واشنگٹن(این این آئی)دہشت گردی سے متعلق سالانہ امریکی رپورٹ میں اعتراف کیا گیا ہے کہ سال 2020 میں پاکستان نے دہشت گردی کی مالی معاونت اور بھارت پر مرکوز عسکریت پسند گروپوں کو روکنے کے علاوہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف)کے مطالبات پورے کرنے کے لیے اقدامات کیے۔میڈیارپورٹس کے مطابق امریکی رپورٹ کے حوالے سے کہا گیا کہ پاکستان میں گزشتہ برس بھی دہشت گرد حملوں کا سلسلہ جاری رہا۔چنانچہ پاک فوج اور سیکیورٹی فورسز نے پاکستان کے اندر حملے کرنے والے گروہوں مثلا کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) عسکریت پسند گروپ داعش اور بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے)کے خلاف انسداد دہشت گردی کی کارروائیاں کیں۔رپورٹ میں کہا گیا کہ پاکستان نے 2020 میں دہشت گردی کی مالی معاونت اور بھارت پر مرکوز عسکریت پسند گروپوں کو حملے کرنے سے روکنے کے لیے اقدامات کیے۔علاوہ ازیں پاکستان نے لشکر طیبہ (ایل ای ٹی)کے بانی حافظ سعید اور لشکر طیبہ کے دیگر چار سینئر رہنماں کو دہشت گردی کی مالی معاونت کے متعدد مقدمات میں سزا سنائی۔اگرچہ رپورٹ میں دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی کوششوں کا اعتراف کیا گیا لیکن ساتھ ہی دعوی کیا گیا کہ افغانستان اور بھارت کو نشانہ بنانے والے گروہ جیسا کہ حقانی نیٹ ورک، لشکر طیبہ، اور جیش محمد پاکستان کی سرزمین سے کام کرتے رہے۔رپورٹ میں کہا گیا کہ پاکستان نے دیگر معروف دہشت گردوں جیسے کہ جماعت الدعو کے بانی اور اقوام متحدہ کے نامزد دہشت گرد مسعود اظہر اور 2008 کے ممبئی حملے کے پروجیکٹ مینیجرساجد میر کے خلاف کارروائی نہیں کی، جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ پاکستان میں آزاد ہیں۔تاہم یہ بھی تسلیم کیا گیا کہ پاکستان نے افغانستان میں امن عمل میں مثبت کردار ادا کیا، جیسا کہ طالبان کی تشدد میں کمی کی حوصلہ افزائی کرنا۔ایف اے ٹی ایف کے مطالبات کو پورا کرنے کے لیے پاکستان کے حوالے سے رپورٹ میں کہا گیا کہ پاکستان نے اپنے ایف اے ٹی ایف ایکشن پلان کو مکمل کرنے کی جانب سال 2020 میں اضافی پیش رفت کی لیکن ایکشن پلان کی تمام شرائط کو مکمل نہیں کیا اور ٹاسک فورس کی گرے لسٹ میں ہی رہا۔رپورٹ میں پاکستان کی حمایت کے عنوان سے ایک الگ باب میں کہا گیا کہ امریکی حکومت نے افغانستان اور وسیع تر علاقائی سلامتی میں پاکستان کے کردار کو تسلیم کیا اور پاکستان پر زور دیا کہ وہ اپنی سرزمین کے اندر دہشت گرد گروپوں کو ختم کرے۔رپورٹ میں نشاندہی کی گئی کہ امریکا نے پاکستان کے ساتھ انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں میں تعاون کیا جس نے پاکستان کو ملک کے ان حصوں پر دوبارہ دعوی کرنے میں مدد دی جو پہلے عسکریت پسند گروپوں کے قبضے میں تھے۔اس کے باوجود کالعدم ٹی ٹی پی اور دیگر نامزد دہشت گرد گروپ پاکستانی فوجی اور سویلین اہداف کے خلاف حملے جاری رکھے ہوئے ہیں جبکہ پاکستان نے ان نامزد دہشت گرد تنظیموں کے خلاف کچھ کارروائیاں کی ہیں، کچھ بیرونی جانب توجہ مرکوز کرنے والے دہشت گرد گروہوں کو پاکستان میں محفوظ پناہ گاہیں مل رہی ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا کہ یہی وجہ ہے کہ امریکی حکومت نے پاکستان کو دی جانے والی اپنی زیادہ تر سیکیورٹی امداد معطل کردی ہے اور یہ معطلی پورے سال 2020 میں نافذ رہی۔رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ سویلین امداد میں سول سوسائٹی کو ترجیح دی جاتی رہی، اس میں لوگوں سے لوگوں کا تبادلہ، پاک-افغان سرحد پر استحکام اور ترقی، تجارتی اور معاشی ترقی، امریکی کاروباری اداروں، قانون نافذ کرنے والوں کے ساتھ انسداد دہشت گردی کے سلسلے میں شراکت شامل ہے۔رپورٹ میں واضح کیا گیا کہ پاکستان کے لیے امریکی سویلین امداد کا زور جہاں ممکن ہو پائیدار ترقی اور استعداد کار میں اضافے، تجارت اور نجی شعبے کی سرمایہ کاری سے فائدہ اٹھانے پر رہا۔رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ امریکا نے بین الاقوامی منظم جرائم اور دہشت گردی کے نیٹ ورک کو روکنے اور پاکستانی شہریوں کو تحفظ اور انصاف فراہم کرنے میں مدد کرنے کے لیے سویلین قانون نافذ کرنے والے اداروں اور قانون کی حکمرانی کی حمایت کی۔واشنگٹن میں رپورٹ جاری کرنے والے امریکی سیکریٹری خارجہ انٹونی بلنکن نے خبردار کیا کہ عالمی سطح پر دہشت گردی کے حملوں کی تعداد اور ان حملوں سے ہونے والی ہلاکتوں کی مجموعی تعداد دونوں میں 10 فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