پی آئی سی جانے والوں نے سب کا منہ کالا کیا، دو فیصد وکلا نے سو فیصد کو پرغمال بنا رکھا ہے: ہائیکورٹ

لاہور(وقائع نگار خصوصی) لاہور ہائیکورٹ نے گرفتار وکلاء کی رہائی اور گھروں پر چھاپوں کیخلاف دائر کیس کی سماعت آج تک ملتوی کرتے ہوئے چیف سیکرٹری، ہوم سیکرٹری اور آئی جی کو ذاتی حیثیت میں طلب کرلیا۔ عدالت نے پی آئی سی کے سربراہ کو بھی چیمبر میں طلب کرلیا۔ ایڈووکیٹ جنرل کو فیصلے پر عمل درآمد کی ہدایت کردی۔ ملک بھر کی بار ایسویسی ایشنز نے پی آئی سی واقعہ پر وکلاء کی طرف سے عدالت کے سامنے معافی مانگ لی۔ عدالت نے قرار دیا کہ پی آئی سی میں جو کچھ ہوا وہاں جانے والوں نے سب کا منہ کالا کیا۔ اگر وکلاء لوگوں کے حقوق کیلئے لڑ سکتے ہیں تو اپنے حقوق کے لئے کیوں نہیں کھڑے ہوئے۔ ہمارا تعلق بھی بار سے ہے اور کبھی خود کو بار سے الگ نہیں سمجھا۔ ہم اپنے آپ کو محدود کرکے لوگوں کو بتانا چھوڑ چکے ہیں کہ ہم جج ہیں۔ عدالت نے استفسار کیا کہ ہسپتال میں وکلاء کو جانے کی ضرورت کیا تھی۔ جو کچھ میڈیا پر ہورہا ہے اور لوگ ویڈیو بناکرچلا رہے ہیں اس کے پیچھے بھی بہت کچھ ہے۔ معاملات ایک دودن میں یہاں تک نہیں پہنچے۔ جنہوں نے کلنک کاٹیکہ لگایا وہ دو فیصد ہیں۔ ان دو فیصد نے سو فیصد وکلاء کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ ایسے وکلاء کے خلاف بار نے کیوں کارروائی نہیں کی؟۔ بتایا جائے وکلاء ڈیڑھ گھنٹے تک سڑکوں پر رہے انتظا میہ نے انہیں روکنے کی کوشش کیوں نہیں کی۔ تسلیم کرتے ہیں کہ یہ بار کی مکمل ناکامی ہے۔ وکیل اعظم نذیر تارڑ نے عدالت کو بتایا کہ وکلاء کے اندرونی احتساب کا عمل سخت کیا جائے گا۔ ایک جگہ زیادہ وکلا اکٹھے نہ ہوں۔ یہ خطرہ ججز کے لئے بھی ویسا ہی ہے۔ پی آئی سی میں جو کچھ ہوا تمام بار ایسوسی ایشنز نے اس کی مذمت کی۔ وقوعہ میں ایک سو سے کم وکلاء تھے مگر پولیس کی طرف سے تمام وکلا کوتنگ کیا جانے لگا۔ گرفتار وکلاء کو قانونی امداد فراہم نہیں کرنے دی گئی۔ عدالت نے قرار دیا کہ گرفتار وکلاء کیساتھ روا رکھا گیا رویہ ناقابل برداشت ہے۔ ہم نے ڈاکٹروں اور جاں بحق ہونے والوں کیلئے پھول پیش کئے۔ ہم نے مریضوں کے لواحقین کیساتھ دلی طور دکھ کا اظہار کیا۔ کیا پی آئی سی ہی اس واقعہ کی وجہ ہے؟ ایک گاڑی والی خاتون اور نارووال کا واقعہ بھی موجود ہے۔ اس کے پیچھے ایک تاریخ ہے۔ ہم کوئی آپ کو طنز کرنے کیلئے نہیں بیٹھے۔ لاہور بار کے صدر ادھر کیوں ہیں؟ ہسپتال جانے کی کیا ضرورت تھی؟ آپ کے پاس قانون موجود تھا۔ ابھی بھی آپ کے پاس ٹائم ہے، اس کے لئے بہت کام کرنا پڑے گا۔ وکیل نے کہا کہ جی سر ہم نے ذہن بنا لیا ہے۔ بد قسمتی ہے کہ آپ کے اپنے آپکی بات سننے کو تیار نہیں ہے۔ ہمیں یہ بتاتے ہوئے شرم آتی ہے کہ ہم جج ہیں۔ وکیل نے کہا کہ آپ نے بہت درست فرمایا۔ فاضل عدالت نے کہا کہ کالے کوٹ کی عزت ہے جس کو اب چھپایا جا رہا ہے۔ وکیل نے کہا کہ یہ ہماری ناکامی ہے۔ عدالت نے استفسار کیا کہ آپ بتائیں ان 2 فیصد وکلاء کیخلاف کیا کر رہے ہیں؟ عدالت نے بتایا کہ آپ کو شائد اس بات کا علم ہو کہ ہائیکورٹ کو سخت تھریٹ ہے وکلاء کیلئے گروپس میں کھڑے ہونا اچھا نہیں ہو گا۔ آپ بتائیں پولیس نے وکلاء کو روکا کیوں نہیں گیا۔ وکیل نے بتایا کہ وکلاء ڈیڑھ گھنٹے میں پی آئی سی پہنچے۔ پورا راستہ وکلاء پرامن رہے خوشاب کے دو وکلاء کو ان کے دفاتر سے گرفتار کر لیا گیا۔ اصغر گل ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ صدر بار میں منع کرتا رہا تھا مگر خواتین نے اس کے سر پر چوڑیاں پھینکیں اس پر عدالت نے کہا کہ تو کیا ہو گیا ایسا کرنے سے اس کی مردانگی میں کمی آ گئی۔ عدالت کے ریمارکس پر کمرہ میں قہقہہ لگا۔ عدالت نے کہا کہ کالے کوٹ کو اس طرح بے عزت کرنے نہیں دینگے۔ سی سی پی او لاہور نے جواب جمع کروایا۔

ای پیپر دی نیشن