لاہور (نیوز رپورٹر) وزیراعظم کے مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر نے کہا ہے کہ شہباز شریف گروپ کے خلاف میگا منی لانڈرنگ کی تحقیقات میں چالان ایف آئی آر نمبر 2020/39 ایف آئی اے پی ایس اینٹی کرپشن لاہور سپیشل کورٹ سنٹرل میں جمع کرا دی گئی ہے۔ وہ 90شاہراہ قائداعظم پر میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔ شہزاد اکبر نے کہا کہ چالان میں شہباز شریف اور حمزہ شہباز کو نہ صرف مرکزی ملزمان بلکہ 16ارب روپے سے زائد کی منی لانڈرنگ کے اصل فائدہ اٹھانے والوں کے طور پر ملزمان ٹھہرایا گیا ہے۔ تحقیقاتی ٹیم نے مرکزی ملزمان کی ہدایت پر لاہور اور چنیوٹ کے مختلف بینکوں میں شریف گروپ، شہباز شریف چپڑاسیوں و کلرکوں کے ناموں پر 2008 سے 2018 تک چلنے والے 28 خفیہ بے نامی بنک اکائونٹس کا پتہ لگایا۔ ان بے نامی کھاتوں میں ایسے افراد اور پارٹیوں کی جانب سے ڈیپازٹ حاصل کئے گئے جن کا چینی کے کاروبار سے کوئی تعلق نہیں تھا اور نہ غلط ذرائع بدعنوانی اور سیاسی تحائف وغیرہ سے ہونے والی ناجائز کمائی کو ظاہر کرتے ہیں۔ شہزاد اکبر نے کہا کہ مثال کے طور پر چپڑاسی گلزار احمد خان مرحوم کے نام پر ایک بے نامی اکائونٹ میں 5ملین روپے موصول ہوئے جس کے چیک گجرات کے اورنگ زیب بٹ کے تھے۔ اس بے نامی اکائونٹ سے 4 ملین روپے اکائونٹ ہولڈر کی موت کے بعد کسی نے آ کر پیسے نکلوائے وہ کوئی اور نہیں ماڈل ٹائون لاہور میں واقع شریف گروپ ہیڈ کے بلکہ شہباز شریف کے ذاتی کیشئر مسرور انور تھے۔ حمزہ شہباز اور شہباز شریف دونوں سے سوال کیا کہ آپ کے ذاتی اکائونٹس میں بھاری رقوم کون جمع کرواتا تھا تو وہ کچھ بھی کہنے سے قاصر تھے۔ شہباز شریف اس پورے کام کے جد امجد ہیں۔ 1990 میں بھی حدیبیہ پیپر ملز کیس میں یہی طریقہ اختیار کیا گیا۔ شہزاد اکبر نے کہا کہ انہوں نے بے نامی اکائونٹس استعمال کئے اور اقتدار ختم ہوتے ہی وہ اکائونٹس بند کر دیئے۔ چیف جسٹس آف پاکستان اور چیف جسٹس ہائی کورٹ سے ہماری گزارش ہے کہ آپ کو حکومتی سطح پر جو تعاون چاہیے ہم کریں گے مگر روزانہ کی بنیاد پر ان مقدمات کی سماعت کی جائے۔ جبکہ ان مقدمات کی براہ راست کوریج ہونی چاہئے تاکہ عوام کو پتہ چل سکے۔ اس کیس کا ایک ملزم برطانیہ میں موجود ہے جس کے پاس نیشنیلٹی بھی نہیں ہے، ان کے خاندان کے اسحاق ڈار سمیت 4 کیسز ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے تحویل مجرمان یعنی ایکسٹراڈیشن فائل کی تھی برطانیہ کو کیونکہ ان کے ساتھ ہمارا کوئی باقاعدہ معاہدہ نہیں تھا۔ ابھی تک صرف اسحاق ڈار کے کیس پر ان کے ساتھ ایم او یو ہوا ہے جبکہ ہمیں معلوم ہوا ہے کہ اسحاق ڈار نے وہاں اسائلم اپلائی کیا ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ نواز شریف امیگریشن ٹربیونل میں اپیل لے کر گئے ہیں، ابھی فیصلہ آنا باقی ہے۔ انہوں نے کہا کہ نواز شریف کا پاسپورٹ بھی ایکسپائر ہو چکا ہے، اگر ٹربیونل کا فیصلہ ان کے خلاف آتا ہے تو ان کو برطانیہ چھوڑنا پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے کریمنل جسٹس پیکیج تیار کیا ہے جس کو آئندہ جنوری میں پارلیمنٹ میں پیش کر دیا جائے گا۔