سلیم مانڈوی والا، آسٹریلین ماڈل، محمد عامر اور لاہور میں گندگی!!!!

ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سلیم مانڈوی والا نیب کے پیچھے ہیں۔ وہ احتساب کے اس ادارے کے اقدامات اور فیصلوں کے پیچھے ایسا پڑے ہیں کہ ہر روز کچھ نہ کچھ نیا ضرور کرتے ہیں لیکن وہ اس نیب مخالف تحریک میں کچھ نیا ضرور کر رہے ہیں۔ وہ قومی احتساب بیورو مخالف تحریک میں بہتر حکمت عملی کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ جس شعبے یا جس حلقے کو ساتھ ملا رہے ہیں وہ نیب سے تنگ بھی ہے، ملک کا اہم حصہ بھی ہیں اور کوئی بھی حکومت اس کمیونٹی کو نظر انداز بھی نہیں کر سکتی۔ سلیم مانڈوی والا خود تو نیب کے مخالف ہیں ہی اب انہوں نے ملک میں نیب متاثرہ اہم حلقوں کو ساتھ ملانا شروع کیا ہے اور یہ جمہوری طریقہ ہے جس سے وہ ناصرف رائے عامہ ہموار کر سکتے ہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ حکومت پر بھی دباؤ بڑھے گا۔ نیب کی پوزیشن پر فرق آئے گا وہ دفاعی حکمت عملی اختیار کرنے پر مجبور ہوں گے یا پھر محتاط رویہ تو ضرور اپنائیں گے۔ 
سلیم مانڈوی والا درست ہیں یا غلط یہ تو الگ بحث ہے لیکن لیکن نیب اور ان کے درمیان جو میچ اعصاب کی جنگ ہے اس میں کسی کی فتح یا شکست بھلے نہ ہو لیکن بہتر حکمت عملی سے کوئی ایک فریق مشکل وقت ضرور نکال سکتا ہے، بہتر حکمت عملی سے ہواؤں کا رخ تبدیل کیا جا سکتا ہے دباؤ میں کمی لائی جا سکتی ہے اور مخالف کو پر دباؤ بڑھایا جا سکتا ہے۔ اس حکمت عملی کو دیکھتے ہوئے سلیم مانڈوی والا کو کریڈٹ دینا پڑے گا کہ انہوں نے اپنی پوزیشن اور سیاسی سی حیثیت کا بھی بہتر استعمال کیا ہے۔ ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کہتے ہیں کہ کمرشل ٹرانزیکشن اور امپورٹ ایکسپورٹ چیک کرنا قومی احتساب بیورو کا کام نہیں ہے۔  وہ سرحد ایوان صنعت وتجارت میں خطاب میں کر رہے۔ وہ کہتے ہیں کہ نیب کو ایف بی آر کا کام کرنا ہے تو ان اداروں کو بند کر دیں۔ انہوں نے تاجر برادری سے متعلق نیب کے طریقہ کار کو ختم کرنے کی بات کی ہے۔ ڈپٹی چیئرمین سینیٹ نے پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں نیب قوانین تبدیل نہ کرنے کی غلطی بھی تسلیم کر لیا۔ 
نیب کی کارکردگی تو الگ بحث ہے لیکن ادارے کی کارکردگی کے حوالے عوامی سطح پر بھی اچھی رائے نہیں پائی جاتی۔ بالخصوص کاروباری طبقہ بہت زیادہ مسائل کا شکار ہے۔ عدم تحفظ کا احساس ہر گذرتے دن کے ساتھ بڑھ رہا ہے۔ صرف یہی نہیں کہ سیاست دان نیب سے پریشان ہیں بلکہ کاروباری طبقہ بھی مشکل میں ہے۔ ماضی میں حکومت کرنے والی دونوں جماعتوں نے نیب قوانین پر بددیانتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس طرف توجہ نہیں دی کیونکہ آصف علی زرداری نے میاں نواز شریف اور ان کے ساتھیوں جبکہ میاں نواز شریف نے اپنے سیاسی مخالفین کو پھنسانے کے لیے متنازع نیب قوانین پر توجہ نہیں دی۔ دونوں جماعتوں کا خیال تھا کہ کسی اور نے تو آنا نہیں لہذا بوقت ضرورت یہ نیب کے متنازع قوانین کو استعمال کر سکیں گے۔ اب دونوں اپوزیشن میں ہیں تو نیب قوانین میں تبدیلی سب سے بڑا مسئلہ معلوم ہو رہا ہے۔ سپریم کورٹ میں جعلی بینک اکاؤنٹس کیس میں جسٹس عمر عطا بندیال نے نیب پراسیکیوٹر سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ چیئرمین نیب اور آپ کے سوا کوئی ایک شخص بتائیں جو نیب کی تعریف کرتا ہو۔  جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ عوامی عہدہ رکھنے والوں کا احتساب ہرصورت ہونا چاہیے لیکن نیب اپنے قوانین کا اطلاق سب پر یکساں نہیں کر رہا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ نیب کی وجہ سے لوگ پاکستان میں سرمایہ کاری نہیں کریں گے۔ جب کسی بھی ادارے کے بارے میں ملک کی سب سے بڑی عدالت میں اس قسم کے ریمارکس سامنے آئیں کہ نیب اپنے قوانین کے اطلاق میں امتیازی سلوک اختیار کر رہا ہے یا پھر یہ سننے کو ملے کہ پورے ملک میں صرف دو افراد ہی نیب کو اچھا سمجھ رہے ہیں تو پھر یہ سمجھنے میں کوئی مشکل باقی نہیں رہتی کہ آخر مسائل کس طرف ہیں اور مسائل کی وجہ کیا ہے۔ معزز جج صاحبان کے ریمارکس بلاوجہ نہیں ہوتے یہ ایک طرح سے سے خطرے کی گھنٹی ہوتے ہیں اور اگر ادارے اسے خطرہ سمجھ کر بہتر ی اور اصلاح کا پہلو نکال لیں تو اس سے ناصرف اداروں کا وقار بحال ہوتا ہے بلکہ آدمی کے مسائل حل ہونے کا راستہ بھی نکلتا ہے۔ جہاں تک سیاستدانوں کا تعلق ہے تو ان کے خلاف نیب کیسز تو معمول کی بات ہے لیکن ایسے امتیازی اقدامات کی وجہ سے ملک میں سرمایہ کاری کو پہنچنے والے نقصان کا ازالہ کرنا نہیں ہے۔ سیاست دان نیب قوانین کو تو پسند نہیں کرتے لیکن کرپشن کو روکنے کے لیے بھی سنجیدہ اقدامات نہیں کرتے۔ غیر قانونی اقدامات، اختیارات کا ناجائز استعمال اور حدود سے تجاوز ترک نہیں کرتے یہی وجہ ہے کہ نیب انہیں ہدف بناتا ہے اگر سیاسی قیادت عزم کرے کہ کرپشن نہیں کرنی نہ ہی کرپٹ عناصر کا ساتھ دینا ہے تو بہت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ آج پاکستان تحریکِ انصاف حکومت ہے وہ نیب کے ساتھ ہے آنے والے دنوں میں اگر وہ اپوزیشن میں ہوئے تو اسی نیب کو برا بھلا کہیں گے۔
لاہور میں جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر ہیں نجانے کیوں کسی کو کچھ خبر نہیں یا کسی کو فکر نہیں یا صفائی حکومت کی ترجیحات میں شامل نہیں رہی جو بھی ہے لاہور میں صفائی کا نظام نہایت ناقص ہو چکا ہے۔ ٹیلیویڑن چینلز اس حواے سے خبریں بھی نشر کر رہے ہیں۔ ہر طرف یہی صورتحال ہے شہر میں نکلیں ہر گلی میں کوڑے کے ڈھیر نظر آتے ہیں۔ یہ گندگی ناصرف مختلف بیماریوں کا باعث ہے بلکہ ماحول کو بھی آلودہ کر رہی ہے۔ کرونا کے دنوں میں یہ رویہ نہایت پریشان کن ہے۔ اس سے بھی پریشان کن سینٹری ورکرز کا حفاظتی سامان کے بغیر کام کرنا ہے حالانکہ سپریم کورٹ اس حوالے سے فیصلہ موجود ہے لیکن صوبوں نے عملدرآمد نہیں کیا۔ لاہور میں گندگی کے ڈھیر ہیں تو کراچی میں سینٹری ورکرز کا مسلسل حفاظتی سامان کے بعیر کام کرنا بھی کرونا کے پھیلاؤ کا سبب ہے۔ معاشرے کے ان کمزور افراد کو نہ تو اچھی تنخواہ ملتی ہے نہ ان کی صحت کی کسی کو فکر ہے نہ ان کی زندگی کی کوئی قیمت ہے یہی وجہ ہے حکمران اس کمزور طبقے کی ضروریات کو پورا کرنے کے بجائے انہیں مکمل طور پر نظر انداز کر رہے ہیں۔ چونکہ یہ کمزور لوگ ہیں زیادہ سے زیادہ احتجاج کریں گے حکومت طاقت کے زور پر ان کا احتجاج بھی ختم کروا دے گی۔ حکمرانوں کی نظر میں کچرے کو ٹھکانے لگانے والوں کو سہولیات مہیا کرنا ترجیحات میں شامل نہیں ہے۔ تمام صوبوں کو اس اہم مسئلے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ لاہور میں میٹرو بس سٹاف کو کئی ماہ سے تنخواہیں نہیں دی گئیں اس وجہ سے سٹاف کی طرف سے ہڑتال معمول بن چکا ہے جس دن ہڑتال ہوتی ہے اس دن شہریوں کو مفت سفر کی سہولت ملتی ہے کیونکہ ٹکٹ جاری کرنے والے ہڑتال ہر ہوتے ہیں اور شہری مفت سفر کے مزے لیتے ہیں یوں خزانے کو لاکھوں کا نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے۔ حکومت میٹرو سٹاف کے مسائل کو حل کرے اور منصوبے کا خسارہ کم کرنے کے لیے کام کرے۔
فاسٹ باؤلر محمد عامر نے بین الاقوامی کرکٹ کو خیر باد کہہ دیا ہے۔ انہوں نے پاکستان کرکٹ بورڈ اور ٹیم انتظامیہ کے رویے سے تنگ آ کر ریٹائرمنٹ کا اعلان کر دیا ہے۔ اب وہ قومی ٹیم کی طرف سے ایکشن میں نظر نہیں آئیں گے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کی سلیکشن کمیٹی اور ٹیم مینجمنٹ محمد عامر کو مسلسل نظرانداز کر رہی تھی۔ محمد عامر کے اس فیصلے نے کرکٹ بورڈ، سلیکشن کمیٹی مصباح الحق اور وقار یونس کے لئے آسانی پیدا کرنے کے لیے کھیل کے میدانوں کو خیر باد کہا ہے۔ آپ امید کی جاسکتی ہے کہ مصباح الحق اور وقار یونس کو محمد عامر کے حوالے سے سوالات کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ ایک ایسا کھلاڑی جو دنیا میں پاکستان کی پہچان ہے اسے اچھی کارکردگی کے باوجود نظر انداز کیا گیا ہے۔ اس نے جو غلطی کی اس کی سزا بھگتنے کے بعد پاکستان کے لئے کامیابیاں حاصل کیں ہونا تو چاہیے تھا کہ کرپٹ لوگوں سے جان چھڑا کر واپس آنے والے فاسٹ باؤلر کو عزت کے ساتھ ملک کی نمائندگی کا موقع دیا جاتا ہے لیکن بدقسمتی سے اسے وقت سے پہلے کھیل کے میدانوں سے دور ہونے پر مجبور کر دیا گیا ہے۔ مصباح الحق وقار یونس جو کہ لاکھوں روپے ماہانہ تنخواہ لیتے ہیں وہ سب مل کر بھی کسی ایک فاسٹ باؤلر کو عامر کی صلاحیت کے قریب بھی نہیں لا سکتے۔
دوسری طرف چیف سلیکٹر کے لیے محمد وسیم کی خبریں ہیں بورڈ کو ہر طرف محمد وسیم ہی نظر آ رہا ہے۔ وہ کسی کو فون ملاتے ہیں تو وسیم کو ملتا ہے۔ اس سے پہلے مصباح الحق کو آسمان پر اٹھایا گیا، محسن خان کو نجات دہندہ بتایا گیا، بڑی امیدوں کے ساتھ اقبال قاسم کو عہدہ دیا گیا اب بالکل ویسے ہی محمد وسیم کو دنیا کا بہترین کرکٹر ثابت کیا جائے گا وقت آنے پر اسے بھی گھر بھیج دیا جائے گا۔ حالانکہ محمد یوسف اور اس کا کوئی مقابلہ نہیں لیکن کرکٹ بورڈ کو ٹشو پیپر کی ضرث تھی وہ مل گیا ہے۔ آسٹریلوی ماڈل نافذ کرنے کے بعد کھلاڑیوں کے لیے مواقع اس حد تک کم ہو چکے ہیں کہ اچھے بھلے کرکٹرز پھل اور سبزیاں بیچنے پر مجبور ہیں۔ کرکٹرز کو تنخواہیں نہیں مل رہیں اور آفیشلز سے مراعات بھی سنبھالی نہیں جا رہیں۔ کبھی چیئرمین چھٹیوں ہر ہوتے ہیں کبھی وسیم خان بذریعہ زوم بورڈ چلاتے ہیں لیکن انہیں کبھی مالی نقصان نہیں ہوا جبکہ کرکٹرز کو موجودہ انتظامیہ کوئی فائدہ دینے میں ناکام رہی ہے یہی ہماری بدقسمتی ہے کہ کھیلنے والے کم ہو رہے ہیں یہی حال رہا تو کرکٹر کی ضرورت ہے کا اشتہار دینا پڑے گا۔

ای پیپر دی نیشن