اسلام کی سربلندی و شان و شوکت کا خوبصورت خواب مدتوں سے امت دیکھ رہی ہے۔ جدید دنیا میں صرف پاکستان ہی وہ ریاست ہے جہاں ملت اسلامیہ کی دنیا میں وہ آن، بان، شان پھر سے قائم ہوسکتی ہے جس کی دھندلی یاد یں ہمیں خون کے آنسو رلاتی ہے۔ مایوسی اور بربادی کے اس دور نامراد میں یہ بھولی پرشکوہ داستان کسی اور نے نہیں اپنے امیر البحر ایڈمرل ظفرمحمود عباسی نے یاد کرائی ہے۔ وجیہہ و جمیل سمندروں کے بادشاہ کی سوچ کو وطن عزیز کی مانگ میں چمکتے ایسے ہی ستاروں کو علامہ اقبال ؒؒ نے ملت کا مقدر قرار دیاتھا۔ سیاست کے چٹخارے بیچ کر چونی چونی جمع کرنے والوں کی اس منڈی میں سوچ وفکر کے دئیے دیکھنے والے نایاب ہیں۔بظاہر سمجھ نہ آنیوالی پاک بحریہ کے کماندارکی گفتگو دراصل مستقبل کے پردے پر دور ابھرتے اجالوں کی خبر پر مبنی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ بیشتر کور بین دانشوروں کے نزدیک یہ دیوانے کی بڑ ہی قرار پائے لیکن یہ اسی گفتگو کی تفسیر ہے جو قریب ترین زمانے کے صوفی برکت کی زبان اطہر سے ادا ہوئی تھی۔ ’’جنگل میں تنکے چنتے دیوانے‘‘ کی امانت قدس سرہ حضرت ابو انیس محمد برکت علی صوفی برکت نے عوام تک پہنچائی تھی۔ صوفی صاحب نے فرمایاتھا کہ ’’پاکستان کی ہاں میں ہاں ہوگی اور دنیا کے فیصلے اسلام آباد میں ہوں گے۔‘‘ یہی وہ پیغام تھا کہ حضرت بری سرکار نے ’’اسلام آباد‘‘ کی صورت دیاتھا۔ لیکن اصل پیغام تو آقائے دوجہاں نبی رحمت سرورکونین محمد مصطفی نے اپنے دہن مبارک سے عطا فرمایاتھا۔ سبحان اللہ کہ یہ پیغام پاکستان کے بارے میں پھیلائی جانے والی مایوسیوں کو پاش پاش کردیتا ہے۔ ہمارے آقاکریم کے اسی پیغام کو قلندر لاہوری علامہ اقبال نے اپنے شعر کی صورت بیان کیاتھا
میرعرب کوآئی ٹھنڈی ہوا جہاں سے
میرا وطن وہی ہے، میرا وطن وہی ہے
اس پیغام کو پہنچانے والے کئی ہیں اور ہر زمانے اور وقت میں اپنی اپنی ڈیوٹی دے کرآگے بڑھ جاتے ہیں۔
انکل نسیم انور بیگ جنرل حمید گل اور تاجدار صحافت مرشدم جناب مجید نظامی تو اپنے فرائض ادا کرکے مالک کائنات کے حضور پیش ہو چکے ہیں جبکہ پاکستان کو مواصلاتی انقلاب سے متعارف کرانے والے پرشکوہ میاں جاوید اور کراچی کو درندے الطاف حسین کے جبڑوں سے چھین لانے والے ڈاکٹر شعیب سڈل اسی علم کو اٹھائے ہوئے ہیں خوش قسمت تھے جنرل حمید گل اور مرشدم جناب مجید نظامی جو اپنی مقدس ذمہ داریاں اگلی نسل کو منتقل کر گئے محترمہ رمیزہ نظامی انتہائی نامساعد حالات میں آبروئے صحافت کی پشت بان بنی ہوئی ہیں جبکہ عملی اور فکری محاذ پر عبداللہ گل دو قومی نظریے کے دشمنوں کو دیوانہ وار للکار رہے ہیں خوش بخت ہیں وہ تمام جو اس فہرست میں ہیں۔ ایڈمرل ظفر محمود عباسی نے بھی اپنی حاضری لگوائی، بلاشبہ وہ اس معاملے میں خوش قسمت اور صاحب نصیب ہیں۔ اپنی گفتگو میں انہوں نے ایک تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ ’’اس وقت دنیا میں جتنے بھی ملک ہیں ان میں کہاں سے اسلام کی نشاۃ ثانیہ ہوسکتی ہے؟ ان (تحقیق کرنے والوں )کا ماننا تھا کہ پاکستان سے اسلامی نظام کا احیاء ہوگا۔
