ایک مدت سے دْنیا یہ جانتی اور مانتی ہے کہ جس نے بھی امریکہ سے دوستی رکھی اْس نے کبھی فلاح نہ پائی۔امریکہ ایسا عیار اور مکار دشمن ہے جو دوسروں کی طرف ہاتھ بھی مطلب سے بڑھاتا ہے۔ اس دوستی کے اندر بھی خود غرضی پوشیدہ ہوتی ہے۔ اغراض ومقاصد کے نکل جانے کے بعد وہ اصل رْوپ دکھا دیتا ہے۔ یہی حال تقریبا پاکستان کے ساتھ بھی ہوا۔امریکہ کی نہ دوستی اچھی رہی نہ دشمنی۔ افغانستان کے حوالے سے پاکستان کے تعاون کی رْوداد سب کو معلوم ہے۔ اس جنگ میں پاکستان خوامخواہ کی کشمکش کا شکار رہا اور حالات کی سنگینی اور نقصانات برداشت کرتا رہا۔ پاکستان نے ترقی کے سفر میں چین کو اپنا ہمسفربنایا جواْس کے لئے ہمیشہ سودمند بھی رہا۔ چین ایک اچھے دوست اور خیر خواہ کے طور پر ہمیشہ پاکستان کے شانہ بشانہ رہا۔ سی پیک منصوبہ شروع ہوا تو امریکہ سمیت کئی دشمنوں کے سینوں پر سانپ لوٹ گئے۔ ظاہری سی بات ہے پاکستان کی ترقی اور کسی سے دوستی نہ امریکہ کو پسند رہی اور نہ ہی ہمسایہ ممالک کو برداشت ہوئی۔ امریکہ اور چین کی مخالفت بھی ہمیشہ قائم ودائم رہی اور باوجود ایک دوسرے کے ساتھ تجارتی تعلقات رکھنے کے عدم برداشت یامخالفت کے جذبات کبھی کم نہ ہوسکے۔ چین کے ساتھ امریکہ کے تعلقات میں بھی پاکستان نے اپنا کردار نبھایا اور ایک لمبی مدت کے بعد صدر بش نے فیصلہ کیا تھا کہ چین کے ساتھ تجارتی روابط رکھے جائیں۔غالب امکان تھا کہ یہ بات صرف تجارتی اغراض ومقاصدتک محدود نہ تھی کیونکہ امریکہ کے اغراض ومقاصد کے پیچھے کئی اور اغراض ومقاصد ہمیشہ پوشیدہ رہتے تھے۔ سپر پاور رہنے کی تمنا ہر چیز پر غالب ٓجاتی ہے اب حالات کافی تبدیل ہوچکے ہیں۔ آج کل امریکہ چین مخالف بلاک قائم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ کئی مغربی ممالک کے ساتھ مل کر چین کے خلاف منصوبہ جات تشکیل دئیے جارہے ہیں۔ مقصداْن کی دنیا بھر میں ساکھ کو نقصان پہنچانا ہے۔ دوسری طرف امریکہ کو اس وقت سب سے بڑا خطرہ چین کی ترقی سے درپیش ہے۔ چین جو ساری دْنیا پر چھایا ہوا ہے سپر پاور ہونے کی تمام خصوصیات بھی رکھتا ہے۔ چین اور بھارت کے حالات بھی کچھ عرصہ سے کافی کشیدہ چل رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ چین مخالف منصوبہ میں بھارت امریکہ کیساتھ ہی کھڑا ہوگا اور امریکہ چین کے اثرورسوخ کو کم کرنے کے لئے بھارت کی ہر طرح پشت پناہی کرے گا۔ کہتے ہیں کہ اگر دشمن کو نقصان پہنچانا ہو تو دشمن کے دشمن سے دوستی کرلو۔ امریکہ بھی اسی اْصول پر کارفرما ہے۔ یہ دشمنی اتنی سنجیدہ نوعیت اختیار کرچکی ہے کہ امریکہ چین دشمنی امریکہ کی قومی پالیسی کا حصہ بن چکی ہے۔یہ دشمنی پہلے کچھ اور بنیادوں پر استوار رکھی گئی تھی۔ سفارتی اور تجارتی سطح پر امریکہ نے ہر ممکن چین کو تنہا کرنے کی کوشش کی۔ جدید ٹیکنالوجی کے میدان میں اس کوپسپا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ لیکن ان تمام منصوبہ جات اورحربوں کے باوجود چین نہ صرف ترقی کی رفتار میں آگے سے آگے بڑھتا چلاگیا بلکہ دیگر کئی کمزور ممالک کا ہاتھ پکڑ کر اْنہیں آگے لے جانے کی کوشش بھی کرتا رہا۔ ان تمام اغراض میںتو امریکہ کو منہ کی کھانی پڑی اب اْنہوں نے ایک نیا منصوبہ تیار کیا اور اس سرد جنگ کا رْک جمہوریت، انسانی حقوق اور شخصی آزادیوںکی طرف موڑ دیا گیا۔ حیرت کی بات ہے کہ فلسطین اور کشمیر میں پائمال کی جانے والی شخصی آزادی پر امریکہ کی حساسیت کبھی نہیں جاگی۔ روہنگیا کے مسلمانوں پر ہونے والے مظالم نے بھی اس کے پتھر دل کو کبھی موم نہ کیا۔حال ہی میں امریکہ اور اس کے زیرِاثر مغربی ممالک کے جانے سے چین میں سرمائی اولمپکس کا بائیکاٹ اور صدر بائیڈن کی طرف سے بلایاگیا ایک سو جمہوری ممالک کے سمٹ کو تقسیم کرنے کی کوشش بھی کی گئی ۔ ایک شنید یہ بھی ہے کہ امریکہ کا ساتھ دینے یا نہ دینے کے فیصلہ میں پاکستان کوئی مضبوط اور مستحکم لائحہ عمل بھی بنائے گا اور غیرجانبدارنہ فیصلہ کرنے کی کوشش کریگا۔ اس فیصلہ سے پاکستان کو خطرات کاسامنا بھی کرنا پڑسکتا ہے کیونکہ شروع سے ہی ہمارے ذہن میں بیٹھ چکا ہے کہ کسی بھی معاملے میں امریکی حمایت نہایت ضروری ہے۔ انکار کی صورت میں بڑے نقصان کا خمیازہ بہرحال بھگتنا پڑے گا۔ امریکہ اور افغانستان کی جنگ میں پاکستان نے اپنا کتنا نقصان کرلیاہے۔ اب کسی بھی جانبدارانہ فیصلہ کی گنجائش باقی نہیں رہی۔ حق بات یہ ہے کہ اس کے برعکس چائنا نے ہر مشکل گھڑی میںپاکستان کا ہاتھ تھاما ہے۔ جب کئی ممالک اس دوستی کے سخت مخالف بھی تھے۔ ہر دو ممالک کے ساتھ یکساں طور پر چلنے کے لئے کوئی بھی فیصلہ نہایت سوچ سمجھ کر کرنا ہوگا۔