یوں تووطن عزیز کو ایک زرعی ملک قرار دیا جاتا ہے اس میں کوئی شک بھی نہیں کہ پاکستان دنیا کے ان چند اہم ملکوں میں سرفہرست ہے جو زرعی ملک ہونے کی وجہ سے خوشحالی اور آسودگی کی دولت سے مالامال ہے۔ ان کی زرعی معیشت اس قدر مضبوط ہے کہ ان کی برآمدات میں زرعی اجناس اور زرعی مصنوعات سرفہرست ہیں اور زرمبادلہ کے ذخائر زرعی دولت کے مرہون منت ہیں۔ زرعی ممالک کا کاشت کاروزمیندار نہ صرف خوش ہے بلکہ وہ زراعت کے سوا کچھ اور شعبہ کی طرف آنکھ بھی نہیں اٹھاتا۔ پاکستان کے چاروں صوبوں میں بیشتر آبادی کا انحصار زراعت پر ہے مگر یہ شعبہ گزشتہ کئی برسوں سے حکومتی عدم توجہی اور حکومت کی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے زبوں حالی کا شکار ہے۔پانی کی کمی، کھاد، کیڑے مار ادویات اور بیج کی ناقص کوالٹی زراعت کی زبوں حالی کی اہم وجوہات ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دیہی آبادی روزگار کی تلاش میں تیزی سے شہروں کی طرف منتقل ہو رہی ہے،ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود ہمیں دالیں، پیاز، ٹماٹر وغیرہ چین، ایران اور بھارت سے درآمد کرنا پڑتے ہیں۔ پاکستانی بھینسیں دنیا بھر میں مشہور ہیں۔ سائنسی انداز میں ڈیری فارمنگ کر کے ہم اپنی ضروریات پوری کر سکتے اور برآمد بھی کر سکتے ہیں مگر مسئلہ ترجیحات کا ہے اگر حکومتی اخراجات میں کمی کر کے زراعت پر توجہ دیں تو ہم بآسانی اس میں خودکفیل ہو سکتے ہیں۔ پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری اور شوگر مل انڈسٹری کا دارومدار بھی زراعت پر ہے۔ گندم کے بعد کپاس اورگنے کی فصل کاشت کاروں، زمینداروں کی اہم فصلیں ہیں۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے شوگر ملز ایسوسی ایشن کے ایک وفد سے ملاقات کے دوران چینی کی صنعت کو درپیش مسائل پر تبادلہ خیال کیا اور یقین دلایا کہ شوگر ملوں کو درپیش مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل کئے جائیں گے جبکہ شیڈول کے مطابق تمام شوگر ملوں کو اپنا کرشنگ سیزن کاآغاز کر دینا چاہیے تھا لیکن مالکان شوگر مل جن کی پنجاب میں اکثریت سیاستدانوں سے تعلق رکھتی ہے مجموعی طور پر چینی کی صنعت پر سیاستدانوں کی اجارہ داری ہے۔سندھ میں زیادہ تر شوگر ملیں آصف علی زرداری جبکہ پنجاب میں شریف برادران اور ان کے حواریوں کی ملکیت ہے۔ مسائل کا شکار تو گنے کے کاشت کار اور زمیندار ہیں ان کی گنے کی فصل ابھی تک کھیتوں میں کھڑی ہے حالانکہ گنے کی فصل کی کٹائی کے بعد کسانوں اور کاشت کاروں نے گندم کی کاشت کرنی ہوتی ہے،حکومتی پالیسی کے تحت ابھی تک کاشت کار گندم کی فصل کاشت نہیں کر سکے۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو اصل متاثرین جو گنے کے کاشت کار زمیندار اور کسان ہیں جو شوگر مل مالکان کی استحصالی سازشوں کا شکار ہیں اور اس قدر پریشان ہیں کہ انہیں اپنے مسائل کا کوئی حل نظر نہیں آتا۔ شوگر ملز مالکان نے ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت دونوں ہاتھوں سے گنے کے کسانوں، کاشت کاروں اور زمینداروں کو لوٹنے کے درپے ہیں ، حکمران اشرافیہ ان کے ساتھ ہے۔کسان بورڈ کے ڈویژنل صدر علی احمد گورایہ نے سیاستدانوں اور شوگر مل مالکان کی اس باہمی سازش کو بے نقاب کرتے ہوئے کاشت کاروں، کسانوں اور زمینداروں کا معاشی قتل قرار دیا ہے۔ کسان بورڈ کے اس اجلاس سے کسان رہنما¶ں چوہدری شوکت علی چدھڑ، ڈاکٹر عبدالجبار، مہر صفدر سلیم، سید ندیم حیدر شاہ، مہر حاکم خاں سیال اور مہر اکمل جو کہ فیصل آباد ڈویژن کے اضلاع کی نمائندگی کر رہے تھے انہوں نے اپنی تقاریر میں انتظامی افسران اور خصوصی طور پر ڈپٹی کمشنرز کے اس رویہ اوررجحان کی شدید مذمت کی نشاندہی کے باوجود گنے کے کاشتکاروں کو درپیش مسائل کے حل کی طرف کوئی توجہ نہیں دی اور گنے کے کاشت کاروں، کسانوں اور زمینداروں کو حالات کو رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے جبکہ کھاداور معیاری زرعی ادویات نہ صرف بلیک میں فروخت ہو رہی ہیں بلکہ کرپٹ مافیا ان کی پشت پناہی بھی کر رہا ہے۔ حکومت کی ناقص اور غیرموثر پالیسیوں کے باعث زراعت جو کہ ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کا درجہ رکھتی ہے آج تباہ حالی کا شکار ہے۔ اگر یہی صورت حال رہی تو گنے کے کسان اور کاشتکار یہ سوچنے پر مجبور ہو جائیں گے کہ گنے کی بجائے کسی دوسری فصل کی کاشت شروع کر دیں۔فیصل آباد ڈویژن کے ان کاشتکاروں، کسانوں اور زمینداروں کے اجلاس میں ایک دلچسپ اور حالات کا ماتم کرتی ہوئی قرارداد بھی منظور کی گئی کہ اگر حکومت، انتظامی افسران اور ڈویژنل کمشنر نے ان کو درپیش مسائل سے نجات دلانے میں کوئی پیش رفت نہ کی اور شوگر مل مالکان نے خودساختہ خسارہ کے نام پر کرشنگ سیزن شروع نہ کیا تاخیر در تاخیر کی پالیسی پر گامزن رہے تو تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق گنے کے کاشت کار اپنا گنا کاٹ کر ٹرالیوں میں ڈال کر لاہور وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ، ڈی سی دفاتر، سول سیکرٹریٹ اور لاہور کی مال روڈ پر پھینک کر احتجاجی آواز بلند کریں گے، تمام راستوں کو گنا پھینک کر بند کر دیں گے۔ہنزہ شوگرمل جھمرہ کی جانب سے نان ورائٹی کابہانہ بنا کر گنا80روپے فی من خریدنے پرگنے کے سینکڑوںکاشتکاروں نے ڈی سی آفس کے سامنے احتجاجی مظاہرہ اوردھرنادیا۔چک جھمرہ سے سینکڑوںکسان ٹریکٹرٹرالیوںپرضلع کونسل چوک پہنچے جہاں سے احتجاجی مظاہرے کی شکل میں ڈویژنل صدرعلی احمدگورایہ،نائب صدر رانا محمد خان ،تحصیل صدریٰسین کاہلوں،نیشنل لیبرفیڈریشن کے میاںاعجازحسین کی قیادت میں ڈی سی آفس کے سامنے پہنچ کر دھرنادیا ۔شرکاءمظاہرہ نے ڈی سی آفس کے سامنے شدیدنعرہ بازی کی۔مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے ڈویژنل علی احمدگورایہ نے کہاکہ ہنزہ شوگرمل کسانوں کااستحصال کررہی نان ورائٹی کابہانہ بناکر80روپے فی من کاشتکاروںسے گناخریدناکسانوںکامعاشی قتل عام کرنے کے مترادف ہے،انہوں نے مطالبہ کیاکہ گنے کی سرکاری نرخ180روپے فی من میںفروخت کویقینی بنایاجائے،ادائیگی15دن کے اندراندرکی جائے،سی پی آرجاری کی جائے،ناجائزطورپرکی جانیوالی کٹوتیاں بندکی جائیں،نان ورائٹی گنے کی قیمت کابھی سرکاری طورپرنرخ مقررکرنے اورہرمل میں مانیٹرنگ اورپرچیزنگ کمیٹی کی تشکیل دی جائے جس میں کسان بورڈکے نمائندگی دی جائے ۔انہوں نے کہاکہ اگرفوری طورہمارے جائزمطالبات منظورنہ کیے گئے توپنجاب اسمبلی کاگھیراﺅاوردھرنادیاجائے گاجس میں ڈویژن بھرسے ہزاروں کسان شریک ہوں گے۔