ہم سانحوں کی عظیم تاریخ رکھنے والے ملک کے فرزند ہیں ۔ یہ ہمارا المیہ ہے کہ ستر سالوں سے ہم سانحوں پر کچھ دیر افسوس کرتے ہیں ، زیادہ سنگین سانحہ ہوتو جو محب وطن ہیں وہ آنسو بھی بہا لیتے ہیں ۔ مگر اجتماعی طور ہم سانحہ پر افسوس کے باجود ایک’’ بے حس ‘‘ قوم ہیں ۔ بے حس ہونے کے قصور وار ہم نہیں بلکہ ہم بے حسی کا شکار ہیں اپنی گزشتہ ستر سالہ قیادت کی بے حسی اور موٹی چمڑی کی وجہ سے ، جو سانحوںسے سبق سیکھنے سے قاصر ہے اور قائد اعظم کے اس خوبصورت ترین تحفے کو اپنی اناء اور مفاد پرستی کی بھینٹ چڑھایا ہوا ہے ، ’’میوزیکل چیئر ‘‘ کے اس مجرمانہ کھیل میں ملکی مفاد کو ایک کونے میں رکھ دیا گیا ہے۔ جب دسمبر آتا ہے تو محب وطن افرادکی سانحہ بنگلہ دیش کو یاد کرکے روح کانپ جاتی ہے ۔ اسکو بے حسی کے علاوہ کے علاوہ کیانام دیا جائے کہ 1971 ء سے آج تک ان معاملات پر ہم کسی ایک سوچ کے حامل نہیں ہوسکے کہ 3دسمبر کو بھارتی جارحیت کے بعد 16 دسمبر کے نہائت ہی قلیل عرصے کیا آفت ٹوٹی کہ ان تیرہ دنوںمیں مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا ۔ بنگلہ دیش کے اعلان کا دن ایک ’’شام غریباں‘‘ سے کم نہیں تھا جب سڑکوں پر نوجوانو ں ، خواتین اور بزرگوںکر آہ گزاری کرتے دیکھا، کئی دن محب وطنوںکے گھروں کے چولہے بجھے رہے مگر یقین ہے کہ اسکی پشت پر ہماری اسوقت کی ہماری فوجی قیادت ،اور سیاسی قیادت اپنا مشن پورا ہونے پر داد عیش دے رہے ہونگے ۔جنرل ایوب کا دور اقتدار اور اسوقت کی جو بھی قیادت تھی انکی مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی خواہش اور عامیانہ سوچ کبھی مشرقی پاکستان کو اپنے ساتھ رکھنے پر راضی نہ تھے ۔آزادی صحافت کی ایک تحریک کے نتیجے میں جیل جانے پر 1978ء میں میری کچھ سیاسی قیدیوںسے ملاقات میں حیدرآباد کی جیل میں مجھ پر انکشاف ہوا ۔دروغ بہ گردن راوی ، کہ جب نیشنل عوامی پارٹی ،ولی خان والی جن پر ہمیشہ علیحدگی پسند کا الزام تھا ،جب وہ سازش کیس میں جیل میں تھے انہیں جنرل ایوب نے جیل سے ایوان صدر بلا کر آئو بھگت کی ۔ باچا خان ، ولی خان کی تحریکوں اور قربانیوں کی تعریف کرکے ان سے کہا گیا کہ آپ اپنے مطالبات میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا مطالبہ رکھیںاور اس پر تحریک چلائیں ، اس کے متعلق انہیں وجوہات بھی بتائیںکہ وہ مغربی پاکستان کی معیشت پر بوجھ ہے ، راوی نے بتایاکہ ایوب خان کی بات سنکر ولی خان کھڑے ہوگئے کہ ہم پر پہلے ہی الزام ہے کہ ہم علیحدگی پسند ہیں آپ ہمیں کیا سونپ رہے ہیں ؟؟ مذاکرات کے نتیجے میں انہیں واپس ایوان صدر سے ’’عزت کے ساتھ ’’حیدرآباد ‘‘ جیل بھیج دیا گیا ۔ وہ کاروائیاں جو بنگالیوں پر اس وقت کی قیادت نے کیں وہ اسی سوچ کی غمازی تھیں۔سانحہ مشرقی پاکستان درحقیقت مغربی پاکستان یا موجودہ پاکستان کی جانب سے مشرقی بازو کے ساتھ روا رکھی جانیوالی بے انصافی کا ایک فطری نتیجہ تھا۔ بنگالیوں کا مذاق اڑایا جاتا تھا۔ فوجی اور سول ملازمتوں میں اور اسکے ساتھ ساتھ سیاسی اداروں میں ان کی موجودگی کو برداشت نہیں کیا جاتا تھا۔ پھر وہاں پر فوجی آپریشن کے ذریعے اتنا ظلم روا رکھا گیا کہ بنگالیوں کے پاس سوائے اس طرح جدا ہونے کے اور کوئی راہ موجود ہی نہ تھی حقائق روشن ہوتے ہیں لیکن وہ نہیںدیکھ سکتے جو جان بوجھ اور پالیسی کیمطابق کررہے ہوں ۔ آخری بات جب یہ کچھ ایسا ہی تھا تو اتنا بڑا سانحہ کیونکر رونما ہو گیا۔ اسکا جواب آمریت کا مسلط ہونا ہے ۔ چاہے وہ کھلی ہو۔ یا پردے میں قیمت قوم اور فوج دونوں کو چکانا پڑتی ہے۔ ورنہ مشرقی اور مغربی پاکستان کے سیاستدان 1965کے آئین پر متفق ہو کر اس کو بنا چکے تھے۔ مگر آمریت آ گئی اور تمام بساط الٹ گئی۔کیا ایسا ممکن ہوسکتا ہے وہ بنگال جس نے قیام پاکستان کے سلسلے میں قائد اعظم محمد علی جنا ح ہر قدم پر ساتھ دیا وہ پاکستان کے قیام کے صرف مختصر 24 سالوں میں پاکستان سے علیحدگی اختیا ر کرکے اپنے علیحدہ شناخت بنا لے ، بھارتی توسیع پسندہ عزائم اپنی جگہ مگر جب تک اندرونی مدد حاصل نہ ہو ایس ممکن نہ تھا۔ مارکس کی تھیوری کیمطابق کبھی حالات ایک جیسے نہیں رہتے تبدیلی لازمی ہے ( پاکستان کی حالیہ تبدیلی نہیں ) ، جس بنگلہ دیش کے قیام پر اندرا گاندھی نے کہا تھا کہ ’’ہم نے آج دو نظریہ کو دفن کردیا ہے ‘‘ آج ہندوستانی قیادت ہندوستان کے قوانین میں وہ تبدیلیاںلا رہی ہیں جس بھارت کا ’’خاتمہ بالخیر ‘‘انشاللہ زیادہ دور نہیں مودی RSS پالیسیاں چاہے کشمیر ہو یا ہندوستان بھارتی تباہی کو مورخ نے لکھنا شروع کردیا ہے۔ ہم سانحہ بنگلہ دیش ، اور پشاور اسکول میں ننھے بچوںکی یاد سالوںسے منا رہے ہیں مگر سبق حاصل نہیں کررہے اور آپس میں دست و گریبان ہیںسیاسی نفرتوں میں ایک دوسرے کی شکل دیکھنے کے روادار نہیں، عوام کو بے وقوف بنا رکھا ہے سب نے ملکر۔ عوام سانحہ بنگلہ دیش ، پشاور اسکول سانحہ کالہو کس کے ہاتھوںپر تلاش کریں۔ ہمیںرونا آتا ہے مگر بے حس بھی اتنے ہی ہیں۔ آج تک مشرقی پاکستانکی علیحدگی کے مجرموںکا تعین نہیںکرسکے جو ہمارے اندرونی تھے ۔ چاہے مر کھپ گئے ہوں مگر تاریخ میںتو لکھنا ضروری ہے کہ کس کا کتنا جرم تھا ، کہیں تاریخ میںلکھا ہے کہ 90,000 مسلح فوجیوںنے ہتھیار ڈالے ہوں ؟؟؟ ُٓ