چیف جسٹس آف پاکستان نے تھر کا دورہ کیا تو اس کے نتائج و عواقب پر غور کے لئے پالیسی ریسرچ کونسل کا ہنگامی اجلاس ہوا، لاہور چیمبر کے سابق صدر اور چیمبر کی واٹر کمیٹی کے چیئر مین سینیٹر ظفراقبال مہمان خصوصی تھے۔کسٹمز ہیلتھ کیئر پاکستان کے سربراہ اور محکمہ کسٹمز کے کلکٹر ڈاکٹر آصف جاہ، واٹر سیکورٹی پر پی ایچ ڈی کرنے والی ڈاکٹرزینب احمد اور ڈاکٹر محمود شوکت جائزہ پینل میں شامل تھے،۔ ڈاکٹر آصف جاہ نے اپنے تجربات پر مبنی پر مغز تقریر کی، ان کا کہنا تھا کہ مٹھی کے جس ہسپتال کا چیف جسٹس نے معائنہ کیا ، اسے وقتی طور پر سجا دیا گیا تھا اور جونہی چیف جسٹس وہاں سے رخصت ہوئے تو سارا سامان وہاں سے ا ٹھا لیا گیا۔ ڈاکٹر جاہ نے بتایا کہ مٹھی کے ہسپتال میں آپریشن تھیٹر موجود ہے مگر سرجری کے انتظامات نہیں ہیں ۔ ڈاکٹر آصف جاہ نے اپنے دورے میں ضروری اسٹاف کا بند وبست کر کے وہاں آنکھوں کے کئی آپریشن کئے، ڈاکٹر آصف جاہ سے سوال کیا گیا کہ آپ کی تما م تر کاوشوں کے باوجود تھر میں بچوں کی ہلاکت کا سلسلہ رکتا کیوںنہیں، انہوںنے بتایا کہ ہم لوگ پچھلے چندبرسوں میں تھر کے مختلف علاقوں میں ساڑھے پانچ سو میٹھے پانی کے کنوئیں کھود چکے ہیں، اب ہم نے سولر پینل کی مدد سے آبپاشی کا مستقل نظام بھی تشکیل دیا ہے اور پانچ پانچ ایکٹر کے گرین ہائوس کا تجربہ کامیاب رہا ہے، یہاںسیارد گرد کے علاقے میں سبزیاں اور گندم فراہم کی جاتی ہے ۔ ہم نے ڈسپنسریاں بھی قائم کی ہیں جہاں ہمہ وقتی اسٹاف بھی موجود ہے اوراسکول بھی کھولے گئے ہیں جن میں مقامی استادوں کا تقرر کیا گیا ہے۔ان تمام انتظام کے باوجود تھر میں بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ خاص طور پر کچے کے علاقے میں جہاں آمدو رفت کی سہولتیں بھی کم ہیں ۔یہاں کی عورتیں ہڈیوںکا ڈھانچہ ہیں اوران کے ہاں جو بچے پیدا ہوتے ہیں، وہ اس قدر لاغر ہوتے ہیں کہ ان کی بقا ممکن نہیں ہوتی، اس کے لئے ہمیں مائوں کی صحت پر توجہ دینے کی ضرورت ہے اور تھر میں اشیائے خوردو نوش اور پانی کی کمی دور کرنے سے ہی مائوں کی نشو ونما ہو سکتی ہے۔یہ سارا کام ایک دن میںنہیں ہو سکتا ۔ نہ کسی ایک فلاحی تنظیم کے بس میں ہے ،اس کے لئے ایک مستقل بندو بست کرنا ضروری ہے۔ اور اصل میںحکومت سندھ کو اس سلسلے میں فعال ہونا پڑے گا۔یہاں سے وڈیرہ شاہی کا کنٹرول ختم کرنا ہو گا کیونکہ وہ ضروری سہولتوں کی فراہمی میں رکاوٹ ہیں اور لوگوں کو اپنا دست نگر بنائے رکھنے پر بضد ہیں۔
پی آر سی کے چیئر مین ڈاکٹر محموو شوکت نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ ہمارا میڈیا غیر ضروری طور پر تھر میں بچوں کی اموات کی خبریں اچھالنے کا عادی ہو گیا ہے ۔میں خود نو مولود بچوں کی سرجری کاا سپیشلٹ ہوں اس لئے میرا سوال ہے کہ کیاکسی میڈیا پرسن نے اس نکتے پر غور کیا کہ کراچی، لاہور یا پشاور کے ہسپتالوں میں بچوں کی اموات کی شرح کیا ہے۔دوسرے ہم اپنی تباہی کا سامان اپنے ہاتھوں کر رہے ہیں۔ شہروں اور دیہات میں آلودہ، غلاظت آمیز پانی موذی بیماریوں کا باعث بن رہا ہے۔ہمیں صاف پانی کی فراہمی پر بحیثیت مجموعی توجہ دینا ہو گی۔ قسطوں یا ٹکڑوں میں یہ کام نہیں ہو سکتا، تھر میں پانی اور خوراک کا بندو بست کر بھی لیا جائے تو لاہور ، شیخوپورہ اورقصور کے تین اضلاع میں زرعی زمین ختم ہو چکی ہے اور ان کی جگہ نئی کالونیاں تعمیر ہو گئی ہیں جہاں صاف پانی کی فراہمی اور گندے پانی کے نکاس کا کوئی انتظام نہیں کیا جاتا، اکثر کالونیوں میں سیوریج کا پانی زیر زمین صاف پانی میں پھینک دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے اب ملک کے ان تین اضلاع میں موذی بیماریاں پھیل رہی ہیں، بھارت نے ستلج اور راوی کا پانی سو فیصد بند کر رکھا ہے اور وہ بھی اپنے علاقوں کا سیوریج کا پانی انہی دو دریائوں میں پھینک رہا ہے۔ہمیں بیماریاں چاروں طرف سے گھیر رہی ہیں۔ اور کسی قسم کی پلاننگ نہ ہونے کی وجہ سے ہم اپنے ترقی یافتہ شہروں کو بیماریوں کا گڑھ بنا رہے ہیں۔
