لاہور(نیوز ڈیسک) معروف امریکی فیشن میگزین ’ٹین ووگ‘ نے کم عمر ترین نوبل انعام حاصل کرنے والی پاکستانی سماجی رہنما ملالہ یوسف زئی کو اپنے میگزین کے سال کے آخری میگزین کے سر ورق کی زینت بناتے ہوئے انہیں سال اور دہائی کا بہترین نوجوان قرار دیا ہے۔’ٹین ووگ‘ نے 21 ویں صدی کی دوسری دہائی کے اختتام پر دنیا بھر کے متحرک، معروف اور سماجی مسائل کو حل کرنے میں اہم کردار ادا کرنے والے نوجوانوں کے خصوصی انٹرویوز کرنے اور انہیں سر ورق کی زینت بنانے کا سلسلہ شروع کیا ہے اور اس سلسلے کا آغاز ملالہ یوسف زئی سے کیا گیا۔ ملالہ یوسف زئی کی تصویر کو سر ورق کی زینت بنائے جانے سمیت انہیں’ سال ‘ اور ’دہائی‘ کا اہم ترین اور دنیا کو تبدیل کرنے میں اپنا کردار ادا کرنے والا نوجوان قرار دیا گیا ہے۔ ملالہ یوسف زئی نے میگزین سے بات کرتے ہوئے اپنی ماضی کی زندگی اور جدوجہد سمیت خود کو پیش آنے والی پریشانیوں اور ذہنی مسائل پر بھی کھل کر بات کی اور اعتراف کیا کہ خود پر 2012 میں ہونے والے طالبان کے حملے کے بعد وہ نہ صرف جسمانی بلکہ ذہنی پریشانی کا بھی شکار ہوئیں۔ جہاں حملے کے وقت انہیں جسمانی تکلیف پہنچیں وہیں بعد میں پروپیگنڈا کے تحت انہیں سوشل میڈیا پر بھی نشانہ بنایا گیا جس سے وہ جسمانی کے بعد ذہنی پریشانی اور مسائل کا بھی شکار ہوگئیں، تاہم وہ اس مسئلے سے جلد نکلنے میں کامیاب ہوگئیں۔ دنیا بھر سے کی جانے والی سپورٹ اور لوگوں کی محبت و خلوص سے انہیں ڈپریشن سے نکلنے میں مدد ملی اور وہ جہاں جسمانی طور پر جلد ٹھیک ہوگئیں، وہیں انہیں ذہنی سکون بھی ملا۔ ملالہ یوسف زئی سے جب پوچھا گیا کہ انہوں نے انتہائی کم عمری میں دنیا بھر میں شہرت حاصل کی اور انہیں دولت بھی ملی اور ساتھ ہی وہ دنیا کی کم عمر ترین نوبل انعام یافتہ لڑکی بھی ہوگئیں تو انہوں نے آرام سے دولت اور شہرت کا فائدہ اٹھانے کے بجائے ’آکسفورڈ یونیورسٹی‘ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کو کیوں ترجیح دی؟ جب کہ وہ اپنی شہرت کو استعمال کرتے ہوئے بھی زندگی گزار سکتی تھیں؟ ملالہ یوسف زئی نے کہا کہ ان کی زندگی کا مقصد ہی تعلیم رہا ہے، وہ بچپن سے تعلیم حاصل کرنا چاہتی تھیں، ان پر حملہ بھی تعلیم کی وجہ سے کیا گیا اور انہیں لگتا ہے کہ شہرت اور دولت سے زیادہ تعلیم اہم ہے اور وہ اپنے مقصد سے ہٹ نہیں سکتیں۔ خصوصی انٹرویو کے دوران ملالہ یوسف زئی نے مغربی دنیا اور خاص طور پر یورپ میں ’اسلاموفوبیا‘ (اسلام سے نفرت) پر بھی بات کی اور کہا کہ ایسے واقعات اس وجہ سے ہو رہے ہیں کہ کیوں کہ یورپ کے کئی شہروں میں مسلمانوں کی آبادی کم ہے اور وہاں پر رہنے والے اکثر لوگوں کو مسلمانوں سے متعلق درست معلومات نہیں اور وہ غلط فہمی کی بنیاد پر ’اسلام‘ اور ’مسلمانوں‘ سے نفرت کرتے ہیں۔ ملالہ یوسف زئی کے مطابق ’اسلاموفوبیا‘ کو روکنے کے لیے لوگوں کو مسلمانوں کے گھر جاکر ان کی طرز زندگی دیکھنے سمیت ان سے بات کرنی پڑے گی اور انہیں یہ جاننا ہوگا کہ ’اسلام‘ اور ’مسلمان‘ کیا ہیں۔ فلموں کے ذریعے بھی مسلمانوں اور اقلیتوں کو منفی طور پر دکھایا جاتا ہے جو کہ غلط ہے۔’اسلام‘ سمیت دنیا کے دیگر مذاہب انسانوں کو خود مختاری اور یکساں حقوق فراہم کرنے کی بات کرتے ہیں، مذاہب میں صنفی تفریق نہیں ہے، اس لیے مذہبی رہنماؤں کو خواتین کے ساتھ ہونے والی ناانصافی کو روکنے کے لیے آگے آنا پڑے گا۔ چند سال سے دنیا بھر میں نمایاں تبدیلی آئی ہے اور اب دنیا کے ہر بڑے ادارے یا کانفرنس میں نہ صرف نوجوان ہوتے ہیں بلکہ ان میں خواتین بھی شامل ہوتی ہیں، ایک دہائی قبل تک ایسا ادارے بھی تھے جن کے اعلیٰ سطحی اجلاسوں میں ایک بھی خاتون نہیں ہوتی تھیں۔گزشتہ چند سال سے اب نوجوانوں کو نہ صرف سنا جانے لگا ہے بلکہ نوجوان دنیا میں بڑی بڑی تبدیلیوں کا سبب بن رہے ہیں اور اگلی دہائی نوجوانوں کی دہائی ہوگی۔ اگر دنیا میں خواتین اور لڑکیوں کو مواقع دیئے جائیں تو وہ دنیا کی معیشت میں 30 ٹریلین ڈالر کا اضافہ کر سکتی ہیں اور وہ ماحولیاتی بہتری میں بھی اہم کردار ادا کرسکتی ہیں۔