بعدازاں اے ڈی سی محمدشاہد کے ڈویژنل صدرعلی احمدگورایہ سے ہونے والے مذاکرت میںیقین دہانی کروائی کہ اے سی تحصیل چک جھمرہ صبح آٹھ سے 9بجے تک ہنزہ شوگرمل میں موجودرہیں گی جہاں سے کسان سی پی آر اورپرمٹ حاصل کرسکیں گےماضی میں بھی ایک ایسا ہی دلچسپ احتجاج ہوا تھا کہ آلو جو ہماری خوراک کا ایک اہم جزو ہے۔ آلو کے کاشت کاروں نے حکومت کی عدم توجہی کے باعث جب مارکیٹ میں آلو کوڑیوں کے بھا¶ فروخت ہونے لگا تو کسانوں نے اپنی تمام فصل ٹرالیوں میں بھر کر مال روڈ پر پھینک دی تھی۔صوبائی اسمبلی کی عمارت سے لے کر مسجد شہداءتک آلو ہی آلود نظر آتے تھے اور انٹرنیشنل میڈیا نے آلو احتجاج کو بڑی اہمیت دی تھی۔آلو ایک ایسی سبزی ہے جس کو پوری دنیا نہ صرف کھاتی ہے اور چپس کی مختلف اقسام تیار کی جاتی ہیں۔ایسے محسوس ہوتا ہے کہ پہلے آلو احتجاج ہوا تھا اب گنا احتجاج ہو گا اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اگر حکومت طاقت سے اس احتجاج کو ناکام بنانے کی کوشش کرے گی تو پولیس کی لاٹھیوں کے جواب میں مظاہرین گنا فائر سے جواب دیں گے، پولیس والے مظاہرین پر قابو پانے کی بجائے گنے چوستے ہوئے نظر آئیں گے جبکہ کسان بورڈ کے ڈویژنل صدر علی احمد گورایہ نے حکومت پنجاب کے وزیراعلیٰ میاں محمد شہبازشریف، وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور مسلم لیگ(ن) کے سربراہ میاں محمد نوازشریف سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنی حکومت کے ذمہ داروں کو ہدایت جاری کریں کہ وہ شوگر مل مالکان سے فوری طور پر شوگر ملیں چالو کروائیں بصورت ان کے لائسنس منسوخ کر دیئے جائیں کیونکہ کسانوں کی سال بھر کی کمائی کھیتوں میں پڑی رل رہی ہے۔ شوگر مافیا اربوں روپے سے اپنی تجوریاں بھی بھر رہا ہے اور نام نہاد خسارہ کے نام پر مگرمچھ کے آنسو بھی بہا رہا ہے۔علی احمد گورایہ نے سوال کیا کہ اگر شوگر ملیں خسارہ میں جا رہی ہیں تو شوگر مافیا جگہ جگہ نئی شوگر ملیں کیوں لگا رہے ہیں۔ شوگر مل مالکان کے استحصالی حربوں کا یہ عالم ہے کہ نہ صرف گنے کے کاشتکاروں اور کسانوں کو بروقت ادائیگی نہیں کرتے بلکہ کاشت کاروں کی گنے سے بھری ٹرالیاں کئی دنوں تک گیٹ پر کھڑا رکھتے ہیں تاکہ گنے کے وزن میں کمی آئے اور پھر کٹوتی بھی کرتے ہیں۔ گنے کے کاشت کاروں کو شوگر مل مافیا کے استحصال سے نجات دلانے کے لئے گنے کے کاشت کاروں سے گنے کی خریداری کے لئے نئی پالیسی واضح کرنے کی ضرورت ہے جس طرح محکمہ خوراک گندم کے کاشت کاروں سے گندم خریدتا ہے اور حکومت گندم کا ہر سال ریٹ مقرر کرتی ہے ایسے ہی گنے کے کاشت کاروں سے ان کے گنے کی خریداری محکمہ زراعت کے سپرد کی جائے اور ہر شوگر زون میں گنے کی فروخت کے مراکز قائم کئے جائیں جیسے گندم کے کاشت کاروں اورکسانوں کو موقع پر ادائیگی کی جاتی ہے ایسے ہی گنے کے کاشت کاروں کو موقع پر ادائیگی کی جائے اور گنا محکمہ زراعت شوگر ملوں کو فراہم کرے۔ اس سے شوگر مل مالکان تو مہینوں ادائیگی نہیں کرتے اس سے نجات حاصل ہو جائے گی۔ کسان بورڈ کے ڈویژنل صدر علی احمد گورایہ نے وارننگ دی ہے کہ اگر حکومت نے شوگر ملوں کو چالو نہ کرایا تو کسان ہر ضلع میں ڈی سی آفس کے سامنے دھرنا دیں گے اور مرکزی دھرنا مارچ کرتے ہوئے وزیراعلیٰ کے دفتر کے سامنے بھی دھرنا دیں گے۔ فیصل آباد ڈویژن کے کمشنر مومن آغا کو اس وارننگ کا نوٹس لیتے ہوئے وزیراعلیٰ کو صورت حال سے آگاہ کرنے کی ضرورت ہے کہ چنگاری چنگاری ہی رہے کہیں شعلہ نہ بن جائے، اگر شعلہ تک نوبت پہنچی تو پھر آگ لگے گی۔