ڈاکٹر زینب احمد نے اپنے تحقیقی پس منظر کی وجہ سے مفید معلومات بہم پہنچائیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ پانی کے جھگڑے پوری دنیا میں پھلے ہوئے ہیں۔صرف پاکستان اس مسئلے کا اکیلا شکار نہیں، بھارت میں ریاستیں پانی کی تقسیم پر ایک دوسرے سے جھگڑ رہی ہیں اور عدالتوں کے سامنے بھی متعدد مقدمات ہیں۔ آسٹریلیا جیسا ملک بھی بارشوں کی کمی کی وجہ سے گزشتہ برس قحط کا شکار ہوتے ہوتے بچا۔ ہمارے لئے سب سے بڑی مصیبت بھارت نے کھڑی کر رکھی ہے۔ دو دریا کلی طور پر ا سکے قبضے میں ہیں حالانکہ معاہدے کے مطابق آبی حیات ا ور انسانی ا ور حیوانی ضروریات کے لئے اسے پانی فراہم کرنا از بس ضروری ہے۔ اس کے بعد وہ جہلم اور چناب پر ڈیم تعمیر کرتا جا رہا ہے اور خدشہ یہ ہے کہ وہ مستقبل میں ان دریائوں کاسارا پانی اپنی طرف نہ موڑ لے۔ اب ہم نے پانی کی کمی دور کرنے کے لئے بھاشا ڈیم کامنصوبہ شروع کرنے کا اعلان کیا تو مودی صاحب کہتے ہیں کہ جب پاکستان نے سارا پانی بحیرہ عرب میں گرا کر ضائع کرنا ہے تو وہ بھاشا یاکوئی ڈیم کیوں بنائے۔
سینیٹر ظفر اقبال نے کہا کہ ڈاکٹر آصف جاہ تھر میں تو میٹھے پانی کے کنویں کھود رہے ہیں مگر چولستان میں میٹھا پانی کسی قیمت پر دستیاب نہیں، یہاں انسان اور جانور ایک گھاٹ گندہ پانی پینے پر مجبور ہیں۔ پانی کی فراہمی کے کئی منصوبے بن سکتے ہیں لیکن وہی بھارت کا اعتراض مد نظر رکھیں تو ہمیں پہلی توجہ پانی کے صحیح استعمال پر مبذول کرنا ہو گی۔ ہم مسجدوں میں وضو کرتے ہوئے بے تحاشا پانی ضائع کر رہے ہیں۔گھر کے غسل خانے میں بھی پانی ضائع کیا جاتا ہے۔کھیتوں میں فصل کو سیراب کرنے کے لئے نہروں اور ٹیوب ویلوں کے دہانے کھول کر بھول ہی جاتے ہیں کہ پانی اس کھیت کے ساتھ کئی اور کھیتوں میں گھس چکا ہے۔ ترقی یافتہ دنیا قطرہ قطرہ پانی بچاتی ہے اور آبپاشی کے جدید طریقے اپنائے جاتے ہیں، سینیٹر ظفر اقبال نے انکشاف کیا کہ پاکستان میں یہ جدید طریقے انتہائی مہنگے پڑتے ہیں۔اگر ہم باتھ رومز میں سنسر والی ٹونٹیاں لگونا چاہیں تو ان پر بھی بھاری ٹیکس ہے جس کی وجہ سے یہ ٹونٹیاں صرف فائیو اسٹار ہوٹلوں میں نصب ہیں حالانکہ انہیں ملک کی کروڑوں مسجدوںا ور گھروں کے غسل خانوں میں نصب ہونا چاہیئے بشرطیکہ ان پر ڈیوٹی ہٹا دی جائے یا انہیں ملک کے اندر بنایا جا سکے تو پھر بہت سا پانی ضائع ہونے سے بچایا جا سکتا ہے۔سینیٹر ظفر اقبال نے یہ بھی بتایا کہ وہ بھارت کی آبی دہشت گردی کے خلاف عالمی عدالت میں چیلنج کرنے کے لئے لاہور چیمبر کی طرف سے پیٹیشن تیار کرا رہے ہیں ، ہمیں بھارت کی آبی دہشت گردی کے خلاف ہاتھوں کی زنجیر بھی بنانے پر غور کرنا ہے تاکہ ضمیر عالم کو جگایا جا سکے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ ہمیں نئے ڈیم بھی بنانے ہیں۔ گندے پانی کو صاف کرنا ہے۔ دستیاب پانی کو احتیاط سے استعمال کرنا ہے اور واٹر مینجمنٹ کو پہلی ترجیح کے طور پر آزمانا چاہے ورنہ ہمارے مسائل سنگین ترہوتے چلے جائیں گے۔ ہم ایک تھر کو روتے ہیں، کہیں خدا نخواستہ سارا ملک تھر کا منظر نہ پیش کرنے لگ جائے۔
پانی ایک مسئلہ نہیں،مسائل کی جڑ ہے
Dec 18, 2018