گل داﺅدی اور خزاں کے پھولوں کی ......تین روزہ نمائش

Dec 18, 2017

احمد کمال نظامی

احمد کمال نظامی

رنگوں اور خوشبو¶ں کے ساتھ انسان کا رشتہ صدیوں پرانا ہے۔ موسموں کی آمیزش سے جب زمین پر اس کے اثرات سامنے آتے ہیں تو فطرت ان کا اظہار کبھی پھولوں اور خوشبو¶ں کے ذریعے کرتی ہے جبکہ کبھی کبھار ٹھٹھرتی ہوئی شاموں کی سرد ہوا¶ں کی وجہ سے درختوں کے دامن میں رنگ برنگے خشک پتے بکھرے دکھائی دیتے ہیں۔فطرت کے یہ مناظر انسان کو ایک تو بدلتے ہوئے موسموں کا پتہ دیتے ہیں,ان کے ذریعے اندر کے احساسات اور جذبات کو ایک نئی سوچ، ایک نئی جہت عطا ہوتی ہے۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انسان نے ان رنگوں کو مختلف طریقے سے یکجا کر کے اسے دیکھنے والوں کے لئے نمائشی اور آرائشی رنگ دینا شروع کر دیا۔ جب یہ رنگ اپنے عروج پر پہنچے تو آرائش گل کا ایک نیا کلچر وجود میں آیا۔یہی وجہ ہے کہ ہمیں مختلف مواقع پر پھولوں کی نمائش کے دلفریب مناظر دکھائی دیتے ہیں۔ زرعی یونیورسٹی فیصل آباد زراعت میں ترقی کیلئے جدتیں متعارف کروانے کے ساتھ ساتھ شہریوں کی تفریح طبع کیلئے بھی ایسے پروگرام منعقد کرواتی رہتی ہے جن کے ذریعے لوگ معاشرتی مسائل اور نفسیاتی اُلجھنوں کو بھول کر دوبارہ زندگی کی خوبصورتیوں کا رخ کرتے ہیں۔ یونیورسٹی سال میں کسانوں اور شہریوں کیلئے جہاں جشن بہاراں اور خریف میلہ کے ذریعے نیزہ بازی‘ ہارس و کیٹل شو‘ گوٹ شو‘ فینسی برڈز شو اور ٹیکنالوجی نمائش کا انعقاد کرتی ہے وہیں بہار اور خزاں کے پھولوں کی نمائش بھی ان تقریبات کا باقاعدہ حصہ ہوتی ہے۔ جن میں عام شہریوں کے ساتھ ساتھ شہر کے تعلیمی و تحقیقی اور صنعتی اداروں کی طرف سے پھولوں کو خوبصورت پیرہن عطاءکرتے ہوئے سلیقے اور ترتیب سے سجایا جاتا ہے۔ زرعی یونیورسٹی فیصل آباد میں پاکستان سوسائٹی فار ہارٹیکلچرل سائنسز کے زیراہتمام موسم خزاں کے پھولوں خصوصاً گل داﺅدی کی تین روزہ نمائش منعقد ہوئی۔ جس میں انسٹی ٹیوٹ آف ہارٹیکلچرل سائنسز کے نوجوان طلبہ و طالبات اور شہر کے تعلیمی اور صنعتی اداروں کی طرف سے خزاں کے پھولوں کے خوبصورت سٹالز لگائے گئے۔ تین روزہ نمائش کاافتتاح یونیورسٹی کے وائس چانسلرپروفیسرڈاکٹر محمد اقبال ظفر نے ڈین کلیہ زراعت پروفیسرڈاکٹر محمد امجد اولکھ‘ ڈائریکٹر انسٹی ٹیوٹ آف ہارٹیکلچرل سائنسز ڈاکٹر امان اللہ ملک‘ ڈین اُمور حیوانات ڈاکٹر سجاد خان‘ ڈین کلیہ فوڈ نیوٹریشن و ہوم سائنسز ڈاکٹر مسعود صادق بٹ اور آرگنائزر ڈاکٹر افتخار احمد ‘انچارج گارننگ برانچ ڈاکٹر رائے محمد آصف اور محسن مجید کے ہمراہ کیا۔ انہوں نے پھولوں کی نمائش کو شہریوں کیلئے تفریح طبع کے خوبصورت موقع سے تعبیر کرتے ہوئے کہا کہ ایسے صحت مند اور خوبصورت مقابلوں کے ذریعے نوجوانوں میں مسابقت کا رجحان پیدا ہوتا ہے اور معاشرتی ناہمواریوں کے باوجود مسکراتے ہوئے آگے بڑھنے کا راستہ میسرآتا ہے۔انہوں نے کہاکہ پھول اپنے خوبصورت رنگوں اور حسن ترتیب سے دیکھنے والوں کو متاثر کرتے ہیں جنہیں دیکھ کر انسان اپنے غم بھلا کر اللہ تعالیٰ کی تخلیقات کی تعریف کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ پھول ہمیشہ اپنے اندر امن‘ پیار‘ محبت اور تازگی کا احساس لئے ہوتے ہیں جنہیں دیکھ کر خزاں میں بھی بہار کا احساس ہوتاہے۔ نمائش میں گل داﺅدی کے ساتھ ساتھ کٹ فلاور‘ ہاﺅس پلانٹس‘ لان کی سجاوٹ‘ پینٹنگ‘ فوٹو گرافی‘ فلاورارینج منٹ ‘ فروٹ و ویجی ٹیبل آرٹ کوخوبصورت ترتیب کے ساتھ سجایا گیا تھا۔ پھولوں کی اس نمائش کے ذریعے یونیورسٹی نے شہریوں کے ساتھ ساتھ ہارٹیکلچر اور فلوریکلچرمیں زیرتعلیم طلباءو طالبات کو ایسا پلیٹ فارم مہیا کرتی ہے جس کے ذریعے انہیں مارکیٹ کے جدید رجحانات ‘پھولوں کی دیکھ بھال‘ نگہداشت ‘ برداشت‘ ہینڈلنگ اور ٹرانسپورٹیشن سمیت انہیں زیادہ دیر تک خوشبو اور تازگی کے ساتھ محفوظ رکھنے کے حوالے سے بہت کچھ جاننے کا موقع ملتا ہے۔ایسی تقریبات کے ذریعے ایک طرف شائقین کوایک ہی تقریب میں پھولوں‘ پودوں کی دل آویز ترتیب و تشکیل سے روشناس ہونے کا موقع میسر آتا ہے تو دوسری جانب شعبہ باغات اور فلوریکلچر کے ماہرین کے لئے نئے امکانات کو بھی وقوع پذیر کرنے کا ایک ذریعہ بنتا ہے۔خصوصی طور پر اعلیٰ تعلیم کے اداروں میں جس عملی تربیت کا اہتمام ہونا چاہیے اس کے تناظر میں طلباوطالبات کے لئے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کے بل بوتے پر پھولوں اور اس سے وابستہ برگ وبار کے ذریعے نئے تھیم اور نئے تخیلات وجود میں لانے کا ایک منفرد پلیٹ فارم بھی میسر آتا ہے۔اس نمائش کے ذریعے پھولوں کی مختلف اقسام میں دلچسپی رکھنے والے لوگوں کو ان کے بارے میں جاننے اور مزید تحقیق کرنے کا موقع بھی ملتا ہے۔اس نمائش کا مقصد معاشرے میں پائی جانے والی ناہمواریوں اور بدصورتیوں کے مقابلے میں رنگوں اور خوشبو¶ں سے سجے ہوئے ایک ایسے منظرنامے کو تشکیل دینا ہے جسے دیکھ کر ہر ذہن تروتازہ اور ہر دل خوشیوں سے بھرپور دکھائی دیتا ہے۔نمائش میں یونیورسٹی کے طلباوطالبات کے علاوہ شہر بھر سے آئے ہوئے خواتین و حضرات اور بچوں نے بھی بھرپور فائدہ اٹھایا،اپنے کیمروں کے ذریعے پھولوں کے یہ رنگ اپنی تصویروں کے ساتھ محفوظ کر لئے۔ ان خزاں کے موسموں میں کھلنے والے پھولوں کے بارے میں اگر ایک طائرانہ جائزہ لیا جائے تو سینٹی فولیا گلاب کے حوالے سے اکٹھے کئے گئے اعدادو شمار میں بتایا گیا ہے کہ اس کے پودے کی نومبرسے جنوری تک قلمیں لگائی جاتی ہیں جبکہ درمیانے سائز کا پوداپچیس سے تیس پتیوں کا خوشبودار پھول پیدا کرتا ہے ۔ سارا سال پھول دینے والے اس پودے پر بیماری کے خلاف بہترقوت مدافعت پائی جاتی ہے۔اس کا ہر پودا سال میں 500سے 700پھول دیتا ہے،یہ عمل آٹھ سے دس سال تک جاری رہتا ہے۔ ایک ایکٹر میں تقریباً پانچ ہزار پودے لگائے جاسکتے ہیں ،فی پودا کم از کم ایک کلو سالانہ پھول حاصل ہوتے ہیں۔اس طرح گلاب کی کاشت سے فی ایکٹر سالانہ سوا لاکھ تا ڈیڑھ لاکھ آمد ن ہوتی ہے۔اگر گلاب کی پتیوں سے مختلف مصنوعات بنا کر فروخت کی جائیں تو اسی منافع کو دو تا چار گنا بڑھایا جا سکتا ہے۔زرعی یونیورسٹی نے وفاقی وزارت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے مالی تعاون سے یونیورسٹی میں پھولوں سے عطر کشید کرنے کے حوالے سے ایک ایسی منفرد اور جدید ٹیکنالوجی متعارف کروائی ہے جس سے نہ صرف گلاب بلکہ موتیا‘ مروا‘ نرگس ‘ گیندے‘ چنبیلی‘ ادرک‘ لہسن‘ ہلدی‘ مرچوں‘ پودینے ‘گرم مصالحوں اور ہربل ادویات کی تیاری کیلئے بھی عطر اور عرق کشید کیا جاسکتا ہے جس سے ان اشیاءکی تازگی اورخوشبو اسی طرح برقرار رہتی ہے ۔اس سپرکرٹیکل فلیوڈ ایکسٹریکشن ٹیکنالوجی کی خصوصیت یہ ہے کہ امریکہ اور فرانس میں بھی پھولوں سے عطر نکالنے کیلئے یہی ٹیکنالوجی استعمال کی جا رہی ہے۔ یہ اپنی نوعیت کی واحد ٹیکنالوجی ہے جس کے ذریعے ایک مخصوص درجہ حرارت اور پریشر پر کاربن ڈائی آکسائیڈ کے پیتوں کے گزرنے سے عطر کشید کیا جاتا ہے جو تمام کیمیائی اجزاءسے پاک ہوتا ہے،دنیا میں کہیں بھی آسانی سے برآمد کیا جا سکتا ہے۔ مستقبل قریب میں گلاب کے علاوہ دوسرے پھولوں مثلاً موتیا، چنبلی، مروا وغیرہ سے بھی اس ٹیکنالوجی کے ذریعے عطر کشید کیا جائے گا جو نہ صرف طلبا ءکی ٹریننگ کیلئے استعمال ہو گا بلکہ کسانوں کی آمدن بڑھانے کا بھی موجب ہو گا،ملکی زرمبادلہ بھی بڑھانے میں اہم کردار ادا کرے گا۔ گلاب کے تیل کی سب سے بڑی منڈی فرانس‘ بلغاریہ‘ جاپان ‘ جرمنی اور امریکہ ہیں جہاں عطرکی کھپت15-20ملین ٹن سالانہ ہے لہٰذا عطر کی مناسب قیمت پر منڈیوں میں فراہمی سے یہ منصوبہ پایہ تکمیل کو پہنچ سکتا ہے اس لئے ہمیں برآمدی کوالٹی کا تیل پیدا کرنے کیلئے کوششیں کرنی چاہئیں۔ایسی نمائشوں سے فطرت اور قدرت کے خوبصورت رنگوں،خوشبو¶ں سے لطف اٹھانے کے ساتھ ساتھ کاروباری مواقع کو بھی فروغ دیا جا سکتا ہے۔

مزیدخبریں