تنظیم تعاون اسلامی ایک بین الاقوامی تنظیم ہے جس میں مشرق وسطی، شمالی، مغربی اورجنوبی افریقا، وسط ایشیا، یورپ، جنوب مشرقی ایشیا اور برصغیر اور جنوبی امریکا کے 57 مسلم اکثریتی ممالک شامل ہیں۔ او آئی سی 1.2 ارب مسلمانوں کے مفادات کے تحفظ کے لیے کام کرتی ہے او آئی سی میں پالیسی ترتیب دینے میں سب سے اہم کام رکن ممالک کے سربراہان کا اجلاس ہے، جو ہر تین سال بعد منعقد ہوتا ہے۔سال میں ایک مرتبہ فیصلوں پر عملدرآمد کی صورتحال اور غور کے لیے وزرائے خارجہ کا اجلاس طلب کیا جاتا ہے او آئی سی کا مستقل دفتر سعودی عرب کے شہر جدہ میں قائم ہے۔ اس وقت او آئی سی کے سیکرٹری ایاد بن امین مدنی ہیں جن کا تعلق سعودی عرب سے ہے۔ ایاد امین مدنی اسلامی تعاون تنظیم کے سابق سیکرٹری جنرل، سعودی عرب کی وزارت حج، ثقافت اور تبلیغ کے سابق وزیر اور شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز انسٹی ٹیوٹ کے بورڈ آف ٹرسٹیز کے نائب چیئرمین ہیں۔وہ 31 جنوری 2014ء سے اس عہدے پر فائز ہیں۔پاکستان کی میزبانی میں ، اسلامی تعاون تنظیم ، او آئی سی وزرائے خارجہ کونسل کا غیر معمولی اجلاس 19 دسمبر کو اسلام آباد میں ہوگا۔۔ قبل ازیں وزرائے خارجہ اجلاس کے انعقاد کی تاریخ 17 دسمبر رکھی گئی تھی جو 19 دسمبر کردی گئی۔ دفترِ خارجہ کا کہنا ہے کہ پاکستان او آئی سی اجلاس کی میزبانی کے فرائض انجام دیگا۔ااس غیر معمولی اجلاس کا مقصد افغانستان میں انسانی بحران آنے سے قبل ضروری اقدامات کرنا ہے۔ کانفرنس میں سلامتی کونسل کے مستقل اراکین کو بھی شرکت کی دعوت دی گئی ہے۔پاکستان نے کانفرنس میں شرکت کیلئے ورلڈ بینک سمیت دیگر عالمی مالیاتی اداروں کو بھی شریک ہونے کی دعوت دی ہے۔ پاکستان افغانستان میں قیامِ امن کیلئے عالمی برادری سے تعاون کا خواہاں ہے۔ غیر معمولی اجلاس کا مقصد، افغانستان کی سنگین انسانی صورتحال پر غور و خوض کرنا اور موثر لائحہ ء عمل طے کرنا ہے۔ اقوام متحدہ کے تخمینے کے مطابق،اس وقت افغانستان کے 38 ملین افراد میں سے 50 فیصد کو ‘‘بھوک کے سنگین بحران’’ کا سامنا ہے اور یہ صورتحال روز بروز بدتر ہوتی جا رہی ہیاجلاس میں بین الاقوامی اور علاقائی تنظیموں کو بھی مدعو کیا جا رہا ہے،اجلاس، افغان عوام کی انسانی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے ٹھوس اقدامات پر غور و خوض کا موزوں موقع فراہم کرے گا غیر معمولی اجلاس کا مقصد، افغانستان کی سنگین انسانی صورتحال پر غور و خوض کرنا اور موثر لائحہ عمل طے کرنا ہے۔ اقوام متحدہ کے تخمینے کے مطابق،اس وقت افغانستان کو ‘‘بھوک کے سنگین بحران’’ کا سامنا ہے اور صورتحال روز بروز بدتر ہوتی جا رہی ہیے سنگین بحران’’ کا سامنا ہے اور یہ صورتحال روز بروز بدتر ہوتی جا رہی ہے۔ورلڈ فوڈ پروگرام نے خبردار کیا ہے کہ افغانستان میں 3.2 ملین بچے شدید غذائی قلت کے خطرات سے دوچار ہیں۔ یو این او سی ایچ اے کے مطابق،جنوری اور ستمبر 2021 کے درمیان 665,000 نئے افراد افغانستان کے اندر بے گھر ہوئے ہیں۔قبل ازیں، افغانستان میں اندرونی طور پر بے گھر ہونے والے 2.9 ملین افراد ان کے علاوہ ہیں۔پاکستان، اپنے محدود وسائل کے باوجود، پچھلی کء دہائیوں سے 40 لاکھ افغان مہاجرین کی میزبانی کر رہا ہیافغانستان او آئی سی کے بانی اراکین میں شامل ہے۔ امت مسلمہ کا حصہ ہونے کے ناطے، ہم افغانستان کے لوگوں کے ساتھ دوستی اور بھائی چارے کے برادرانہ بندھنوں میں بندھے ہوئے ہیں۔ او آئی سی نے ہمیشہ افغانستان کے عوام کی حمایت کی ہے۔ آج پہلے سے کہیں زیادہ افغان عوام کو او آئی سی سمیت عالمی برادری کی حمایت کی ضرورت ہیپاکستان اس ضمن میں مسلسل اپنی سفارتی کاوشیں جاری رکھے ہوئے ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کے عالمی رہنماؤں کے ساتھ افغانستان کی صورتحال پر رابطے ہوئے ہیں جبکہ میں خود، علاقائی سطح پر مشترکہ لائحہ عمل کی ترویج کیلئے افغانستان کے قریبی پڑوسی ممالک (ایران، تاجکستان، کرغزستان،اور ترکمانستان) کا دورہ کر چکا ہوں، پاکستان کی سفارتی کاوشوں سے، افغانستان کے چھ پڑوسی ممالک کا پلیٹ فارم تشکیل پا چکا ہے,مسلم امہ کی اجتماعی آواز کے طور پر، او آئی سی ، انسانی بحران پر قابو پانے میں، ہمارے افغان بھائیوں کی مدد کر سکتی ہے۔او آئی سی کی قیادت دیگر بین الاقوامی اداروں /تنظیموں کو آگے آنے اور افغان عوام کی مدد کیلئے ہاتھ بڑھانے کی ترغیب دینے میں موثر ثابت ہو سکتی ہے،افغانستان میں انسانی بحران کے خاتمے کے ذریعے معاشی استحکام کو یقینی بنانے میں مدد مل سکتی ہے۔موجودہ صورتحال میں افغانستان کے ساتھ بین الاقوامی برادری کی مسلسل معاونت ناگزیر ہے۔اس پس منظر میں، 19 دسمبر کو اسلام آباد میں منعقد ہونے والا او آئی سی کا غیر معمولی اجلاس، افغان عوام کی انسانی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے ٹھوس اقدامات پر غور و خوض کا موزوں موقع
فراہم کرے گا۔اوآئی سی کے غیر معمولی اجلاس کا مقصد افغان صورتحال پر غور کرنا ہے، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ او ا?ئی سی وزرائے خارجہ کے غیر معمولی اجلاس کا مقصد افغانستان کی سنگین صورتحال پر غور کرنا ہے۔و آئی سی وزرائے خارجہ کونسل کے آج اسلام آباد میں منعقد ہونے والے غیر معمولی اجلاس کے حوالے سے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ اس اجلاس میں کچھ بین الاقوامی اور علاقائی تنظیموں کو بھی مدعو کیا جارہا ہے، اس غیر معمولی اجلاس کا مقصد، افغانستان کی سنگین انسانی صورتحال پر غور و خوض کرنا اور موثر لائحہ عمل طے کرنا ہے،وزیر خارجہ نے کہا کہ سردیوں کی آمد نے افغانستان کی صورتحال کو مزید گھمبیر بنا دیا ہے، اگر اس صورت حال پر بروقت توجہ نہ دی گئی تو ایک بڑا انسانی بحران جنم لے سکتا ہے، افغانستان او آئی سی کے بانی اراکین میں شامل ہے، امت مسلمہ کا حصہ ہونے کے ناطے، ہم افغانستان کے لوگوں کے ساتھ دوستی اور بھائی چارے کے برادرانہ بندھنوں میں بندھے ہوئے ہیں، او آئی سی نے ہمیشہ افغانستان کے عوام کی حمایت کی ہے، آج پہلے سے کہیں زیادہ افغان عوام کو او آئی سی سمیت عالمی برادری کی حمایت کی ضرورت ہے.شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ وزیراعظم عمران خان کے عالمی رہنماؤں کے ساتھ افغانستان کی صورتحال پر رابطے ہوئے ہیں، میں خود، علاقائی سطح پر مشترکہ لائحہ عمل کی ترویج کیلئے افغانستان کے قریبی پڑوسی ممالک ایران، تاجکستان، کرغزستان اور ترکمانستان کا دورہ کرچکا ہوں، پاکستان کی سفارتی کاوشوں سے افغانستان کے 6 پڑوسی ممالک کا پلیٹ فارم تشکیل پاچکا ہے مسلم امہ کی اجتماعی آواز کے طور پراو آئی سی انسانی بحران پر قابو پانے میں ہمارے افغان بھائیوں کی مدد کرسکتی ہے
او آئی سی کا غیر معمولی اجلاس،افغان صورتحال پر اہم قدم
Dec 18, 2021