16 دسمبر تا … 16 دسمبر !

گذشتہ روز بھارتی صوبے جھارکھنڈ کی راجدھانی رانچی کے نواح میں ایک اجتماع سے خطاب کرتے کانگرس کے نائب صدر ’’ راہل گاندھی‘‘ نے کہا کہ ’’ مودی ’’ میک ان انڈیا‘‘ کے نعرے لگاتے تھے لیکن اب ان کے عہد اقتدار میں یہ درحقیقت ’’ ریپ ان انڈیا‘‘ بن چکا ہے‘‘۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ بہت سے مغربی میڈیا کے حلقے گذشتہ کئی سالوں سے بھارت میں بڑھ رہی عصمت دری کی وارداتوں پر دہلی کو ’’ ریپ کیپیٹل آف انڈیا‘‘ کا نام دیتے آئے ہیں۔جس تیزی سے ہندوستان تباہی کے راستے پر گامزن ہے، اس صورتحال میں غالباً پروین شاکر کا یہ شعر تھوڑی سی ترمیم کے ساتھ موزوں ہو گا ’’ سانحہ کوئی مگر بھارت میں ہونے کو ہے‘‘۔
غیر جانبدار مبصرین نے رائے ظاہر کی ہے کہ بھارتی حکمران نہ صرف کشمیریوں کے خلاف بھیانک انسانی جرائم میں ملوث ہیں بلکہ تمام عالمی ضابطوں اور بین الاقوامی قوانین اور روایات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ہمسایہ ممالک میں مسلح مداخلت کے بھی مرتکب ہوتے رہتے ہیں ۔اس امر کی سنگین ترین مثال 16دسمبر 1971 کو پاکستان کو قوت اور سازشوں کے بل پر دو لخت کرنا ہے۔یہ بات کسی سے بھی غالباً مخفی نہیں کہ پاکستان کی تاریخ میں سولہ دسمبر سیاہ ترین دن کی حیثیت اختیار کر چکا ہے کیونکہ 47 برس قبل بھارت کی کھلی جارحیت کے نتیجے میں وطن عزیز کو دو لخت کر دیا گیا تھا ۔ اور اس سانحے کے 43 برس بعد سولہ دسمبر 2014 کو اس دن کی سیاہی میں اس وقت مزید اضافہ ہو گیا جب پشاور میں 150 سے زائد معصوم روحیں سفاک دہشتگردوں کی بھینٹ چڑھ گئیں ۔
اس صورتحال کا جائزہ لیتے مبصرین نے کہا ہے کہ یہ امر انتہائی توجہ کا حامل ہے کہ حالیہ دنوں ہندوستان کی پاکستان کے خلاف جاری دیرینہ سازشوں میں سرعت کے ساتھ اضافہ ہو ا ہے جس کا ثبوت اس امر سے ملتا ہے کہ ساڑھے چار سال پہلے چھ اور سات جون 2015 کو اپنے دورہ بنگلہ دیش کے دوران بھارتی وزیر اعظم مودی نے کھل کر اس امر کا اعتراف کیا تھا کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور بنگلہ دیش کے قیام کی خاطر بھارتی فوج نے اپنا خون بہایا ہے اور پاکستان کو دو لخت کرنے کے اس عمل پر مودی سمیت ہر بھارتی کو فخر ہے ۔ماہرین نے کہا ہے کہ یوں تو اس کھلے راز سے ہر کوئی بخوبی آگاہ تھا کہ پاکستان کو توڑنے میں میں بنیادی کردار ہندوستان اور بھارتی فوج نے ہی ادا کیا تھا مگر ہندوستان کے وزیر اعظم نے ڈھاکہ میں اپنے اعترافی بیان میں جس انداز میں بین الاقوامی قوانین کا کھلم کھلا تمسخر اڑاتے ہوئے اس مکروہ جرم پر شرمندہ ہونے کی بجائے اس کا کریڈٹ لینے کی کوشش کی تھی وہ اتنا قابلِ مذمت ہے جس پر تنقید کرنے کے لئے بھی مناسب الفاظ کا ڈھونڈ پانا خاصا مشکل ہے ۔
