آرمی پبلک سکول پشاور پر دہشت گردوں کے حملے کو 4 سال مکمل ہونے پر ملک بھر میں دعائیہ تقاریب منعقد کی گئیں‘ یادگار شہدا پر فاتحہ خوانی کی گئی اور شمعیں روشن کی گئیں۔صدر مملکت عارف علوی نے یوم شہدا اے پی ایس کے موقع پر اپنے پیغام میں کہا کہ معصوم طلبہ اور اساتذہ کی قربانی نے قوم کو بیدار اور متحد کیا۔ وزیراعظم عمران خان نے اپنے پیغام میں کہا کہ 16 دسمبر کا دن ہمیں تاریخ کے سیاہ دن کی یاد دلاتا ہے جب دہشت گردوں نے انسانیت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے بچوں کو نشانہ بنایا اور پوری قوم کوغم میں مبتلا کر دیا تاہم اس واقعہ نے قوم میں دہشتگردی کے خلاف وحدت کو جنم دیا اور افواج پاکستان قوم کی حمایت سے دہشتگردوں کو شکست دے کر انجام تک پہنچا رہی ہے۔سانحہ اے پی ایس پشاور میں بچھڑ جانیوالوں کی یاد ہمیشہ موجود رہے گی۔ معصوم جانوں نے لہو کا نذرانہ دیکر قوم کو سفاک دشمن کےخلاف متحد کیا۔ دنیا کی اس جنگ میں ہماری افواج اور نہتے شہریوں نے بھاری قیمت ادا کی۔ انتہا پسندی اور تشدد کو کسی صورت برداشت نہیں کیا جائےگا۔ دہشت گردی کا خاتمہ کردینگے۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ حکومت نیشنل ایکشن پلان پر عملدر آمد کےلئے پر عزم ہے۔ ہر قسم کی دہشت گردی ، تشدد اور نفرت کے خاتمے کا عہد کرتے ہیں۔ دریں اثناءآرمی پبلک سکول پشاور کے شہداءاور غازیوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے آرمی پبلک سکول پشاور میں پروقار تقریب کا انعقاد کیا گیا۔ پاک فوج کے دستے نے شہدا ئے پی ایس کو سلامی پیش کی۔ گورنر خیبر پختونخواہ شاہ فرمان نے یادگار شہداءپر پھولوں کی چادر چڑھائی۔ اس موقع پر گورنر شاہ فرمان نے کہا کہ پوری قوم شہدا اے پی ایس کے رشتہ داروں کے شانہ بشانہ کھڑی ہے۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے آرمی پبلک سکول کے شہداء‘انکے والدین اور غازیوں کو سلام پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ قوم نے ہمیشہ بہادری سے چیلنجوں کا مقابلہ کیا ہے۔ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں ہم نے بھاری قیمت ادا کی ہے۔ پاکستان کو آگے لے جانے کیلئے ہمیں متحد اور پر عزم رہنا ہوگا۔ پاکستان کی اصل منزل امن خوشحالی ہے۔ ڈی جی ائی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے اپنے ٹویٹر پیغام میں کہا کہ ہم ایک پر عزم قوم ہیں، ہمارے دشمن کبھی کامیاب نہیں ہونگے، قومیں جدوجہد اور یقین محکم سے کامیاب ہوتی ہیں، امن خوشحالی کے اہداف حاصل کرکے رہیں گے۔
16 دسمبر 2014ءکو دہشت گردوں نے سفاکیت اور بربریت کی انتہاءکر دی تھی۔ قبل ازیں جون میں دہشت گردوں کے ساتھ مذاکرات کے امکانات کو رد کرتے ہوئے اپریشن ضرب عضب کا آغاز کردیا گیا تھا۔ 16 دسمبر کو اے پی ایس پر حملے کے بعد اس اپریشن میں تیزی لائی گئی۔ دہشت گردوں کی سزائے موت پر عمل کئی سال سے معطل تھا جس سے انکے حوصلے بڑھے ہوئے تھے۔ ایک حکومتی حلقہ انکے ساتھ مذاکرات کا حامی تھا مگر 16 دسمبر کو اساتذہ عملے اور طلبہ سمیت ڈیڑھ سو کے لگ بھگ معصوم اور نہتے لوگوں کو شہید کردیا۔ اس سفاکیت کے بعد انکے ساتھ مذاکرات کی سوچ ختم اور پوری قوم کالعدم ٹی ٹی پی کی دہشت گردی کے خاتمے پر متحد ہو گئی۔ سزائے موت پر عمل کا تعطل ختم کرکے سزائے موت کے قیدیوں کو ضوابط کی کارروائیاں مکمل کرکے پھانسیاں دی جانے لگیں۔ موت کا خوف بھی دہشت گردی میں کمی کا ایک سب ضرور بنا۔ پراسیکیوشن اور عدالتی فیصلوں پر دھمکیوں کے ذریعے اثرانداز ہونے کی کوششیں تو عرصہ سے ہو رہی تھیں۔ تاہم متعلقہ اداروں کے دلیر افسروں اور نڈر ججوں ہی نے دہشت گردوں کو موت و قید کی سزائیں سنائی تھیں۔ ایسا بھی ہوا کہ کچھ لوگ مصلحتوں کا شکار ہوئے۔ پاک فوج دہشت گردی کے خاتمے کیلئے اپنی جان پر کھیل رہی ہے۔ عدالتی نظام اور پراسیکیوشن کی کمزوریوں کے باعث کچھ دہشتگردوں کو ریلیف بھی ملا۔ پاک فوج نے حکومت کو فوجی عدالتیں قائم کرنے کی تجویز دی۔ پارلیمان میں بحث و تمحیص کے بعد فوجی عدالتوں کا قیام عمل میں آیا جس کی توثیق سپریم کورٹ نے بھی کی۔ ان عدالتوں کی کارگزاری مناسب اور اطمینان بخش رہی۔ یہ عدالتیں دہشت گردوں کا قانون کے مطابق گلا ناپ رہی ہیں۔
گزشتہ روز آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے پندرہ خطرناک دہشت گردوں کی سزائے موت کی توثیق کی۔ یہ دہشت گرد کرسچین کالونی پشاور حملے، تعلیمی اداروں کی تباہی، قانون نافذ کرنےوالے اداروں اور معصوم شہریوں کے قتل میں ملوث تھے۔ ان دہشت گردوں کی کارروائیوں کے دوران مسلح افواج کے اکیس اور ایف سی کے نو اہلکاروں سمیت 34 افراد شہید ہوئے۔ فوجی عدالتوں نے بیس دہشت گردوں کو قید کی سزا بھی سنائی۔ ملٹری کورٹس کے قیام سے اب تک سزا پانے والے افراد کے اعداد و شمار اور ان پر الزامات کی تفصیلات جاری کی گئی ہیں جن کے مطابق اب تک وفاقی حکومت نے 717 دہشت گردی کے مقدمات ان کو بھیجے۔ 546 مقدمات کو انجام تک پہنچایا گیا۔ ملٹری کورٹس نے 310 دہشت گردوں کو موت کی سزا سنائی۔ 234 مقدمات میں 5 سال سے عمر قید تک کی سزائیں سنائی گئیں۔ سزائے موت کے 310 میں سے 56 دہشت گردوں کو قانونی عمل مکمل کرکے پھانسی دی گئی۔ باقی 254 موت کی سزا پانے والے دہشتگردوں کو قانونی عمل مکمل ہونے پر پھانسی دی جائیگی۔ سزائے موت پانے والے 254 دہشت گردوں کی اپیلیں مختلف عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔ سزائے موت پانے والوں میں اے پی ایس پشاور پر حملہ میں ملوث پانچ دہشت گرد بھی شامل ہیں۔
پاکستان سے دہشت گردی کا خاتمہ کرنے کیلئے پاک فوج حکومت اور قوم متحد اور ایک پیج پر ہے۔ اپریشن ضرب عضب کے آغاز پر پورا ملک دہشت گردی کی لپیٹ میں تھا۔ اس دور کا آج سے موازنہ کیا جائے تو زمین آسمان کا فرق نظر آئیگا۔ مگر دہشت گردوں کا ہنوز مکمل قلع قمع نہیں ہو سکا۔ آخری دہشت گرد کے خاتمے اور انکے سہولت کاروں کے وجود سے ملک کو پاک کرنے سے ہی دہشت گردی کے مکمل خاتمے کی منزل حاصل کی جاسکتی ہے۔ اس کیلئے اندرونی کے ساتھ ساتھ بیرونی محاذوں پر بھی کڑی نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ دہشت گردی کے خاتمے کیلئے سہولت کاروں کے حوالے سے زیروٹالرنس پالیسی اختیار کی جائے۔ جرائم میں سزا کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ شک کی بنیاد پر دس مجرموں کو چھوڑا جا سکتا ہے۔ کسی ایک کو بھی شک پر سزا نہیں ہونی چاہیے۔ دہشت گردی کے حوالے سے اسکے برعکس پالیسی اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ شک کی بناءپر دہشت گردوں اور انکے سہولت کاروں کو پکڑا جانا ضروری ہے۔ کسی ایک کو بھی شک کا فائدہ دیکر رہا کرنا دہشت گردی کو فروغ دینے کے مترادف ہے۔ شک کی بناءپر پکڑے جانے والوں کو ان کیخلاف کوئی ثبوت نہ ملنے ہی پر رہا کیا جائے۔ سہولت کاروں پر ہاتھ ڈالنے اور ان کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کیلئے نیشنل ایکشن پلان میں تبدیلی کی ضرورت ہو تو ضرور کرلینی چاہیے۔ کچھ افغان مہاجرین بھی سہولت کاری اور دہشت گردی میں ملوث پائے گئے ہیں۔ انکی واپسی تو جب بھی ہو‘ انکی نقل و حمل محدود کرنے کی ضرورت ہے۔ گو یہ ایک مشکل مرحلہ نظر آتا ہے مگر ادارے عزم و ارادہ کرلیں تو قطعی مشکل نہیں۔ حکومتی رٹ کے سامنے کسی کی بھی کوئی حیثیت نہیں اس کو چیلنج کرنیوالوں کو سرحد پار دھکیلا جا سکتا ہے۔
بھارت ہمارا کھلا دشمن ہے‘ افغانستان کے حکمران اسکی کٹھ پتلی کا کردار ادا کرتے چلے آرہے ہیں۔ بھارت کے ایماءپر کم و بیش اڑھائی ہزار کلو میٹر سرحد کو انہوں نے غیرمحفوظ بنا دیا ہے۔ سرحد پار سے پاکستانی چوکیوں پر حملے ہوتے ہیں۔ دہشت گرد پاکستان میں گھس کر بھی کارروائیاں کرچکے ہیں۔ بھارت افغان سرزمین پاکستان میں مداخلت کیلئے استعمال کرتا آرہا ہے۔ اسکے ناقابل تردید ثبوت اقوام متحدہ اور امریکہ کے سامنے رکھے جاچکے ہیں مگر اس پر کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ اسلامی اخوت کا تقاضا تھا کہ پاکستان اور افغانستان سرحد کو مل کر محفوظ بناتے مگر افغان حکمران ذاتی مفادات کے اسیر بن کر بھارتی مفادات کو پاکستانی مفادات پر ترجیح دیتے ہیں۔ ایسے میں حد بندی پر دیوار کی تعمیر اور آہنی باڑ کی تنصیب ہی پاکستان کے پاس ایک حل تھا۔ یہ سلسلہ اب آخری مراحل میں ہے۔ افغان حکمران پاکستان سے دہشت گردوں کی آمد کا الزام لگاتے ہیں۔ باڑ لگ جاتی ہے تو انکے سرحد پار سے دہشت گردی کے داخلے کے تحفظات دور ہو جائینگے مگر افغانستان بھارت کے ایماءپر باڑ کی سخت مخالفت کررہا ہے۔ پاکستان بہرحال باڑ کی تنصیب میں پرعزم ہے اور کسی دباﺅ کو خاطر میں لانے کیلئے تیار نہیں ہے۔ ایران بارڈر دہشت گردی کے خطرات سے پاک رہا ہے۔ مگر بھارت کے ایران میں عمل دخل اور چاہ بہار پورٹ میں حصہ دار بننے کے بعد پاک ایران سرحد بھی غیرمحفوظ ہورہی ہے۔ کلبھوشن سرحد پار کرکے پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث رہا۔ دو روز قبل ایران سے 35 دہشت گردوں نے ایف سی جوانوں پر فائر کھول دیا جس سے 6 اہلکار شہید ہوگئے۔ جوابی فائرنگ میں چار دہشت گرد بھی جہنم واصل ہوئے۔ انکی لاشوں کی شناخت سے ایران دہشت گردوں کے گروہوں اور ماسٹر مائنڈ تک پہنچ سکتا ہے۔ خطے میں بالعموم اور پاکستان میں بالخصوص دہشت گردی کے خاتمے کیلئے بھارت کا افغانستان اور ایران سے عمل دخل ختم کرانا ہوگا۔ اس کیلئے پاکستان کو تمام ممکنہ ذرائع استعمال کرنا ہونگے۔ خطے کے بااثر ممالک اور بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنے والے مسلم ممالک کے ذریعے اس پر دہشت گردی کیلئے ایران اور افغانستان کی سرزمین استعمال کرنے سے باز رہنے کیلئے دباﺅ ڈلوایا جا سکتا ہے۔ او آئی سی بھارت کا بائیکاٹ کردے تومثبت نتائج کی امید کی جا سکتی ہے۔
دہشت گردی کا بڑا ذمہ دار بھارت ‘ اس کا ایران افغانستان سے عمل دخل ختم کرانا ہوگا
Dec 18, 2018