اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت) پرویزمشرف غداری کیس کے حوالے سے پس منظر پر نظر ڈالی جائے توپاکستان مسلم لیگ ن کے دور حکومت میں پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کا مقدمہ نومبر 2013 میں درج کیا تھا، وفاقی حکومت کی جانب سے اس وقت کے سیکرٹری داخلہ شاہد خان غداری کیس کے شکایت کنندہ ہیں انہوں نے خصوصی عدالت تشکیل دی تین رکنی بینچ کے لیے ججز کا تقرر چیف جسٹس آف پاکستان کی مشاورت سے کیا گیا۔ خصوصی عدالت کی تشکیل کا نوٹیفیکیشن چھ دسمبر کو جاری ہوادس رکنی پراسیکیوشن ٹیم مقرر کی گئی، استغاثہ ٹیم کے سربراہ اکرم شیخ تھے ان کے ہمراہ دیگر وکلاء میں ڈاکٹر طارق حسن، ناصر الدین نیرشامل تھے، ملزم پرویز مشرف کی وکلاء ٹیم میں شریف الدین پیر زادہ، ابراہیم ستی، خالد رانجھا، انور منصور خان، الیاس صدیقی، رانا اعجاز، احمد رضا قصوری جبکہ بیرسٹر سیف کیس کے کوآرڈینیٹر مقرر ہوئے تھے، بعدازاں بیرسٹر فرروغ نسیم بھی مشرف کی لیگل ٹیم کا حصہ رہے، خصوصی عدالت کی پہلی سماعت نیشنل لائبریری اسلام آباد میں ہوئی پرویز مشرف پر اسی عدالت میں فرد جرم عائد کی بعدازاں سیکیورٹی وجوہات کے بعد سپریم کورٹ کے سامنے وفاقی شرعی عدالت میں خصوصی عدالت قائم کردی گئی۔ سب سے پہلے خصوصی عدالت کی سربراہی جسٹس فیصل عرب نے کی تھی۔ خصوصی عدالت 20 نومبر 2013 کو قائم کی گئی جس نے 31 مارچ 2014 کو پرویز مشرف پر فرد جرم عائد کی اور 19 جون، 2016 کو انہیں کو مفرور قرار دیا، خصوصی عدالت کی 6 دفعہ تشکیل نوکی گئی اور ججز بدلتے رہے۔ جسٹس فیصل عرب، جسٹس مظہرعالم میاں خیل اور جسٹس طاہرہ صفدر، جسٹس یاور علی ، جسٹس، جسٹس یحییٰ آفریدی کے علاہ فیصلہ دینے والے ججز جسٹس وقاراحمد سیٹھ، جسٹس نذر محمد اکبر اور جسٹس فیصل کریم نے کیس کی سماعتیں کیں۔ سنگین غداری کیس تقریباً 6 سالتک جاری رہا، کیس کی 125 سے زائد سماعتیں ہوئیں اور پرویز مشرف پر 5 فریم چارج کیے گئے۔ سابق صدر پرویز مشرف پر آئین توڑنے، ججز کو نظربند کرنے، آئین میں غیر قانونی ترمیم کرنے، بطور آرمی چیف آئین معطل کرنے اور غیر آئینی پی سی او جاری کرنے کا چارج فریم کیا گیا۔ عدالت نے متعدد مرتبہ پرویز مشرف کو وقت دیا لیکن وہ عدالت میں پیش نہیں ہوئے۔ مارچ 2014 میں خصوصی عدالت کی جانب سے سابق صدر پر فرد جرم عائد کی گئی تھی جب کہ ستمبر میں پراسیکیوشن کی جانب سے ثبوت فراہم کیے گئے تھے تاہم اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم امتناع کے بعد خصوصی عدالت پرویز مشرف کے خلاف مزید سماعت نہیں کرسکی تھی۔ پاکستان مسلم لیگ کی حکومت نے 3 نومبر 2007 کو ایمرجنسی نافذ کرنے اور آئین معطل کرنے کے خلاف سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف سنگین 2013 میںغداری کا مقدمہ درج کرایا تھا جس کی متعدد سماعتوں میں وہ پیش نہیں ہوئے اور بعد ازاں بیماری کی وجہ سے ملک سے باہر چلے گئے تھے۔ اسلام آباد کی خصوصی عدالت نے رواں سال 19 نومبر 2019 کو سنگین غداری کیس کا فیصلہ محفوظ کیا تھاجبکہ 28 نومبر کو محفوظ فیصلہ سنایا جانا تھا۔ تاہم مذکورہ فیصلے کو روکنے کے خلاف پرویز مشرف نے لاہور اور اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواستیں دائر کر دی تھیں۔ ساتھ ہی وفاقی حکومت نے بھی خصوصی عدالت کو فیصلہ سنانے سے روکنے کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا۔ تھا۔ جس پر 27 نومبر کو ہونے والی سماعت میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے خصوصی عدالت کو سنگین غداری کیس کا فیصلہ سنانے سے روک دیا تھا۔ 28 نومبر کو سنگین غداری کیس کی سماعت میں اپنے تحریری فیصلے میں خصوصی عدالت نے کہا تھا وہ ہائی کورٹ کے فیصلے پر کوئی تبصرہ نہیں کریں گے۔ 3 ججز پر مشتمل بینچ کا کہنا تھا کہ وہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کے پابند نہیں۔ خصوصی عدالت نے28 نومبر کو سنگین غداری کیس کی سماعت کرتے ہوئے حکومت کو پانچ دسمبر تک پراسیکیوٹر تعینات کرنے کی ہدایت جبکہ ملزم پرویز مشرف کو 5 دسمبر تک اپنا بیان ریکارڈ کرانے کا حکم دیا تھا عدالت نے قرار دیا تھاکہ کیس کی آئندہ سماعت روزانہ کی بنیاد پر ہوگی۔ دلائل مکمل ہونے کے بعد کیس کا فیصلہ سنا دیں گے۔بعد ازاں کیس کی آخری سماعت17 دسمبر کو ہوئی اور عدالت نے مختصر فیصلے میں پرویز مشرف کو جرم کا مرتکب قرار دیتے ہوئے سزائے موت کا حکم سنا دیا۔