اس صورتحال میں اقوامِ متحدہ سمیت عالمی برادری کی موثر قوتوں کو آگے بڑھ کر اپنا کردار نبھانا ہو گا وگرنہ دوسرے ملکوں کے اندرونی معاملات میں مداخلت اور قوت کے زور پران کی جغرافیائی سرحدوں کو تقسیم کر دینا آنے والے دنوں میں آئے روز کا معمول بن کر رہ جائے گا اور عالمی امن بری طرح متاثر ہو گا ۔ اسی کے ساتھ ساتھ پاکستان کی حکومت کا فرض ہے کہ سفارتی محاذ پر دنیا بھر میں ہندوستان کی اس مکروہ روش کو بے نقاب کرے اور تمام عالمی اداروں اور بین الاقوامی میڈیا کے ذریعے بھارت کے امن پسندی کے نام نہاد دعووں کی حقیقت کا پردہ چاک کرے تا کہ دہلی کے حکمرانوں کی جمہوریت ، سیکولر ازم اور انسان دوستی کا اصل چہرہ دنیا کے سامنے آ سکے ۔
سبھی جانتے ہیں کہ16دسمبر 1971 کو پاکستان کے مشرقی با زو کا الگ ہو جانا یقینا ملکی تاریخ کا سب سے بڑا سانحہ ہے ،اور اس پر جتنا بھی افسوس اور غور و فکر کیا جائے وہ کم ہے تاکہ آ نے والے ادوار میںدشمن کی ان ریشہ دوانیوںکا خاطر خواہ ڈھنگ سے جواب دیا جا سکے۔دوسری جانب امن پسند حلقے اس بات پر متفق ہیں کہ سرحد پار دہشت گردی کی اس سے بڑی مثال گذشتہ نصف صدی میں شائد ہی کوئی دوسری ملے گی ۔
اس حوالے سے یہ امر خصوصی طور پر پیش نظر رہنا چاہیے کہ بھارت نے بڑی مہارت کے ساتھ خود پر سیکولرازم اور جمہوریت کا لبادہ اوڑھا ہوا ہے اور اس کے اس دعوے کو کسی حد تک عالمی برادری کا ایک بڑا حلقہ قبولیت کا بھی شرف بخشے ہوئے ہیں۔ اسی تناظر میں غیر جانبدار طبقات کی رائے ہے کہ جہاں تک بھارتی سیکولرازم کے دعووں کا تعلق ہے تو یہ قطعاً ایک الگ معاملہ ہے ،بھارتی انتخابات میں جمہوریت اور سیکولرازم کی اصل رو کہاں تک کارفرما ہے اور اسے کتنا معتبر قرار دیا جانا چاہیے، کیونکہ یہ بھی کوئی راز کی بات نہیں کہ بھارت میں دراصل RSS کے زعفرانی جنون اور کانگرس کی ’’سافٹ ہندوتوا پالیسیوں‘‘کے مابین رسہ کشی جاری ہے اور یہ صورتحال نئی بھی نہیں بلکہ اس کے بیج تو تبھی بو دئیے گئے تھے جب اقوام متحدہ کی منظور کردہ قرار دادوں کے باوجود کشمیریوں کو استصواب رائے کا حق نہیں دیا گیا اور دہلی نے اس پر اپنا غاصبانہ تسلط جما رکھا ہے۔
اگرچہ اپنے ابتدائی برسوں میں نہرو ظاہری طور پر کشمیریوں کی بابت اقوام متحدہ کی قرار دادوں پر عمل درآمد کا دعویٰ کرتے رہے مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بھارت اپنے سبھی وعدوں کو فراموش کر بیٹھا۔ کانگرس کی ان پالیسیوں میں پوری شدت تب پیدا ہوئی جب اندرا گاندھی نے اقتدار سنبھالا۔ تب تو گویا بھارت نے تمام ظاہری تکلفات کو بھی بالائے طاق رکھتے ہوئے پاکستان کو دولخت کر دیا اور اس ضمن میں واجپائی جیسے نسبتاً اعتدال پسند اور کانگرسی پالیسیوں میں فرق مکمل طور سے مٹ گیا جب واجپائی نے 1971 کی لڑائی کے فوراً بعد اندرا گاندھی کو ’’درگا ماتا‘‘ کے لقب سے نوازتے ہوئے انھیں خراج تحسین پیش کیا، اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کانگرسی سیکولرازم اور BJP و RSS ایک ہی سکے کے دو رُخ بن کر رہے گئے اور یہ سلسلہ ہنوذ جاری ہے۔ تبھی تو پانچ صوبوں میں ہونے والی انتخابی مہم کے دوران راہل گاندھی اور مودی کے درمیان گویا یہ مقابلہ جاری تھا کہ دونوں خیموں میں سے کون بڑا ’’رام سیوک ‘‘ ہے۔ یوں ہر سال 16 دسمبر 1971 اور 16 دسمبر 2014 سانحوں کی برسی مناتے ہوئے اس ساری صورتحال کو ذہن نشین رکھنا چاہیے اور ہر طریقے سے اپنی اصلاحِ احوال کی جانب بھی خاطر خواہ توجہ مرکوز کی جانی چاہیے ۔

ای پیپر دی نیشن