یہ عاشر عظیم کے ڈرامہ" دھواں "میں کہا گیا ایک ڈائیلاگ ہے؛" کتا ، دو چیزوں کیلئے لڑتا ہے ایک ہڈی اور دوسرا گھر کی حفاظت کیلئے ،تو کیا اب ہم کتوں سے بھی بدتر ہو گئے ہیں ؟ " نوجوانی کے دنوں میں دیکھا گیا یہ ڈرامہ اور عاشر عظیم کا امیج ذہن میں آج بھی نقش ہے ۔ اس ڈرامے کا مرکزی خیال برائی کے خلاف لڑائی تھا ، 1994میں یہ ڈرامہ لکھنے والا عاشر ، 2013میں جب فلم مالک لکھتا ہے تو تب بھی یہی خیال اس پر غالب رہتا ہے ۔ائیرونوٹیکل انجئینرنگ سے اپنے کئیرئیر کا آغاز کرنیوالا جب سی ایس ایس (سول سپئیرئیر سروسز ) کا امتحان اعلی نمبروں سے پاس کر کے کسٹم آفیسر بن گیا تو حقیقی زندگی میں بھی ان کا مرکزی خیال برائی کے خلاف آواز بلند کرنا ہی رہا ۔ کوئٹہ سے کراچی اور کر چی سے کینڈا میں آکر بس جانیوالا عاشر ،صرف ایک فرد نہیں بلکہ ہم جیسے کتنے ہی افراد کا نمائندہ ہے جو پاکستان سے انتہائی محبت کے باوجود پاکستان کو چھوڑنے پر مجبور ہو چکے ہیں ۔ وقت فیصلہ آپکے سامنے آکر لا رکھتا ہے ۔۔ کرو یا نہ کرو ۔۔ رابرٹ فراسٹ کی نظم وہ راستہ جو اختیار نہ کیا گیا ۔۔ ہم سب کی زندگی میںایک سڑک ہے جو ہم پیچھے چھوڑ آئے ہیں ۔کوئی لاہور کی گلیاں کوئی کراچی کی ،کوئی پشاور کی اور کوئی کوئٹہ کی اپنے پیچھے چھوڑ آیا ہے ۔ بیرون ملک آنے والی اکثریت ایسے لوگوں کی ہی ہے جو محض دولت یا اعلی معیار ِ زندگی کیلئے نہیں بلکہ وہ اس جھوٹ، منافقت،خوشامد اور کرپشن کے نظام سے بچنے کیلئے باہر کے ملکوں میں آبسے ہیں ۔ عاشر عظیم کیخلاف جو نیب کی انکوئری ہوئی تھی وہ غلط ثابت ہو ئی۔ ہوتا کچھ یوں ہے کہ وہ چھٹیاں گزارنے کینڈا آتے ہیں کہ پیچھے سے کوئی انکوائری شروع ہوجاتی ہے ۔ اور وہ یہ شکر نہیں کرتے کہ شکر ہے کہ میں کینڈا میں ہوں بلکہ وہ واپس جا کر انکوائری کا سامنا کرتے ہیں ۔ یہ سچے انسان کی پہچان ہے ، یہ نڈر اور خوش فہم انسان کی بھی پہچان ہے کہ ایسے ملک میں انکوائری کیلئے حاضر ہو جانا جہاں جھوٹے میڈیکل سرٹیکفیٹ سے لے کر جھوٹی پوسٹ مارٹم رپورٹ تک بن جا تی ہے ۔ جہاں پولیس سے لے کر چپڑاسی تک سب بک جاتے ہیں ۔۔ جہاں ہر مال ملے گا دو دو آنے ۔۔ عزت بھی ، غیرت بھی ، وقار بھی اور ایمانداری بھی ۔ سب قابل ِ فروخت میں ایک ناقابل ِ فروخت سینہ تان کر پہنچ جائے اور کہے؛" لو میں آگیا ہوں کرو میری انکوئری ۔۔"اور پھر اس میں سے سچا ثابت ہو کر نکل بھی آئے یعنی جلتا کوئلہ منہ میں رکھ لے اور تالو بھی نہ جلے۔ اپنے دامن پر لگے سارے داغ دھوئے ( ہم یہاں،کئی ایسے مفروروں کو جانتے ہیں جو آج بھی پاکستان سے پینشین لے رہے ہیں ، پاکستان کیخلاف دل میں نفرت رکھے ،پاکستان کا کھا رہے ہیں مگر واپس جانے اور اپنے آپ کو سچا ثابت کر نے کی ہمت نہیں رکھتے ) ۔۔ اس رزق سے موت اچھی ۔ کہنا آسان کرنا مشکل ۔۔مگر عاشر عظیم یہ پل صراط طے کر کے آج ہمارے ساتھ کینڈا میں موجود ہے ۔ اپنے آپ کو سچا ثابت کر کے وہ پاکستان کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے چھوڑ آئے۔ انکی کہانی سن کر مجھے اپنا پنجاب بنک کو چھوڑنے ، لاہور کو چھوڑنے اور پاکستان کو چھوڑنے کا غم جیسے ہلکا ہو گیا ہو ۔ ہم پاکستان سے پاکستان کے نظام سے تنگ آکر نکلنے والوں میں سے ہیں ۔ میں محض 23 سال کی عمر میں بنک میں گریڈ 2آفیسر بھی بن چکی تھی مگر جب دیکھا کہ اب ترقی کا راستہ میری عزت ِ نفس، عزت اور ٹیلنٹ کی بنیاد پر طے نہیں ہو نے ولاتو تھک ہار کر اپنے شوہر کو کہا چلو اب یہاں سے کوچ کر ہی جاتے ہیں ۔کسی اور کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتی لیکن اگرمیں نا انصافی اور فریب کے نظام میں رک جاتی تو خود کشی یا پاگل خانہ میرا مقدر ہو تا ، اس کا مجھے کامل یقین ہے ۔ عاشر عظیم ، میرے سے بھی بڑی پوسٹ کو لات مار کے آئے ہیں اور یہاں کینڈا میں مجھ سے ذیادہ مشکل زندگی گزار رہے ہیں کہ ہم یہاں ذرا اس عمر میں آگئے کہ ہم میں سے ایک بھی اپنی ڈگریاں اپ ڈیٹ کر لیتا تو مشقت کم ہو سکتی تھی ، جو کہ ہو گئی ہے ۔عاشر نے پاکستان چھوڑنے کا فیصلہ شائد پاکستان کو بہت ذیادہ آزمانے کے بعد کیا اور اب وہ اور انکی بیگم صاحبہ یہاں ٹرک ڈرائیوری کر کے اپنے بچوں کو وہ رزق ِ حلال کھلا کر رہے ہیں جو پاکستان میں کھلانا نہ صرف مشکل ہوگیا ہے ۔عاشر عظیم کی فلم مالک سے مجھے ایک یہی اعتراض ہے کہ اس میں برائی کے بارے میں تو حقیقت بتا دی مگر اچھائی کے بارے میں وہی خواب دکھایا جس کی تعبیر پاکستانی نظام میں ہے ہی نہیں ۔ مالک فلم میں ہیرو ،( عاشر عظیم کے تحت الشعور میں چھپی ازلی خواہش کے مطابق دوستوں کے ساتھ مل کر ایسا گینگ بنا لیناجو برائی کوملکی قانون یا اداروں سے بالاتر ہو کرختم کر دے ) نے یہی کام کیا ۔۔ حقیقت میں عاشر عظیم کو ، اس جیسو ں کو مجھ جیسوں کو ملک سے بے بسی سے بھاگنا پڑتا ہے مگر فلم میں وہ ملک میں رہ کر ایک گروپ بناتے ہیں اور اپنے طور پر بے بسوں کی مدد کرتے ہیں۔ مالک فلم پر بس مجھے یہی اعتراض ہے کہ یہ" حل" حقیقت سے دور ہے ۔ حقیقی انجام یہ تھا جو عاشر کا ہوا ۔ جو عاشر جیسے ایماندار افسروں کا ہوتا ہے ۔ مایہ ناز ادیبہ قرۃ العین حیدر کے بھتیجے جلال الدین بھی یہیں ہو تے ہیں کینڈا میں پاکستان کی سول سروس یعنی عیش اور پرستش کی زندگی کو لات مارکر یہاں مزدورں کی طرح تعمیراتی کاموں میں مصروف ہیں ۔ وہ بھی کہتے ہیں یہ جسمانی محنت اس کرب کے سامنے کچھ بھی نہیں جو وہاں ، اس نظام میں ہمیں اپنی روحوں کو بیچ کر جھیلنا پڑتا تھا ۔