آئی ایم ایف نے بیل آﺅٹ پیکج پر حکومت سے ٹیکس آمدن کو بڑھانے سے متعلق مزید اقدامات کا مطالبہ کیا ہے۔ ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف نے حکومت سے رواں مالی سال کے دوران ایک سو ساٹھ ارب روپے کے نئے ٹیکسز کے اقدامات کا تقاضہ کیا ہے تاکہ مالیاتی فریم ورک کو مستحکم کیا جاسکے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ عالمی مالیاتی ادارے کو صرف اپنے قرض اور اس پر لاگو ہونے والے سود کی وصولی سے سروکار ہوتا ہے جس کے لئے وہ متعلقہ ملک کے مالیاتی اور اقتصادی نظام میں اصلاحات کےلئے ایسے تقاضے کرنے سے بھی گریز نہیں کرتا جس پر عملدرآمد کی صورت میں ملک کے عوام کے تن پر چاہے کوئی ایک کپڑا بھی باقی نہ رہے اور چاہے وہ عملاً زندہ درگور ہی کیوں نہ ہو جائیں۔ یہ تو متعلقہ ملک کے حکمرانوں کی بصیرت کا امتحان ہوتا ہے کہ وہ آئی ایم ایف کی قومی خودداری کے تقاضوں کے منافی شرائط قبول کرے یا اپنے وسائل پر انحصار کر کے ملک اور عوام کو آئی ایم ایف کے ناروا قرضوں کے چنگل سے باہر نکال لائے۔ اس معاملہ میں ہمارے سابقہ حکمرانوں فہم و دانش کا مظاہرہ نہیں کیا تو آج پی ٹی آئی کی حکومت تو بڑے بڑے عالی دماغوں کی ٹیم پر مشتمل ہے۔ خود وزیراعظم عمران خاں بھی سابق حکمرانوں کے کشکول اٹھانے کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں، خوش قسمتی ہے ان کی اور ان کی ٹیم کی کاوشوں سے حکومت کو سعودی عرب، چین، یو اے ای سے بہت جاندار مالی سپورٹ بھی حاصل ہو گئی ہے جو حکومت کی کشکول توڑنے کے معاملہ میںممدو و معاون ہو سکتی ہے۔ تاہم حکومت آج بھی آئی ایم ایف کے قرضوں کے لئے گو مگو کی کیفیت میں مبتلا نظر آتی ہے۔ وزیرخزانہ ایک دن آئی ایم ایف کو جواب دیتے نظر آتے ہیںتو اگلے دن قرضوں کے لئے آئی ایم ایف کے پاس جانے کی مجبوری کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں۔ اصولی طور پر تو اب حکومت کو آئی ایم ایف کے پاس جانے کی کوئی مجبوری لاحق نہیں ہونی چاہئے اور اسے آئی ایم ایف کی ہر شرط قبول کرنے سے آبرومندی کے ساتھ معذرت کر لینی چاہئے تاہم حکومت کی جانب سے نئے ٹیکسوں اور بجلی ، گیس، پٹرول کے نرخوں میں اضافے کے جتنے بھی اقدامات اٹھائے گئے ہیںوہ آئی ایم ایف کی شرائط قبول کرنے کا ہی عندیہ دیتے ہیں، حکومت کو آئی ایم ایف کے قرضوں کے بارے میں کوئی واضح پالیسی اختیار کرنی چاہئے اور عوام کے روز افزوں مسائل کو بہرصورت پیش نظر رکھنا چاہئے جوپہلے ہی بدترین مالی مسائل اور اقتصادی بدحالی کا شکار ہیں۔