اسلام غالب ہوکر رہے گا۔ اسی پاکستان سے (یہ کام) ہوکر رہے گا۔‘‘ان کا استدلال تھا کہ ’’پاکستان کا دستور اسلامی ہے۔ اس ملک کو عملی طورپر مسلمان بنانا ہے۔ جس کے لئے بچوں کا بہت اہم کردار ہے۔ ان کو دین کی تعلیم دینا ہے اور دین سکھانا ہے۔آج کل مغرب کی مادیت پسندی سے ہمارے لوگ بہت مرعوب ہیں، ان میں خاص طورپر نوجوان شامل ہیں۔ لباس کے علاوہ گفتگو بھی انگریزی میں کرتے ہیں۔‘‘ایڈمرل عباسی تڑپ کر کہتے ہیں کہ ’’ حالانکہ ہمارے دل اپنے اسلاف اور اپنی عظمت رفتہ سے جڑے ہونے چاہئیں۔ جب مسلمان عروج پر تھے، اس وقت ہمارا کیا مقام تھا، یہ کسک ہمارے دل میں ہونی چاہئے۔ ہمارے دل میں مسلمانوں کو عروج پر لے کر جانے کی تمنا ہونی چاہئے۔‘‘پھر تمام باتوں کی اصل بات کہہ ڈالی کہ مغرب کے نیچے لگ کرآگے جانے کی کوشش نہ کریں۔ ساتھ ہی علامہ اقبال کا یہ شعر بھی پڑھا کہ …؎
اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی
انہوں نے اقبال کے سچے طالب علم کے طورپر اس شعر کی تفسیر بھی کی اور کہاکہ ’’ہم جب قوم رسول ہاشمی بن جاتے اور کلمہ پڑھ لیتے ہیں تو ہماری ملت کی ترکیب الگ ہوجاتی ہے۔ وہ مغرب کی تقلید کرکے کبھی فلاح اور عروج نہیں پاسکتی، ترقی نہیں کرسکتی۔ یہ بات آپ میری لکھ لیں۔ اس میں کوئی شک وشبہ نہیں۔ زبان سے کلمہ پڑھا ہے اور دل کفار کے ساتھ؟ تقلید کرکے آپ ترقی کرسکتے تو یہ بات منافقت کے درجے میں آجاتی ہے۔‘‘ وہ کہتے ہیں کہ ’’پاکستان کے (قیام کے) مقاصد کو حاصل نہیں کیا، اس کی طرف زیادہ پیش قدمی بھی نہیں کی۔ اللہ تعالیٰ سورۃ توبہ آیت 77اور 75 میں وعدہ خلافی کی سزا کو منافقت بیان کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ دلوں میں نفاق ڈال دیتا ہے۔ نبی نے منافق کی تین نشانیاں بیان فرمائی ہیں جبکہ ایک اور روایت میں چوتھی نشانی بھی بیان فرمائی۔ آپ نے فرمایا کہ منافق جب بات کرے تو جھوٹ بولے، وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے۔ امانت میں خیانت کرے، بات بات پر گالم گلوچ کرے۔‘‘ ایڈمرل صاحب نے توجہ دلاتے ہوئے کہاکہ ’’آج ہم اپنا جائزہ لیں تو من حیث القوم ہم سب میں ان میں سے کوئی ایک خوبی ضرور ہوگی۔ سب اپنا احتساب کریں۔‘‘
انہوں نے اپنا پسندیدہ شعر بھی سنایا کہ
نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیب حاضر کی
یہ ثنائی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے
ان کی اس گفتگو پر جہاں لوگوں کو خوشگوار حیرت ہوئی، وہاں یہ اشتیاق اور تحقیق بھی شروع ہوئی کہ ان کا اظہار محض گفتگو تک ہے؟ لیکن پھر جب معلوم ہوا کہ وہ ’چھپے رستم نکلے‘، ان کے اندر اقبال کی فکر کی ’’بوٹی نے مشک مچایا ہوا ہے‘‘، وہ عمل کی راہ پر بھی اسی دردمندی سے کاربند ہیں۔ وہ خاموش اور خوبصورت انقلاب سے دوچار ہوچکے ہیں جس کی پیروی بری اور فضائی فوج میں بھی ہورہی ہے۔ایڈمرل ظفر محمود عباسی کی ہدایت پر پاک بحریہ اور بحریہ فائونڈیشن کے تحت چلنے والے تمام اسکولوں میں قران فہمی لازمی طور پر پڑھائی جارہی ہے۔ اس عظیم مقصد کے لیے اساتذہ کی تربیت کی گئی اور نئے اساتذہ کی خدمات بھی حاصل کی گئی ہیں۔ یہ سلسلہ یہی پر ختم نہیں ہوا۔ قرآن کریم کی خدمت کا یہ دائرہ یوں وسیع کیا کہ بحریہ کے رہائشی علاقوں میں قرآن مراکز کا آغاز جہاں نہ صرف بچوں کو اللہ تعالی کے کلام کو معانی اور مفہوم کے ساتھ پڑھایا جارہا ہے بلکہ بڑی عمر کے افراد بھی ان چشموں سے سیراب ہورہے ہیں۔ بچوں کو اسلامی اقدار سے روشناس کرایا جاتا ہے۔ اقبال فہم ہونے کی بناء پر وہ مغربی ذہنی غلامی سے اپنی قوم کو نجات دلانے کی تحریک برپا کئے ہوئے ہیں۔ اسلامی لباس اور اسلامی شعائرکی ترویج کا مشن جاری ہے۔ علامہ اقبال کے فکری انقلاب تعارف کرایا جارہا ہے۔ بحریہ یونیورسٹی میں ’اقبال چئیر‘ کا قیام اسی سوچ کی روشنی سے پھوٹنے والی کرن ہے۔ پاک بحریہ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ اب تک ایک سو ایسے افسران کو شامل کیاگیا ہے جو مذہب کی حقیقی روح سے روشناس کرانے کا عظیم ومبارک فریضہ انجام دے رہے ہیں۔ ایک مسلمان عملی طورپر کیسا ہوتا ہے، اس کا رویہ، اس کا کردار یہ سب سکھانا ہی ان افسران کی ذمہ داری ہے۔ یہ افسران خطبہ جمعہ دیتے ہیں اور اسلامی تعلیمات کی روشنی میں آج کی دنیا میں درپیش مسائل پر عوام کی رہنمائی کرنے کی سعادت پاتے ہیں۔پاک بحریہ کے زیرانتظام مساجد کی دیکھ بھال اور تزئین کی طرف توجہ دی گئی۔ خطیب اور امام مساجد کی تعداد دو گنا کی گئی۔ پاک بحریہ اکیڈمی کے کیڈٹس کے لئے عربی تعلیم لازم جبکہ پی این ایس جوہر کی ڈگری میں قرانی عربی کا نفاذکیا گیا ہے۔اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔
ایڈمرل عباسی نے توشہ آخرت جمع کرلیا۔ پاک بحریہ کے کئی سربراہ آئے اور کئی آئیں گے لیکن ان کو پاک بحریہ کے اعلی ترین منصب کی بناء پر یاد نہیں رکھا جائے گا۔ ان کی شناخت کا حوالہ قرآن کریم، عشق رسول کریم اور اسلام ہے۔ جس کے حوالے یہ ہوں‘ وہ دنیاوی رتبوں سے کبھی بھی نہیں پہچانے گئے۔ خدام القرآن، عاشقان نبی اور مخلصان دین تو ہمیشہ غوث، قطب، ابدال، قلندر، محدث، مفسر، ثناء خوان قران ونبی کہلائے۔ ان کے دربار بنے۔ ان کے آستانے کبھی ویران نہیں ہوئے۔ وہ اس دنیا میں مراد کو پہنچے اور آخرت بھی ان کی ہے کیونکہ اصل ریاست مدینہ تو امیر البحر بنارہے ہیں۔