں“جہانگیر ترین نااہل ہوکر بھی سرخرو ہوگئے نئی اورتابندہ مثال قائم کر گئے۔ بہت کم لوگوں کو علم ہو گا کہ جہانگیر ترین بنیادی طور پر استاد تھے بینکار تھے‘ امریکہ کی چوٹی کی درس گاہ یونیورسٹی آف نارتھ کیرولینا سے فارغ التحصیل جناب ترین پنجاب یونیورسٹی میں کاروباری علوم پڑھاتے تھے‘ والد فوت ہوئے تو جائیداد کی تقسیم اور انتظام و انصرام نے جہانگیر ترین کو یونیورسٹی کے کلاس روم سے کھیت کھلیانوں میں پہنچا دیا وہ استاد‘ چشم زدن میں کسان بن گیا‘ جدید دور سے‘ پتھر کے دور میں داخل ہوگیا لیکن اس نے ہمت نہیں ہاری‘ اس نے معجزہ کر دکھایا زراعت کو جدید پیشہ بنا کر نئی کاروباری سلطنت کی بنیاد رکھی گنے اور کپاس کا سب سے بڑا کاشتکار اب صنعت کار بن چکا ہے لیکن کتاب و قلم سے اس نے ناطہ نہیں توڑا۔ اس کالم نگار کو بھی جناب جہانگیر ترین سے کاروباری علوم کی چوٹی کی درس گاہ (LUMS) لاہور میں پڑھنے کا موقع ملا تھا جہاں مجھے زراعت پیشہ زمیندار کی حیثیت سے جناب امتیاز خالد اور جناب الماس حیدر نے ”رسک“ لے کر داخلہ دیا تھا جبکہ غیرمتوقع طور پر اس کالم نگار نے امتیازی حیثیت سے یہ ”جانکاہ“ مرحلہ طے کیا ۔ یہ بھی کیا عجب منظر ہے کہ پاکستان کی پارلیمان کے سب سے زیادہ ٹیکس دینے والے رکن کو کمزور تکنیکی بنیادوں پر نااہل قرار دے دیا گیا۔ ”ملک کی سب سے بڑی عدالت‘ عدالت عظمیٰ نے فیصلہ صادر کیا کہ میں رکن قومی اسمبلی کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریاں انجام دینے کا اہل نہیں لہذا میں اس فیصلے کے سامنے سرتسلیم خم کرتا ہوں۔“
جہانگیر خان ترین نے تحریک انصاف کے سیکرٹری جنرل کے عہدے سے بھی استعفیٰ دے دیا۔ وہ لودھراں سے کانٹے دار مقابلے کے بعد رکن قومی اسمبلی منتخب ہوکر پارلیمان میں پہنچے تھے۔ عدالت عظمیٰ سے نااہل ہونے کے بعد انہوں نے سیاسی عہدہ چھوڑ کر نئی روایت قائم کی ہے جبکہ تین مرتبہ وزیراعظم کے عہدے پر براجمان رہنے والے جناب نواز شریف بدقسمتی سے اس طرح کی شائستگی کا مظاہرہ نہیں کرسکے جس سے پاکستان نت نئے بحرانوں سے دوچار ہو رہا ہے لیکن ترین نااہل ہوکر بھی دیوقامت اور سروقد ہوگئے ہیں‘ اگرچہ طعن توڑنے والے کہہ رہے ہیں کہ عمران خان کی ATM ‘ پیسوں والی مشین ہمیشہ کےلئے خراب ہوگئی ہے کچھ لطیفہ گو ستم ظریف فقرے چسپاں کررہے ہیں کہ جہاز کریش ہوگیا‘ پائلٹ بچ گیا۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے نام ایک صفحہ پر محیط اپنے استعفیٰ میں جہانگیر ترین نے پوری کہانی بیان کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ”پاکستان کے سیاسی کلچر میں تبدیلی لانے کے لئے میں نے سیاست میں آنے کا فیصلہ کیا تھا تاکہ یہ ملک اقرباءپروری، بدعنوانی سے پاک ہو اور یہاں کے رہنے والوں کو مستقبل میں ایک بہتر پاکستان دیا جاسکے۔ کاشتکار اور پھر ایک کاروباری کے طور پر اپنے سفر زندگانی کے دوران مجھے احساس ہوا کہ جب تک پاکستان کی بنیادیں مافیا کلچر پر استوار رہیں گی اس وقت تک نہ تو یہ ملک خوشحال ہوگا اور نہ ہی پاکستان کی سیاسی بنیادیں ہی مضبوط ہوں گی۔“
عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے جہانگیر ترین نے خط میں کہا کہ ”آپ کی بصیرت افروز قیادت میں تحریک انصاف میں شمولیت اسی مقصد کے حصول کے لئے تھی۔ اس میں میری ذات سے متعلق کوئی مقصد پوشیدہ نہیں تھا۔ تحریک انصاف میں شامل ہونے کی واحد وجہ یہی تھی کہ پاکستان کو خوشحال، جدید، ترقی یافتہ اور بدعنوانی اور بے ایمانی سے پاک ملک بنایا جائے۔ مجھے خوشی ہے گزشتہ سالوں کے دوران مجھے آپ کا بے پناہ اعتماد اور بھروسہ حاصل رہا۔ یہ امر باعث مسرت ہے کہ تحریک انصاف کو ملک کی سب سے بڑی جماعت بنانے میں، میں نے اپنا حصہ ڈالا۔ یہ سب تحریک انصاف کے اندرون و بیرون ملک موجود لاکھوں‘ کروڑوں حامیوں کے اعتماد اور بھروسہ کی بدولت ممکن ہوا۔ میں لودھراں کے عوام کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے ہر مشکل مرحلہ پر میرا بھرپور ساتھ دیا‘ مجھ پر غیرمتزلزل اعتماد کرنے پر میں لودھراں کے عوام کا ہمیشہ احسان مند رہوں گا جو ہمہ وقت میرے ساتھ کھڑے رہے۔“ ترین نے استعفی میں لکھا ”جناب عالی، آپ کی قیادت میں تحریک انصاف کی کاوشوں کی بدولت پانامہ کیس نے پاکستان میں سیاسی تاریخ کو بدل کر رکھ دیا‘ جوابی وار کرتے ہوئے ”سٹیٹس کو مافیا“ نے آپ کے اور میرے خلاف بدنیتی پر مبنی ایک گھٹیا مقدمہ دائر کیا۔ عدالت عظمیٰ میں آپ اور میں نے جس انداز میں چھان پھٹک کے عمل کا سامنا کیا وہ بے مثال ہے۔ تحریک انصاف کے ہر حامی کو اپنی قیادت پر فخر ہونا چاہئے کہ وہ اس کڑے عمل سے صاف ہاتھوں کے ساتھ سامنے آئی اور اس پر کرپشن کا معمولی سا داغ، بدعنوانی یا کسی بھی قسم کا کوئی غیرقانونی عمل ثابت نہیں ہوا۔“ جہانگیر ترین رقم طراز ہیں”بدقسمتی سے عدالت عظمیٰ نے مجھے ایک قانونی اصطلاح کی تشریح کی بنیاد پر نااہل قرار دے دیا۔ مایوسی کا امر یہ ہے کہ پاکستان کی پارلیمان کے سب سے زیادہ ٹیکس دینے والے رکن کو ایک کمزور تکنیکی بنیاد پر نااہل قرار دے دیا گیا چونکہ عدالت عظمیٰ ملک کی سب سے بڑی عدالت ہے جس نے فیصلہ صادر کیا کہ میں رکن قومی اسمبلی کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریاں انجام دینے کا اہل نہیں لہذا میں اس فیصلے کے سامنے سرتسلیم خم کرتاہوں۔“مزید لکھتے ہیں”میں نے تمام عمر اصولوں اور اخلاقی قدروں پر گزاری ہے۔ اخلاقی طور پر میں محسوس کرتا ہوں کہ تحریک انصاف کے سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے کام جاری رکھنے کا میرے پاس جواز نہیں رہا۔ ان تمام بیان کردہ وجوہات کی بناءپر میں تحریک انصاف کے سیکرٹری جنرل کے عہدے سے ادب کے ساتھ اپنا استعفیٰ آپ کو پیش کررہا ہوں۔“ آخری پیراگراف میں جہانگیر ترین نے اپنی بات یوں ختم کی”میں پارٹی کے کارکن کے طور پر”نیا پاکستان“ بنانے اور ”سیاسی سٹیٹس کو“ توڑنے کی جنگ میں ہمیشہ آپ کے لئے حاضر رہوں گا‘آپ مجھے ہمیشہ ایک مخلص دوست پائیں گے‘ آپ کی دوستی اور قیادت ایک اثاثہ ہے‘ آپ کے لئے نیک تمناﺅں کے ساتھ مجھے امید ہے کہ میں آپ کو پاکستان کا آئندہ وزیراعظم دیکھوں گا۔“
یہ تھے جہانگیر ترین جنہوں نے باوقار انداز میں سپریم کورٹ کا فیصلہ تسلیم کیا ہے جو جناب نوازشریف سمیت تمام بے چین اور بے قرار لوگوں کے لئے ایک سبق اور قابل تقلید مثال ہے۔ سابق پولیس آفسر اللہ نواز خان ترین کے ساتھی ٹکا محمد خالد خاں ڈھلتی شب کے دوسرے پہر عہد قدیم کے عرب سرداروں‘ اپنے آباﺅاجداد جنگجو راجپوت سورماو¿ں کے قصے کہانیاں سنایا کرتے تھے تو کبھی کبھار اللہ نواز ترین کے بیٹے جہانگیر کی کہانی بھی چھیڑ دیا کرتے تھے جس نے کسان بن کر اپنی سلطنت کھڑی کردی تھی جو کومیلا مشرقی پاکستان میں پیدا ہوا تھا جو اب بنگلادیش بن چکا ہے۔ اب تو دور زوال کا یہ عالم ہے کہ جناب نواز شریف سپریم کورٹ کو معاف کرنے کے لئے تیار نہیں۔ فرماتے ہیں انصاف کے دو ترازو نہیں چلیں گے اور اس کے خلاف بھرپور تحریک چلائیں گے جبکہ قانون و آئین کی حکمرانی کے لئے جو کرنا پڑا کروں گا۔ نوازشریف نے عمران خان کی نااہلی سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے پر ردعمل میں کہا کہ مجھے کہا جارہا ہے کہ تنخواہ نہیں لی لیکن لاکھوں پاﺅنڈز کے کاروبار کو یہ اثاثہ نہیں کہہ رہے جبکہ میری خیالی تنخواہ کو انہوں نے اثاثہ مان لیا۔ انہوں نے کہا کہ پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ عمران اور جہانگیر ترین کے مقدموں میں مجھے ہی نااہل کیا جائے گا، جو فیصلہ کل آیا وہ خود اپنے منہ سے بول رہا ہے۔ نوازشریف کا کہنا تھا کہ انصاف کے دو ترازو نہیں چلیں گے اور نہ اس طرح کا انصاف پاکستان میں چلے گا، ہم اس کے خلاف بھرپور تحریک چلائیں گے جبکہ قانون اور آئین کی حکمرانی کے لئے جو کرنا پڑا کروں گا اور میری جدوجہد پاکستان میں قانون اور آئین کی حکمرانی کے لیے ہے۔ اسی طرح پارلیمان کے دونوں ایوانوں کے سربراہ سپیکر قومی اسمبلی جناب ایاز صادق اور پونی والے روشن خیال چیئرمین سینٹ رضا ربانی پارلیمان کے خلاف جاری خیالی سازشوں کے ڈھول بجائے جا رہے ہیں کہ پارلیمان اپنی آئینی مدت پوری نہیں کرسکے گی ان سے کوئی بھلا مانس پوچھنے والا نہیں کہ جس ایوان کی مدت ہی 100 دن بعد ختم ہونے والی ہو اس کے خلاف سازشوں کے ڈھنڈورے پیٹنا چہ معنی دارد؟؟ کوئی پوچھنے والا نہیں‘ کوئی آئینہ دکھانے والا نہیں عجب دورِ زوال ہے کوئی ایک بھی سچ بولنے والا نہیں! ٭